22 جون کو نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جب ملک بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے ایک نئے آپریشن ''عزمِ استحکام‘‘ کا اعلان کیا گیا تو بعض حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اچھا ہوا وزیراعظم آفس کی طرف سے اس معاملے کی بروقت وضاحت آ گئی۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کی تھی اور اس میں وفاقی کابینہ کے اہم اراکین‘ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ عسکری قیادت نے بھی شرکت کی تھی۔ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر غور کیا گیا جس کے بعد کمیٹی کے شرکا اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کی بقا کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک جامع‘ مربوط اور تمام ضروری وسائل سے آراستہ مؤثر آپریشن لازمی ہے۔
پاکستان کو گزشتہ دودہائیوں سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ ملک کے بعض سیاسی حلقوں کی رائے میں اس کی بڑی وجہ ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی تھی۔ ان حلقوں کا دعویٰ تھا کہ جس دن افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج نکل جائیں گی‘ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی امن قائم ہو جائے گا۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ نے یکم مئی 2021ء تک امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کردیا تھا۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد 15 اگست 2021ء کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے ایک عبوری حکومت کا اعلان کر دیا۔ توقع تھی کہ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان اور دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے آس پاس کے علاقوں میں مسلح افراد کی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل پر طالبان قبضہ کے بعد اعلان کیا تھا کہ آج کے بعد پاک افغان سرحدی علاقوں میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے لیکن توقع کے بالکل برعکس ملک کے شمال میں واقع قبائلی علاقوں میں‘ جہاں 2014ء اور 2017ء کے آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم ہو گئی تھیں‘ اچانک دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ ان سرگرمیوں کا نشانہ بننے والوں میں فوج کی نگرانی میں تشکیل پانے والی امن کمیٹیوں کے اراکین‘ مقامی سیاسی رہنما اور قبائلی زعما کے علاوہ عام لوگ‘ تاجر اور سول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل رہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ 2007ء سے 2014ء تک شمالی علاقوں میں جن دہشت گردوں نے پورے علاقے میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور جو ان علاقوں میں فوجی آپریشنز کے نتیجے میں افغانستان چلے گئے تھے‘ وہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد واپس آ گئے ہیں اور انہوں نے پھر وہی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو ضربِ عضب اور ردالفساد آپریشنز کے بعد بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں انہوں نے افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جنگ کے اختتام پر افغان طالبان نے انہیں واپس پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے پی ٹی آئی حکومت آمادہ بھی ہو گئی‘ لیکن ٹی ٹی پی کے یہ مسلح جنگجو نہ صرف اپنے ساتھ نیٹو افواج کے زیر استعمال جدید ترین ہتھیار لائے بلکہ اب وہ باقاعدہ جنگی تربیت یافتہ بھی تھے‘ جس کے نتیجے میں وہ پہلے سے زیادہ منظم اور خطرناک ثابت ہوئے۔ پاکستان میں ان کی سرگرمیوں میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 350سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے جبکہ پچھلے سال دہشت گردی کے واقعات کی کل تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ ان میں سے 84 فیصد دہشت گردی کے واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے اور ان واقعات کے نتیجے میں شہید ہونے والے 90 فیصد افراد‘ جن میں سکیورٹی فورسز کے جوان‘ افسران اور عام شہری بھی شامل ہیں‘ کا تعلق بھی انہی صوبوں سے ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا لازمی ہے کہ افغانستان میں جنگ بند ہونے اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی پاکستان واپسی کے بعد جب دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوا تو قبائلی علاقے کے لوگوں نے‘ جن میں سیاسی کارکن‘ کاروباری طبقہ‘ وکلا اور نوجوان شامل تھے‘ نے وسیع پیمانے پراحتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے ان شرپسندوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اس قسم کا ایک احتجاجی مظاہرہ اپریل 2023ء میں خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں بھی ہوا تھا جہاں یکے بعد دیگرے تین حملوں میں دہشت گردوں نے پاک فوج کے متعدد جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔ مظاہرے میں شامل لوگ ان حملوں کے خلاف اور امن کے حق میں مظاہرہ کررہے تھے۔ اس بڑے مظاہرے میں جن سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور ورکرز نے حصہ لیا ان میں پی ٹی آئی‘ پی ٹی ایم‘ اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام(ف) اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے علاوہ سماجی کارکنوں نے بھی اس مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حکومت سے دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے اور امن و امان قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مظاہرین‘ جہاں حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے وہاں منظم آپریشنز کی بھی مخالفت کر رہے تھے۔ اس قسم کا منظر لکی مروت میں اس سال مئی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں قبائلی زعما‘ سیاسی رہنما اور سماجی کارکن دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرنے کے ساتھ حکومت سے کوئی نیا آپریشن شروع نہ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس مظاہرے میں پی ٹی آئی کے مقامی رہنما آگے آگے تھے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک بھرپور اور مؤثر کارروائی کرنے کے حق میں بہت سی دلیلیں دی جا چکی ہیں۔ خاص طور پر مارچ میں بشام کے مقام پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کا چینی انجینئرز کو لے جانے والی گاڑی پر حملہ‘ جس میں پانچ چینی ہلاک ہو گئے تھے‘ کے بعد دہشت گردوں کی بیخ کنی ایک ناگزیر اور فوری نوعیت کے ایک موثر اقدام کی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ خصوصاً اس صورتحال میں جبکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں کی طرف سے ایسے اقدام کا متواتر مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ تاہم گزشتہ بیس برس میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ آج سے بیس‘ بائیس برس پہلے کے مقابلے میں موجودہ دور کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ اسی لیے دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن میں اس امر کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ ماضی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے گئے آپریشنز کے باوجود ملک کے قبائلی علاقے بدستور دہشت گردی کا شکار کیوں ہیں؟ ان آپریشنز کی منصوبہ بندی‘ ٹائمنگ‘ تیاری اور عملدرآمد میں جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف نیا آپریشن شروع کرنے سے قبل انہیں پیش نظر رکھنا ہوگا۔ نئے اقدامات میں ان غلطیوں کو دہرانے سے احتراز کرنا ہوگا۔ ورنہ ''عزم استحکام‘‘ سے مطلوب نتائج حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت اور خصوصاً دہشت گردی کے خلاف نئے اقدامات کی آپریشنل تفصیلات طے کرنے والوں کو اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ دہشت گردی سے متاثرہ مقامی لوگ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف حکومت سے سخت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف علاقے میں کسی بھی وسیع پیمانے پر آپریشنز کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved