میرا شمار تو خوشہ چینوں میں ہوتا ہے۔ ان گھنے ثمربار درختوں کی چھاؤں اور شیرینی سے فیض حاصل کرنے والوں میں‘ جن کا فیض عام بھی ہے اور تام بھی۔ان لوگوں کے درمیان‘ جن کے دستر خوانوں سے مجھے خوانِ حرف ملتا رہا ہے‘ چند جملوں کے ذریعے شامل ہونا بھی اسی طرح کا ایک اعزاز ہے جس طرح انکے مستفیدین میں شامل ہونا۔ ایک بار نہیں کئی بار دوستوں نے یہ اہم سوال پوچھا کہ زندگی میں کن کن کتابوں سے متاثر ہوئے یا ابتدائے سفر میں کن سے زیادہ استفادہ کیا۔ یہ سوال اہم سہی لیکن اتنا تفصیل طلب تھا کہ ہمیشہ اسکی طرف سے آنکھیں چراتا رہا۔ بہت زیادتی ہوتی ہے اگر زندگی میں کسی ایک محسن کا نام لے لیا جائے اور دوسرے کا چھوڑ دیا جائے یا ذہن میں فوری طور پر نہ آئے۔ میں ان دوستوں سے معذرت خواہ رہا۔ کبھی کبھار کسی کیلئے کوئی تحریر لکھ کر بھی بھیج دی لیکن یہ سوال دل میں نوک کی طرح چبھا ہی رہا۔ یہ دوست بھی کاہلی اور کوتاہی کو معاف کرتے ہوئے اپنی بڑائی کا ثبوت دیتے رہے۔ ایک بار پھر خیال آیا کہ میں اپنے ان محسنوں کا کم از کم ذکر تو کر دوں جنہوں نے مجھے رزقِ حرف فراہم کیا۔ اس تحریر کو نہ جامع سمجھنا چاہیے نہ حتمی‘ بس یہی سمجھنا چاہیے کہ نامکمل کہنہ و تازہ واردات تارِ حریرِ دو رنگ کی طرح گتھی ہوئی ہے۔
تعلق ایک دینی‘ علمی‘ ادبی گھرانے سے ہو‘ آبائی ذریعہ معاش کتاب کے گرد گھومتا ہو‘ خود بھی پڑھنے کی چاٹ لگی ہوئی ہو اور ہر اس شخص سے جڑے رہنے کے قدرتی اسباب بنتے چلے جائیں جو حرف سے جڑا ہوا ہو لیکن ان سب کے باوجود کتاب سے شغف نہ ہو تو اسے بڑی بدنصیبی نہیں تو پھر اورکیا کہیں گے؟ ہزار شکر کہ بے علمی‘ بے عملی کے باوجود اس بدنصیبی سے بچا رہا۔ گھر ہی میں وہ لوگ میسر آ گئے جو کتاب لکھتے‘ کتاب پڑھتے‘ کتاب پڑھاتے‘ کتاب چھاپتے اور کتاب بیچتے تھے۔ میرے محبوب چچا جان چچا تقی عثمانی‘ اللہ ان کا فیض تادیر قائم رکھے‘ کی شخصیت ہمارے سروں پر برگد کی طرح سایہ فگن رہی ہے۔ مجھے ان کی تحریروں‘ کتابوں سے وہ رہنمائی ملتی رہی جس نے میرا مطالعے کا ذوق اور سَمت دونوں کو مسلسل جلا بخشی۔ مجھے ہر اس کتاب‘ ہر اس تحریر‘ ہر اس رسالے سے دلچسپی ہو جاتی تھی جس کا ذکر ان کی زبان یا قلم سے ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے خالص فنی کتب اور عربی‘ فارسی زبانوں تک دسترس نہ ہونے کے باعث میں ان ذخیروں سے محروم رہا لیکن ان کتب کے تراجم پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا رہا اور اس کوشش کا کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہوتا رہا۔ یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی مجھے خود بھی کبھی مصنف بننے کا موقع دے گی اور قدرت میری تحریروں کو پڑھ کر سراہنے والے بھی پیدا کر دے گی لیکن ہوا بہرحال یہی۔ کچھ تراجم‘ کچھ تصانیف میرے حصے میں بھی آئیں۔ عطا کرنے والا جسے چاہے عطا کر دے۔ اللہ کے کرم سے شاعر اور نثرنگار کی وہ شناخت بھی میرے حصے میں آ گئی جس کا بہت سے لوگ بس خواب ہی دیکھتے ہیں۔ ایک طالب علم کو اگر اس طرح سراہا جانے لگے تو اسے حیرانی تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ساتھ خوشی‘ فخر اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیات بھی گھیر لیں گی۔ سو یہ میرا بھی اب تک غلاف ہیں۔
ادبی حوالے سے شاعری اور نثر میں مجھے کن کتابوں نے بہت متاثر کیا؟ ان دونوں شعبوں میں کن ذیلی اصناف سے زیادہ مکالمہ رہا؟ اردو کے علاوہ کن زبانوں کی کتابیں‘ نصابی اور غیر نصابی طور پر پڑھیں؟ ادب کے علاوہ کون سے موضوعات پلو پکڑ کر کھینچتے رہے؟ یہ اتنے متنوع اور طویل تحریر کے متقاضی سوالات ہیں جن پر لکھنا شاید اپنی پوری عمر کی روداد لکھنے جیسا ہے۔ توفیق میسر آئی تو ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا لیکن اگر اجازت ہو تو یہاں کتاب سے متعلق کچھ الگ قسم کی باتیں کر لوں۔
مئی کا مہینہ تھا اور ابر آلود موسم میں استنبول کی ایک سہ پہر میں جامعہ استنبول کے اردگرد‘ گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ شہر کے یورپی حصے میں تاریخی عمارات اورداستانیں سموئے ہوئے مقامات کے درمیان یہ علاقہ بہت پُررونق ہے اور ٹف ٹائل کے کھڑنجے سے بنی ان گلیوں میں قدیم بو باس اور خوشبو کے درمیان وقت گزارنا ایک الگ قسم کا مزیدار تجربہ ہے۔ کتابوں کی دکانوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک دکان کے سامنے میرے پاؤں رُک گئے۔ میں نے دکان کا نام پڑھا اور جلی حروف میں لکھے ہوئے ایک لفظ نے میرے قدم جکڑ لیے۔ بھئی واہ! کیا لفظ ہے۔ ترک زبان میں لکھا تھا: کتابچی۔ کتابچی‘ یعنی کتب فروش۔ کیا مزے کا لفظ ہے۔ مختصر‘ مکمل اور منفرد۔ کسی اردو دان کیلئے یہ لفظ مجھے ایسا لگا جیسے آپ کے سامنے کوئی نیا کھانا رکھ دیا جائے جس سے مانوس مہک اٹھ رہی ہو۔ توپچی‘ بندوقچی‘ کبابچی‘ نشانچی جیسے الفاظ کے خدوخال رکھنے والا اور اسی رنگ اور نسل کا یہ لفظ کیا اُردو میں مروج ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا یہ کتاب فروش کی نسبت کم وقار والا لفظ سمجھا گیا اور کتاب فروشی کے معزز پیشے کیلئے مناسب نہیں گردانا گیا یا اسے درخورِ اعتنا ہی نہیں جانا گیا اور بے اعتنائی کی گرد میں چھپ کر یہ لفظ گْم ہو گیا؟ صاحبِ فرہنگ آصفیہ سے پوچھا تو کتاب سے لے کر کتابی چہرہ تک کے سبھی کوائف اور شجرہ ہائے نسب بیان کر دیے لیکن کتابچی کے لفظ پر سکوت اختیار کیا۔ پتا نہیں دیگر لغات نویس اہلِ علم کا کیا مؤقف ہے لیکن حتمی نتیجہ شاید یہ نکلا ہے کہ ایک مزیدار مختصر لفظ ہم سے بچھڑ کے تہران‘ اصفہان اور استنبول کا باشندہ ہو کے رہ گیا۔ بھئی یہ تو ہمارا لفظ ہے۔ ایسا مختصر اور خوب صورت‘ جیسا اپنائیت بھرے لفظ کو ہونا چاہیے۔
میں غور کر رہا تھا کہ کتابچی لفظ کی مزید تحقیق کی جائے کہ آیا یہ لفظ ہمارے ذخیرے میں ہے یا نہیں اور اگر ہو تو کیا مضائقہ ہے۔ مجھے اردو کے دامن میں یہ کہیں نہیں ملا۔ لیکن میرے خیال کی رَو زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ کتاب فروش ہو یا کتاب خواں یا کتابچی۔ یہ سب کتاب سے جڑے ہیں۔ اس کاغذی کتاب سے‘ جو کاغذ پر لکھے ہوئے یا چھپے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس کا ایک سرورق اور ایک جلد ہوتی ہے‘ خواہ وہ نرم ہو یا سخت۔ کتاب نہیں تو یہ سب لوگ بھی نہیں‘ اور یہ سب لفظ بھی نہیں۔ جب کتاب ہی نہیں تو پھر ان لفظوں‘ پیشوں اور مشغلوں پر کیا بات کی جائے اور کتاب... کتاب تو ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے‘ جس طرح کسی دلدار دوست اور عزیز کا ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے پھسلتا جائے۔ آپ اسے مضبوطی سے پکڑنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کر دیں لیکن انچ انچ اور پورا پورا وہ ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے نکلتا جائے اور آپ بے بسی سے آنسو بہاتے رہ جائیں۔ کافی سال پہلے انہی بے بسی کے آنسوؤں میں بہتے ہوئے میں نے ایک شعر لکھا اور فیس بک پر اپنے احوال (سٹیٹس) پر درج کر دیا۔ شعر تھا:
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
شعر دل سے نکلا اور بے شمار دلوں میں جا لگا۔ اَن گنت لوگوں نے اسے شیئر کیا۔ تصویری پوسٹس بنائیں‘ ڈیزائن تخلیق کیے اور اپنے اپنے حلقوں میں پہنچایا۔ خطرہ سامنے کا تھا‘ مشاہدہ روز مرہ کا اور دکھ ہر ایک کا۔ اس لیے شعر دائرہ در دائرہ پھیلتا گیا۔ اس قبیلے نے اور اس نسل نے اور ہر اس فرد نے یہ دکھ محسوس کیا جو کتاب سے عشق کرتے آئے ہیں۔ عشق بھی کوئی ایسا ویسا؟ میں سوچ رہا ہوں لیکن کوئی مادی چیز ایسی یاد نہیں آ رہی جس سے انسانوں نے اتنا عشق کیا ہو۔ انسانوں کے سوا۔ من پسند کھانے‘ لباس‘ درخت‘ پھول‘ پھل‘ پودے‘ پرندے‘ مال دولت۔ ان سب سے پیار کیا گیا ہے‘ عشق کیا گیا ہے‘ لیکن کتاب سے محبت ان سب پر ہمیشہ سے فائق رہی۔ کتنے ہی نام ہیں‘جو اس مال و دولت کو ٹھکرا کر جس سے ایک دنیا خریدی جا سکتی تھی‘ کتاب کو سینے سے لگائے رہتے تھے۔ اَن گنت لوگ ہیں جن کی بیویوں کیلئے کتاب سوتن کی طرح رہی ہے۔ اَن گنت خواتین ہیں جو اپنے مسائل سے لوٹتی ہیں تو کتاب انہیں آغوش میں پناہ دیتی ہے۔ اور کوئی ایسی مثال نہیں۔ ہے کوئی اور مثال کتاب جیسے عشق کی؟ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved