آپ اکثر ٹوئٹر ‘فیس بک یا ٹک ٹاک ریلز پر دیکھتے ہوں گے کہ کسی غیر ملک میں شاہراہ پر اگر کسی ٹرک یا کسی بندے سے کچھ اشیا گر جائیں تو کافی لوگ گاڑیاں روک کر وہ اشیا اکٹھی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ دوبارہ اس بندے یا ٹرک پر رکھ دی جائیں اور ان کا نقصان نہ ہو۔کیا ہمارے ہاں‘ پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہے‘ جہاں تقریباً ہر دوسرے بندے نے حج یا عمرہ کررکھا ہے اور 98 فیصد مسلمان رہتے ہیں؟ مسلمانوں پر ایک دوسرے کا مال حرام قرار دیا گیا ہے۔ اپنے بھائی کا حق مارنے کی اجازت تک نہیں۔ حلال حرام کا فرق بڑا واضح بتایا گیا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں موقع ملتے ہی لوگ دوسروں کی چیزیں لوٹ لیتے ہیں؟ کچھ عرصہ پہلے آپ کو یاد ہوگا قربانی کے موقع پر کسی بچے سے بکرا لے کر اسے جعلی نوٹ پکڑا دیے گئے تھے۔ ایک جلسے میں بچہ کیلے بیچ رہا تھا تو اُس کے سارے کیلے ہجوم کھا گیا ۔ کسی نے اُس روتے بچے کی ہتھیلی پر روپیہ یا سر پر ہاتھ نہ رکھا۔ ابھی تازہ ترین واقعہ فیصل آباد کے قریب ہوا جہاں بوتلوں سے بھرا ٹرک کسی حادثے کا شکار ہوا توعوام اس ٹرک پر ٹوٹ پڑے اور بوتلوں کے کریٹ اتار کر لے گئے۔ خواتین بھی بوتلوں کے کارٹن اتارنے میں لگی ہوئی تھیں‘ کئی بچے بھی شامل تھے۔گزرتے ہوئے لوگوں نے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں روک کر اُس ٹرک کو لوٹا۔ اس ہجوم کو دیکھیں تو وہ ایسے لوگ نہیں تھے جو کئی روز سے بھوکے ہوں‘ ان میں اکثریت وہ تھے جو روز دو تین بوتلیں پینا افورڈ کر سکتے ہیں۔ ویسے جب یہ لوگ اُس ٹرک سے بوتلیں لوٹ کر گھر گئے ہوں گے تو انہوں نے گھر میں اپنے بچوں یا خاوند یا بیوی یا بہن بھائیوں یا محلے داروں کو کیا بتایا ہوگا؟میں بتاتا ہوں۔ انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں کہا ہوگیا کہ فلاں چوک پر ٹرک کو حادثہ ہوا اور سب نے وہ ٹرک لوٹا تو میں نے بھی بھاگ کر کریٹ اٹھا لیے۔ پھر سب نے وہ بوتلیں کھول کر پی ہوں گی‘ قہقہے لگائے گئے ہوں گے۔ پارٹی کی گئی ہوگی۔ اب جو اس گھر میں بچے ہوں گے ان کے رول ماڈل یہی‘ ان کے ماں باپ‘ بہن بھائی ہوں گے جو ایک ٹرک سے بوتلیں لوٹ کر ان کی پرورش کررہے ہیں اور انہیں سبق دے رہے ہیں کہ بیٹا جہاں مفت یا حرام کا مال ملے یا دائو لگ رہا ہو تو لگا لینا چاہیے۔
آپ کیا کہتے ہیں ان لوٹنے والوں کے گھر وں میں کسی ایک بڑے یا بچے‘ خاتون مرد نے کہا ہوگا کہ تم نے غلط حرکت کی‘ گھٹیا کام کیا‘ یہ حرام تھا جو تم گھر لے آئے ہو۔ کیا کسی بیوی نے اپنے خاوند کے لوٹے ہوئے کریٹ کو اپنے بچوں کو پلانے سے منع کیا ہوگا کہ وہ حرام کا قطرہ اپنی اولاد کے منہ میں نہیں جانے دے گی؟ آپ میری بات پر ہنسیں گے کہ بھلا ایسا کس دنیا میں ہوتا ہے۔ جی بالکل ہوتا ہے۔ میرے ذاتی قریبی دوست کے ساتھ ہوا جو آج کل لندن میں ہے۔ اُس کی بہن کی شادی ہوئی۔ بچہ بھی ہوگیا۔ایک دن میرے دوست کی بہن کو احساس ہوا کہ اُس کا خاوند رشوت لے رہا ہے۔ اُس نے اپنا بچہ لیا اور والدین کے گھر آگئی۔ اُس نے کہا :وہ اپنے بچے کو حرام کا لقمہ نہیں کھلائے گی۔ اُس کا خاوند آیا‘ اُس نے سب کے سامنے اس کو قسم دی کہ اب وہ کبھی رشوت نہیں لے گا۔ وہ پھر اس کے گھر گئی۔ ابھی اس کے خاوند کی دو سال پہلے وفات ہوئی ہے اور اب اس کے بچے ماشااللہ جوان ہیں اور حلال کی کماتے ہیں کہ اُن کی ماں نے اپنے بچوں کیلئے سٹینڈ لیا تھا۔ آپ کہیں گے کتنی خواتین یہ کام کرسکتی ہیں کہ اپنے خاوندوں کو روکیں؟ وہ بے شک نہ روکیں لیکن جس بیوی نے برسوں پہلے اپنے خاوند کو روکنا تھا‘ روک لیا ۔
اور سنیں۔ ابھی خبر آئی ہے کہ راولپنڈی کے ایک تھانے نے نو مئی کے ہنگاموں میں جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا اُن کے موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیا قبضے میں لے لی تھیں۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ وہ 33 موبائل فونز تھانے والوں نے بازار میں بیچ کر لاکھوں روپے کما لیے تھے۔ اب اس کا پرچہ ایک کانسٹیبل پر کیا گیا ہے‘ وہ بھی عدالت کے حکم پر ورنہ پولیس والے حسبِ عادت اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے چکر میں تھے کہ بدنامی ہوگی۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ کام سپاہی اکیلا کرسکتا ہے یا اس میں پورا تھانہ ملوث ہوگا اور پورے تھانے میں وہ پیسے بانٹے گئے ہوں گے؟ کوئی پتہ نہیں تھانے سے مال اوپر کے چند افسران تک بھی پہنچا ہو۔ اب سارا نزلہ ایک سپاہی پر ڈال کر دوسروں کو بچا لیا جائے گا۔ اب جن پولیس والوں نے اس سپاہی پر پرچہ دیا ہے وہ کیا کریں گے؟ ان میں سے کتنے ایمانداری سے اسے سزا دلوانے کی کوشش کریں گے کہ ہماری وردی کی بدنامی ہوئی یا اس پیٹی بھائی کی ضمانت کرائیں گے اور چند ہفتوں بعد وہ سپاہی کسی کی سفارش پر اپنی ڈیوٹی پر دوبارہ دوسروں کی جیب کاٹ رہا ہوگا۔
جو بچہ گھر میں ماں یا باپ یا بڑے بھائی کی کسی ٹرک سے لوٹی بوتل پی چکا ہو اور اس کام کو اس کا خاندان غلط نہ سمجھتا ہو تو وہ کیونکر 33 موبائلز فونز اور دیگر قیمتی سامان مارکیٹ میں بیچنے کو غلط سمجھے گا؟ وہ تو اس پر اپنے خاندان‘ دوستوں اور ساتھیوں سے داد مانگے گا۔ بلکہ وردی والوں کو حصہ بھی دے گا اور کھانے کی پارٹی دے گا اور ایسی مزید پارٹیاں ڈھونڈے گا۔ میرے اپنے چند جاننے والے ہیں جو اسلام آباد میں کچھ اہم غیرسرکاری عہدوں پر ہیں۔ ان میں سے ایک کے بھائی کو لاہور کے ایک تھانے سے فون آیا کہ تمہارا فون جیو فینسنگ میں 9 مئی کے واقعات میں آیا ہے۔ پورا خاندان ڈر گیا۔ اُس نے مجھے کال کی کہ تھانے والے30 ہزار مانگ رہے ہیں۔ کیا کریں۔ پھر انہوں نے وہی کیا جو ہر سمجھدار بندہ کرتا ہے۔ 30 ہزار دے کر بھائی کا نام فہرست سے نکلوایا۔ دنیا ٹی وی کے بیوروچیف حسن رضا کو یاد ہوگا جس کو میں نے فون کیا تھا۔9 مئی ایک بزنس بن گیا تھا پولیس کے لیے اور رَج کے لوگوں سے پیسہ لے کر ان کے نام' فہرست‘ سے نکالے گئے۔ کسی کا نام ڈال دو۔ تھانے سے فون کر دو۔ اگلا بندہ کیسے انکار کرسکتا ہے؟
لوگ کہتے ہیں میرٹ پر بھرتیاں ہوں تو لوگ کرپشن نہ کریں‘ ایمانداری سے کام کریں۔ میں پہلے بھی واقعہ سنا چکا ہوں پھر سنا دیتا ہوں جو میرے دوست جنید نے سنایا تھا جو برسوں پہلے مظفرگڑھ اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ ڈی سی نے فیصلہ کیا کہ اب کی دفعہ سب پٹواری میرٹ پر ہائر ہوں گے۔ شاید 23 سیٹیں تھیں۔ سب دبائو کو مسترد کر کے میرٹ پر تعلیم یافتہ نوجوان پٹواری چنے گئے۔ میں نے جنید سے پوچھا کہ کتنا عرصہ وہاں رہے ان میرٹ والی تعیناتیوں کے بعد؟ جواب تھا کہ ڈیڑھ سال۔ میں نے پوچھا : اب ایمانداری سے بتائیں ان میرٹ والوں میں سے کتنوں کے خلاف شکاتیں ملیں کہ وہ عام لوگوں سے پیسے لے کر کام کرتے ہیں ؟ جنید نے افسردہ ہو کر جواب دیا: 18 کے خلاف شکایتیں آئی تھیں کہ وہ پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ جنید نے بتایا کہ پرانے پٹواری کا ریٹ دو سو روپے تھا تو وہ پانچ سو روپے لیتے تھے۔میں نے جنید کو کہا: اگر ڈیڑھ سال میں 18 کے خلاف شکایتیں آئی تھیں تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ اگلے ایک سال میں باقی پانچ کے خلاف بھی شکایتیں آئی ہوں گی۔ ان پانچوں کی وجہ سے آپ کا بھرم رہ گیا تھا کیونکہ آپ کی جلدی ٹرانسفر ہوگئی‘ لہٰذا آپ آج تک سمجھتے ہیں کہ چلیں کم از کم میرٹ پر لگے پانچ پٹواری تو کرپٹ یا بے ایمان نہیں تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved