جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلسل ایک ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک معاملہ ٹھیک ہوتا ہے تو دوسرا خراب ہو جاتا ہے اور دوسرے کو ٹھیک کریں تو پہلا خراب ہو جاتا ہے۔ وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مجھے لگتا ہے کہ یہ جو دریاؤں کا ذکر ہوا ہے تو یہ دراصل اپنے ملک کے حالات کا ہی ذکر ہے۔ معاملات پہلے بھی اتنے خوشگوار یا آسان نہیں تھے‘ غربت تھی‘ مالی مسائل تھے‘ بے روزگاری تھی‘ مہنگائی بھی تھی‘ لیکن اتنا شور‘ اتنا واویلا کبھی سننے میں نہیں آیا تھا جتنا ان دنوں مشاہدے میں آتا ہے۔ چار سُو ہاہاکار مچی ہوئی ہے اور حکمران روم کے نیرو کی طرح چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں تب ایک وسیع متوسط طبقہ تھا۔ سب ایک جیسے تھے۔ سب ایک دوسرے کے حالات سے واقف اور آگاہ بلکہ بھیدی اور راز دان تھے‘ لیکن سب امن اور سکون کے ساتھ رہتے تھے۔ اس طرح کی مارا ماری اور بے سکونی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ میرا بچپن پُرانے لاہور میں گزرا ہے۔ وہ پرانا لاہور جسے اولڈ سٹی یا والڈ سٹی کہتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جیسی گرمیاں آج کل پڑ رہی ہیں‘ ایسی گرمیوں میں مرد لوگ گھروں اور کمروں کے اندر کی گرمی اور حبس سے گھبرا کر باہر گلیوں اور کٹڑوں میں کھلے عام سوتے تھے اور اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی کہیں کوئی واردات ہوتے نہیں دیکھی‘ نہ سنا۔ محلے میں اگر کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو سبھی خود اس گھر میں آتے اور پوچھتے تھے کہ کوئی کام ہے تو بتائیں۔ اور بارات والے دن تو پورا محلہ ایسی تیاریوں میں مصروف ہوتا جیسے کسی اور کی نہیں ان کی اپنی بہن یا بیٹی کی شادی ہو۔ تب زیادہ تر لوگوں کی ماہانہ تنخواہ سینکڑوں روپے میں ہوتی تھی یعنی چند سو روپے لیکن اچھا گزارہ ہوتا تھا‘ سب کا بھرم قائم تھا۔ اب لوگ لاکھوں کماتے ہیں لیکن ان کے لب شکوؤں سے خالی ہی نہیں ہوتے۔
میں نے بڑا غور کیا‘ بڑا سوچا کہ اُس سکون اور اِس بے سکونی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ دو چیزیں ذہن میں آئیں‘ پہلی یہ کہ تب سرکاری ادارے واقعی عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے‘ اور لوگوں کے جائز کام بغیر کسی کی مٹھی گرم کیے ہو جاتے تھے۔ آج کل کی طرح نہیں کہ عوام سرکاری اداروں سے پناہ مانگ رہے ہیں۔ دور کیا جانا بجلی کے بلوں کو ہی لے لیں۔ بجلی روزمرہ استعمال کی ایک عام سی چیز ہے لیکن اس کا حصول اور اس کا استعمال اس قدر مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کہاں ایسا ہوتا ہے کہ بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس سمیت متعدد ٹیکس لگائے جاتے ہوں؟ پہلے بل ایک دو روپے ماہانہ آتے تھے‘ پھر دس بیس روپے ماہانہ ہوئے‘ پھر ایک دو سو روپے ماہانہ وصول کیے جانے لگے اور پھر یوں ہوا کہ ایک دو ہزار روپے ہر ماہ بل آنے لگے۔ وہ جو تسلیم فاضلی نے کہا تھا:
پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے
آپ سے پھر تم ہوئے پھر تُو کا عنواں ہو گئے
یہ سب صارفین برداشت کرتے رہے‘ بل ادا کرتے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ ہر حکومت عوام کو ریلیف دینے کے جو وعدے کرتی ہے‘ وہ صبح کبھی تو طلوع ہو گی جب لوگ اٹھیں گے تو انہیں وہ ریلیف مل چکا ہو گا۔ پچھلے 77 برسوں میں تو یہ خواب خواب ہی رہا ہے‘ اس کی تعبیر کہیں دکھائی نہیں دی۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بجلی کے بلوں سے تنگ آئے لوگ مسجدیں بند کر رہے ہیں اور بل دیکھ کر زندگی پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر عام ہے کہ لاہور کے ایک علاقے میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر امام صاحب نے مسجد کو تالا لگا دیا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ سینئر اداکار راشد محمود بجلی کا 45 ہزار کا بل دیکھ کر پھٹ پڑے اور بل کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اربابِ اختیار کو کھری کھری سناتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے۔ ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ ان کا 701 یونٹ کا بل 45368 روپے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چار مرتبہ ہارٹ اٹیک کے باوجود اللہ کے کرم سے زندہ ہیں لیکن آج سوچتے ہیں کہ میرے اللہ مجھے کیوں بچایا۔ انہوں نے کہا: میں نے اپنی ساری زندگی اس ملک کی نہایت ایمان داری کے ساتھ خدمت کی‘ ہمارے کاموں کے باعث یہاں اربوں روپے اکٹھے ہوئے لیکن پچھلے کئی سالوں سے لاہور میں ہمارے لیے کوئی کام نہیں‘ اب میں 45 ہزار بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے پیسے کہاں سے لاؤں؟ سینئر اداکار نے آب دیدہ ہوتے ہوئے کہا: میرے پاک پروردگار میں ایک غلط ملک میں پیدا ہوا‘ ہم نے زندگی رب کے خوف سے گزاری‘ کیا یہی ہمارا قصور ہے؟ میرے مالک مجھے اٹھا لے‘ میں زندہ نہیں رہنا چاہتا‘ میں باہر جا کر بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن میں نہیں گیا‘ میرا دل دکھا ہوا ہے‘ میں بیمار ہوں‘ مرنے کی دعا کرنے لگا ہوں‘ میں نے اس ملک کی ساری زندگی خدمت کر کے غلط کیا‘ اگر میں بھی چوروں کے ساتھ شامل ہو جاتا تو یہ چیخ و پکار نہیں کرتا۔
اب ہو گا یہ کہ حکومتی عہدے دار لپکیں گے اور جا کر راشد محمود کی داد رسی کریں گے‘ ٹی وی چینلز پر ان کی خبریں آئیں گی‘ امداد دیتے ہوئے ویڈیوز چلیں گی‘ اخبارات میں باتصویر خبریں لگیں گی۔ دنیا کو بتایا جائے گا کہ دیکھیں حکومت اور حکمران کتنے رحم دل‘ خدا ترس اور عوام کی مشکلات کا کتنا خیال رکھنے والے ہیں۔ اس کے بعد کسی کے ذہن میں بھی نہیں آئے گا کہ راشد محمود ابھی زندہ ہے اور ابھی اس نے اگلے مہینے کا اور اس سے اگلے مہینوں کے بل بھی ادا کرنے ہیں‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تو ایک راشد محمود کا واویلا تھا یہاں تو لاکھوں راشد محمود رُل گئے ہیں‘ اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انسان اور انسانیت کی اس قدر ذلت اور اس قدر بے حرمتی اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اسی لیے تو کہا ہے کہ وہ وقت غربت کا تھا‘ لیکن آسان تھا‘ اب پیسہ ہے لیکن ساتھ ساتھ بے حسی ہے۔ عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے ادارے ہی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔
دوسری چیز کرپشن‘ رشوت اور اقربا پروری کے چلن کا عام ہونا ہے۔ کرپشن کا مطلب سمجھتے ہیں؟ میرے خیال میں کرپشن سے مراد ہے کسی کا حق کھانا۔ تو جب سے ہم نے دوسروں کے حق کھانے شروع کیے ہیں‘ ہماری پوری نہیں پڑ رہی۔ بجلی کے بلوں میں درجن بھر ٹیکس ہیں‘ اس کے باوجود ہر دوسرے چوتھے روز سننے میں آتا ہے فی یونٹ اتنا اضافہ کر دیا گیا‘ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اتنے پیسے بڑھا دیے گئے۔ اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اتنے زیادہ بل کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بھیجے جا رہے ہیں۔ اگر لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی تو پتا نہیں بل کہاں جا پہنچتے؟
تازہ خبر یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف نے ڈو مور کا مطالبہ کر دیا ہے۔ خبر کے مطابق آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے ریٹ میں اضافہ چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان یکم جولائی سے بجلی کے ریٹ میں اضافہ کرے۔ بتایا گیا ہے بجلی مہنگی کرنے کے لیے نیپرا کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کیا جائے گا۔ اب بتائیے پہلے سے مرنے کی دعائیں کرنے والے ہمارے سینئر فنکار راشد محمود اور اس ملک کے دوسرے لاکھوں راشد محمود کہاں جائیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved