قومی اسمبلی سے 18 ہزار 877 ارب روپے کا بجٹ منظور کر لیا گیا ہے۔ حسبِ توقع عوام اور ان کے نمائندہ اداروں کی تجاویز اور گزارشات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ بہت سے کاروباری حلقوں میں امیدیں باندھی جا رہی تھیں اور انہیں حکومتی ارکان کی جانب سے یقین دہانیاں بھی کرائی گئی تھیں لیکن ریلیف ملنے کے بجائے اضافی ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔ بلڈرز اور ڈویلپرز کی کسی بھی پراڈکٹ پر تین فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔رئیل اسٹیٹ کی مد میں وصول ہونے والی مجموعی رسیدوں پر دس سے پندرہ فیصد ٹیکس بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔ جبکہ وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کیپٹل گین ٹیکس ریٹ میں کمی ہو گی۔ اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس ریٹ اور سلیب کم کرنے کے بجائے اضافی 10 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس سے تنخواہ دار طبقہ 39 فیصد تک ٹیکس ادا کرے گا۔یہ صرف تنخواہ لینے والوں کے لیے مشکل نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال تنخواہ دینے والوں کے لیے بھی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ایسے میں ٹیکس چوری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ ملازمین کو ریلیف دینے کے لیے کیش میں تنخواہیں دینے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ درآمدی سٹیشنری آئٹم پر ٹیکس چھوٹ ختم کر کے دس سے بیس فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ پیکجڈ دودھ اور دیگر اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس بھی لگ گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف جولائی سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مزید اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
بجٹ منظور ہونے کے بعد یہ تاثر زیادہ تقویت اختیار کر گیا ہے کہ یہ بجٹ سرکاری ملازمین اور پارلیمنٹ کو ریلیف دینے کیلئے بنایا گیا۔ ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کے ٹکٹس پر ٹیکس بڑھا دیے گئے ہیں اور ممبرانِ پارلیمنٹ کے ہوائی سفر پر مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بزنس کلاس کے ٹیکس ریٹس میں اضافہ کسی حد تک جائز ہے اور عوامی سطح پر اس پر زیادہ تشویش نہیں ہے لیکن اکانومی کلاس میں سفر کرنے والوں کے ٹیکس ریٹ میں 150 فیصد اضافے پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ یعنی اگر کوئی پاکستانی مزدوری کرنے کیلئے سعودی عرب وغیرہ جاتا ہے تو وہ سرکار کو 150 فیصد اضافی ٹیکس دے کر جائے گا۔ سیروسیاحت کرنے والوں اور مزدوری کیلئے سفر کرنے والوں میں تفریق کی ضرورت ہے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے پارلیمنٹ کے ممبرز کیلئے سفری سہولتیں مزید بڑھادی گئی ہیں۔ پچھلے مالی سال میں ایئر ٹکٹس الائونس ایک سال تک استعمال نہ کرنے پر خود بخود ختم ہو جاتا تھا لیکن نئے بجٹ میں استعمال نہ ہونے پر ایئر ٹکٹس الائونس اگلے سال بھی استعمال کیے جا سکیں گے۔ اراکینِ اسمبلی کا سفری الاؤنس دس روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر25 روپے فی کلومیٹر کر دیا گیا ہے۔ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات بڑھانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی متعلقہ اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ عوام کو بتائے کہ کیا اسمبلی اراکین کو یہ سہولتیں دینے کیلئے بھی آئی ایم ایف کا دباؤ تھا اور کیا کروڑوں روپے الیکشن پر لگا کر اسمبلی ممبر بننے والے اراکین اپنے سفری اخراجات خود برداشت نہیں کر سکتے؟ آپ عوام کے درد کی بات کرتے ہیں جبکہ بجٹ منظور ہونے کے بعد یہ تاثر پختہ ہو گیا ہے کہ اس حکومت کو عوام کا نہیں بلکہ اراکینِ اسمبلی کے درد کا احساس زیادہ ہے۔ سفری اخراجات والی ترمیم پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے پیش کی تھی جسے من و عن منظور کر لیا گیا۔ چند روز قبل بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم سے ناراض ہو گئے تھے کیونکہ انہیں بجٹ کے حوالے سے'' تحفظات‘‘ تھے۔ ناراضی جب ختم ہوئی تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عوام کو بجٹ میں ''ریلیف‘‘ ملے گا لیکن عبدالقادر پٹیل کی جانب سے سفری اخراجات اور مراعات کی قرارداد پیش ہونے کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید تحفظات اسی مدعے پر تھے‘ کیونکہ عوام کو ریلیف دینے کی کوئی ترمیم پیش نہیں کی گئی۔
نئے بجٹ میں اگر کسی ٹیکس نے مڈل کلاس کو بُری طرح متاثر کیا ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس ہے۔ حکومت نے یہاں بھی سرکاری اور نجی قانون الگ کر دیا ہے۔ فوج‘ وفاق اور صوبوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پر پراپرٹی کی ٹرانزیکشن پروِدہولڈنگ ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔اس نوازش کی وجہ کیا ہے‘ عوام بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں سرکاری ملازمین اور عام شہریوں میں یہ تفریق کیوں روا رکھی گئی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ عام عوام سے پراپرٹی کے اضافی ٹیکس لیے جائیں اور ان کے خون پسینے کی کمائی سے سرکاری ملازمین کو سہولتیں دی جائیں؟ عام آدمی اب سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر موقع ملے تو پہلی فرصت میں یہ ملک چھوڑ کر باہر چلاجائے۔ ویسے سرکار نے اب ہوائی جہاز کے ٹکٹوں پر جتنے ٹیکس لگا دیے ہیں شاید باہر جانا بھی اب مزید مشکل ہو جائے اور اگر مجبوراً پاکستان میں رہنا ہے تو کوئی سرکاری نوکری کر لی جائے کیونکہ جو مراعات اور سہولتیں انہیں میسر ہیں وہ نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں کو میسر نہیں۔
اس بجٹ پر یہی کہنا مناسب ہو گا کہ کچھ شعبوں میں عوام کو موت دکھا کر بخار پر راضی کیا گیا ہے۔نان فائلرز کے موبائل کارڈ اور بل پر75 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس لگانے کی تجویز دینے والے کو بھی سامنے لایا جائے۔ پھل فروش‘ دیہاڑی دار مزدور‘ ریڑھی لگانے والے کروڑوں افراد اور طالبعلم نان فائلرز ہیں۔ ان سب کے موبائل کارڈز پر75 روپے ٹیکس لگانے کو کسی بھی طریقے سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 25 فیصد سے کم کر کے دوبارہ 8.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف حکومت بجلی کی بچت کرنے اور مقامی سطح پر الیکٹرک ہائبرڈ گاڑیاں بنانے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف مقامی سطح ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا دیتی ہے‘ گو کہ اضافی ٹیکس ختم کر دیا گیا لیکن اس طرح کی تجاویز بجٹ میں شامل نہیں کی جانی چاہئیں۔ اس سے موقع پرست فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پچھلے پندرہ دنوں میں یہ گاڑیاں دس سے بارہ لاکھ اون پر بکی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ 20 کے بجائے 10 روپے کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے میں نے پچھلے کالموں میں کئی مرتبہ آواز اٹھائی کہ اگر پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو کم کردیا جائے تو پٹرولیم لیوی بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ حکومت نے تقریباً 250 ارب روپے پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو کم کیا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم لیوی میں کمی ہوئی ہے۔
بجٹ کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دی گئی تمام تجاویز کو حکومت نے کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کا بجٹ منظور کرنا اور اپوزیشن کی تجاویز پر کان نہ دھرنایہاں کی پارلیمانی روایت رہی ہے‘ جسے اب ختم ہونا چاہیے۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اپوزیشن کوئی بھی تجویز دے تو حکومت نے اسے مسترد کرنا اپنی کامیابی سمجھتی ہے‘ لیکن موجودہ بجٹ میں اپوزیشن کی جانب سے جو تجاویز دی گئی تھیں وہ بھی گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف تھیں۔ دونوں اطراف سے سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اپوزیشن ارکان نے حسبِ معمول احتجاجاً ًواک آوٹ کیا۔ اس عمل سے بجٹ کو کیا فرق پڑے گا‘ اپوزیشن ارکان کو یہ بھی بتانا چاہیے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے اور بائیکاٹ جمہوری عمل ہے لیکن اس سے بہتر عمل یہ ہوتا کہ اپوزیشن اس بجٹ کے مقابلے میں ایک بہترین بجٹ بناتی اور اس کی کاپیاں اسمبلی میں جمع کراتی۔ میڈیا کو بھی یہ شیڈو بجٹ دیا جاتا۔ اسمبلی میں اس پر بات ہوتی۔ اگر حکومت توجہ نہ دیتی تو میڈیا چینلز پر ان پر ضرور بات ہوتی اورموازنہ کیا جاتا کہ ان حالات میں کس طرح کا بجٹ پیش کرنا چاہیے تھا۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ بجٹ عوام پر بوجھ ہے اس لیے ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved