ہم وہ نسل ہیں جو لکھے ہوئے لفظ سے عشق کرتے آئے ہیں۔ تیسری‘ چوتھی جماعت میں تھے جب گلے میں بستہ حمائل کیے ہاتھ میں لکڑی کی تختی جھلاتے سکول جایا کرتے‘ انگوٹھے اور ہاتھ کی تیسری انگلی سے تختی کی گردن دبائے پیدل لمبا سفر طے کرتے‘ لکھائی کا گھنٹہ شروع ہوتا تو پنسل اور 'فُٹے‘ سے تختی پر مسطر بناتے اور ابجد اور حروفِ تہجی لکھنے کی مشق کیا کرتے۔ سرکنڈے کے قلم کو قط لگانا‘ سیاہی کی دوات میں روشنائی کی پڑیا انڈیل کر ایک تناسب سے پانی بھرنا‘ دوات میں سیاہی چوسنے کے لیے ایک چھوٹی سی سوتی کپڑے کی دھجی ڈالنا زندگی کے معمولات میں شامل ہو چکا تھا۔ تختی دھو کر اسے پھر گاچنی سے لیپنا‘ سردیوں میں اسے دھوپ میں سوکھنے کیلئے دیوار کے سہارے کھڑا کرنا اور گرمیوں میں تختی لہرا لہرا کر لیپی ہوئی گاچنی خشک کرنا سیکھ چکے تھے۔ سلیٹ اورسلیٹی زادِ تعلیم میں ہمارے ساتھی تھے اور چاک اور بلیک بورڈ ہمارے اگلے رفیق۔ ذرا بڑے ہوئے تو 'بچوں کی دنیا‘، 'نونہال‘ اور 'تعلیم و تربیت‘ نے ہماری دلچسپیوں میں جگہ بنا لی۔ دہلی سے آنے والے رسالے 'کھلونا‘ میں ننھا راج کمار اور نسطور جن ہمارے ناقابلِ فراموش ہمجولی تھے۔ یہ رسالے ہاتھ میں آتے تو تازہ کٹے ہوئے نیوز پرنٹ کی مہک مست کر دیتی اور یہ خیال کہ اب یہ سب کہانیاں ہماری دسترس میں ہیں‘ چلچلاتی دوپہروں اور سرد راتوں میں بھی سرشار کیے رہتا۔ 'عالی پر کیا گزری‘ شاید بچوں کا وہ پہلا ناول تھا جو میسر آیا اور نقش ہو کر رہ گیا۔ ڈائجسٹوں میں 'اردو ڈائجسٹ‘ مقبولِ عام تھا اور معلومات افزا بھی۔ ابھی دیگر ڈائجسٹوں تک رسائی مشکل تھی لہٰذا ایک ہی رسالہ بار بار پڑھا جاتا حتیٰ کہ حفظ ہو جاتا۔
کچھ اور بڑے ہوئے تو تختی اور سلیٹ نے خدا حافظ کہا اور کاپیوں اور نوٹ بکس کے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ تھما دیا۔ سرکنڈے کے قلم کی جگہ اب ہاتھ میں سیاہی بھرنے والا ایگل پین تھا جو ہر طالبعلم کے پاس نظر آتا تھا۔ اب تحریر کی باگ ڈور اسی کی نوکِ زباں پر تھی۔ ذرا عمر بڑی ہو جائے تو کتابوں کی دنیا میں کئی ندیاں‘ کئی دھارائیں اکٹھی بہہ نکلتی ہیں۔ ایک ساتھ اور ایک دوسرے کے متوازی‘ جنہیں آگے چل کر ایک بڑے دریا میں گرنا ہوتا ہے۔ نصابی کتابیں تو خیر پڑھنی ہی پڑتی تھیں لیکن غیر نصابی کتابوں میں بھی دین‘ مذہب‘ ادب‘ نثر‘ شاعری‘ فکشن‘ جاسوسی‘ سفرنامے‘ گفتنی ناگفتنی‘ غرض ہر موضوع پر کتاب موجود تھی؛ چنانچہ ایک ساتھ کئی سمتوں میں چل نکلے جس کی بہرحال سمت کوئی ایک ہی تھی۔ جو کچھ ہاتھ لگا‘ پڑھ ڈالا۔ کتاب کے بغیر نہ گزارا تھا نہ چین پڑتا تھا۔ رات سوئے تو کتاب سینے پر سر رکھ کر سو گئی۔ صبح جاگے تو کتاب نے بھی آنکھیں کھول لیں۔ رسالوں کے بعد 'فیروز سنز‘ کے بچوں کے ناول اگلا موڑ تھا اور ابن صفی کے جاسوسی ناول اس سے اگلا موڑ لیکن انہی کے درمیان نسیم حجازی اپنی تمام اثر انگیزی کے ساتھ زندگی میں شامل ہو چکے تھے۔ یہ نسیم حجازی کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے مجھے اعلیٰ اور دلچسپ نثر کے ذریعے تاریخ کی طرف راغب کیا۔
شعور کی آنکھیں کھلیں تو خود لکھنا شروع کیا۔ خود صاحبِ کتاب ہونے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا لیکن سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو کتاب میں لکھ دیا گیا ہے۔ کتاب چھپی اور خوب خوب داد سمیٹی۔ پھر اور کتابیں چھپیں۔ زندگی کئی مرحلے آگے آ گئی تھی۔ ناشر‘ کتابچی‘ قاری‘ مصنف‘ شاعر سبھی حیثیات ایک دوسرے سے جڑ کر کتاب کے گرد گھومتی تھیں۔ اس سارے منظرنامے میں آئندہ زندگی بھی ایک کھلی کتاب کی طرح سامنے آ چکی تھی۔ ہماری نسل 'جنریشن ایکس‘ کہلاتی ہے۔ وہ نسل جس نے اتنی تبدیلیاں‘ اتنے تغیرات دیکھے اور اس کی زندگی میں دنیا اتنی تبدیل ہوئی جو کسی نسل کے تجربے کو نصیب نہیں ہوئے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں زندگی کتاب کے محور کے گرد گھومتی تھی۔ گلی کوچوں میں لائبریریاں‘ جن سے کتابیں پڑھنے کیلئے لی جا سکتی تھیں‘ کتب خانے‘ جو ذرا سے فاصلے پر موجود تھے۔ غیر ملکی رسالے‘ جن کا ہر نیا شمارہ کاغذ کی مہک کے ساتھ ایک نیا نشہ لے کر آیا کرتا تھا۔ سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ اور سوویت یونین خاص طور پر اپنی ثقافت دوسرے ملکوں تک پہنچا رہے تھے۔ چکنے آرٹ پیپر پر رنگین طباعت کے ساتھ امریکی پینورا اور روسی سپوتنک میگزین باقاعدگی سے مفت پہنچا کرتے تھے۔ اگاتھا کرسٹی‘ سڈنی شیلڈن‘ ہیرالڈ رابنس‘ سمرسٹ ماہم کے ناول اور پیپر بیک ایڈیشن۔ ان میں ہر ایک کا اپنا ذائقہ دوسرے سے بہت الگ تھا۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ کتابوں کی دکانوں میں اب زیادہ تر وہ گاہک ہیں جو کھڑے کھڑے کتابیں خریدنے آتے ہیں۔ کتاب کا نام ان کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہ دکان میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ لیکن اُس دور میں کتابوں کی کسی دکان میں کئی کئی گھنٹے رہنا معمول کی بات تھی۔ میں خود اپنی پسند کی دکان میں گھنٹوں گزارا کرتا تھا۔ شیلفوں سے مرضی کی کتابیں چننا‘ ورق گردانی کرنا‘ منتخب یا رد کرنا اور پھر اگلی شیلف کی طرف بڑھ جانا۔ دکان سے نکلتے ہوئے وہ کتابیں بھی ہاتھ میں ہوتی تھیں جن کے بارے میں پہلے سے سوچا نہیں ہوتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے۔ کتابچی یعنی کتب فروش بھی ان لوگوں کو پہچانتے تھے جو ہر ہفتے‘ ہر مہینے ان کی دکانوں کے باقاعدہ چکر لگانے والوں میں تھے۔
اب جبکہ کتاب شائع کرنا بہت سہل ہو گیا ہے‘ کتاب کے ڈیجیٹل ایڈیشن اسے آسان تر بنا رہے ہیں۔ آن لائن کمپوزنگ سے ڈیزائننگ تک سب کام ہو رہے ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ آپ کو گھر سے بھی نکلنا نہ پڑے اور کتاب چھپ کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جائے‘ ادائیگی کیلئے بھی قدم باہر نہ نکالنا پڑے تو یہ سب ممکن ہے۔ لیکن جو لوگ کتابوں کی اشاعت‘ پریسوں کی دشواریوں‘ بلاک پرنٹنگ‘ لیتھو پرنٹنگ‘ آفسٹ پرنٹنگ کی تدریجی تاریخ جانتے ہیں ان سے پوچھئے کہ یہ سب کتنا کٹھن تھا۔ چند صفحات کا پمفلٹ بھی کتابت سے تکمیل تک کتنے مسائل سے گزرتا تھا۔ اب جب یہ سہل ترین شکل میں آپ کی دسترس میں ہے‘ کتاب ختم ہو رہی ہے۔کیا کریں ایسی سہولت کو جس میں وہ بنیاد ہی نہ رہے جس کیلئے یہ سہولت درکار تھی۔
اب بڑے بڑے بک فیئر لگتے ہیں۔ کتابوں کے صدہا سٹال ان میں موجود ہوتے ہیں۔ بہت سے بک فیئر لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے بہت کامیاب بھی ہیں۔ اگرچہ کچھ محض اپنا خرچ نکال پاتے ہیں۔ مجھے ہر بار اس خبر سے خوشی ہوتی ہے کہ فلاں سہ روزہ کتاب میلے میں اتنے لوگ شریک ہوئے‘ اتنی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کہ یہ کتاب کے فروغ کی کوششیں ہیں لیکن دل ساری خاموشی کے ساتھ‘ ایک سوال کیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ کہ کتاب میلے میں میلہ کتنا تھا اور کتاب کتنی؟ میں چپ ہو جاتا ہوں۔ دانائوں نے کہا ہے: ایک چپ سو سکھ۔لیکن سوال میرا بھی تو ہے۔ وہ یہ کہ جس نسل نے کتاب کے معاملے میں یہ سب دیکھا اور برتا ہو اور پھر اسے یہ عشق ہاتھوں سے پور پور پھسلتا دکھائی دے تو آپ کا کیا خیال ہے اسے کیا کرنا چاہیے؟ جسے چھپا ہوا لفظ برقی لفظوں میں‘ صفحات پی ڈی ایف میں اور کتاب ٹیبلٹ اور کنڈل (kindle) میں منتقل ہوتی دکھائی دے تو اس کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ آئندہ کتابوں کی جو بھی شکل ہو اس کے اپنے لطف ہوں گے اور اپنی وابستگیاں۔ لیکن وہ بہرحال کاغذی کتاب سے مختلف ہو گی۔ تو اگر وہ نسل‘ ایک عہد بتدریج ختم ہونے پر اپنا آپ ختم ہوتا محسوس کرے تو کیا غلط ہے؟ برا نہ مانیے‘ اگر وہ اس خدشے کا اظہار کرے کہ
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے؍ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
ناراض نہ ہویے۔ چاہیں تو اس کے دونوں مصرعوں پر سوالیہ نشان لگا کر اسے پیش گوئی نہیں‘ استفسار بنا لیجیے۔ کتابچی کے لفظ کو گولی ماریے۔ ہمارا خدشہ تو دور کیجیے‘ یہ تو بتائیے کہ خدانخواستہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی تو نہیں ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved