تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-10-2013

امریکہ کے لیے ’’ٹف ٹائم‘‘

واحد سُپر پاور نے دُنیا بھر کے کمزوروں کو تِگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔ کوئی معترض ہوتا ہے تو ہوتا رہے کہ کمزوروں کو دبانا کسی بھی اعتبار سے شجاعت کی دلیل نہیں مگر سُپر پاورز ایسی بے وقوف نہیں ہوتیں کہ ایسی باتوں میں آجائیں اور اپنی روش ترک کرکے اُنہی جیسی زندگی بسر کرنے لگیں جنہیں وہ دباکر اعلیٰ معیار کی زندگی کے مزے لوٹتی ہیں۔ امریکہ بھی جانتا ہے کہ وہ بیشتر معاملات میں بہتوں سے زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے مگر کیا کیا جائے کہ طاقت کا یہی تقاضا ہوا کرتا ہے۔ امریکیوں نے بہت سے معاملات میں پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کو ٹف ٹائم دیا اور دیتا ہی جارہا ہے۔ مگر خیر، ہمارے حکمران بھی کم نہیں۔ بد دُعائیں رنگ لاتی ہیں اور ہر چار پانچ سال بعد پاکستانی سیاست دان امریکہ کو ایک انوکھا اور دلچسپ ٹف ٹائم دیتے ہیں۔ امریکہ کے لیے تو ٹف ٹائم ہی ہوتا ہے، انوکھا اور دلچسپ ہمارے لیے ہوتا ہے کیونکہ اِس میں اچھی خاصی ورائٹی ہوتی ہے۔ آپ ذہن پر زیادہ زور مت ڈالیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ امریکہ کے حوالے سے آپ کو پھر ٹف ٹائم ملے۔ امریکی پالیسی میکرز اور حکمرانوں پر نازل ہونے والا ٹف ٹائم خود پاکستانی عوام پر نئی حکومت کے نزول کے دو ڈھائی ماہ بعد آتا ہے۔ جی ہاں، یہ ذکر خیر ہے منصب سنبھالنے والے پاکستانی وزیر اعظم کے پہلے دورۂ امریکہ کا۔ ہمارے ہاں اوّل تو کسی اصول کو اپنانے اور گلے لگانے کا رواج نہیں۔ اور اگر کبھی کوئی اصول اپنالیا جائے تو سمجھ لیجیے اُس اصول کی شامت آگئی۔ ہم اُسے ایسا بھینچ کر رکھتے ہیں کہ پھر اُس کا جنازہ اُٹھنے ہی پرسکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد خاصے طمطراق سے امریکہ یاترا کا اصول دانتوں سے پکڑ رکھا ہے۔ اقتدار سنبھالنے والے پہلی فرصت میں امریکہ کا رخ کرتے ہیں تاکہ قوم کو دِکھایا جاسکے کہ امریکہ اُن سے خوش ہے۔ ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا جاتا ہے کہ امریکہ جاکر وہ تمام معاملات درست کرالیں گے‘ یعنی ان کی امریکہ یاترا کے بعد پاکستان کے کسی بحران کے چراغوں میں روشنی نہ رہے گی۔ انتخابی مہم کے دوران ہمارے سیاست دان اِتنے وعدے کرتے ہیں کہ امریکہ یاترا کے مرحلے میں میزبان حکام کی جان پر بن آتی ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کون سے وعدے پورے کریں اور کون کون سی پریشانی رفع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے چہیتوں کی چند ایک فرمائشیں واحد سُپر پاور کو پوری بھی کرنی ہوتی ہیں مگر مسئلہ چوائس کا آجاتا ہے۔ اور پھر کانگریس بھی ظالم سماج کی طرح راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ امریکی حکمران اور حکام سمجھ ہی نہیں پاتے کہ دورہ کس خوشی میں کیا جارہا ہے۔ وہ لوگ ایسے ملٹی پرپز دوروں کے عادی بھی نہیں ہیں نا! اور سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارے حکمران بھی طے نہیں کر پاتے کہ ان کی امریکہ یاترا کا بنیادی مقصد ہے کیا۔ امریکی حکومت کی تمام اعلیٰ شخصیات سے ملنا ہوتا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے نمائندوں سے خطاب بھی کرنا ہوتا ہے۔ تین چار عشائیوں میں بھی شرکت کرنی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ بھی لینا ہوتا ہے۔ عوام سے وعدہ کرلیا جاتا ہے کہ رکی ہوئی (یعنی جو روک لی گئی ہے وہ) امداد بحال کرالی جائے گی۔ یہ تو امریکی حکومت کو ’’سنکٹ‘‘ میں ڈالنے والی بات ہوئی۔ امریکہ میں کوئی بھی کام محض فرمائش سے نہیں ہو جاتا۔ حکومت کو کانگریس سے منظوری کا کوہِ گراں سَر کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ مرحلہ ایسا جاں گسل ہوتا ہے کہ ہمیں تو کچھ اندازہ ہی نہیں۔ کانگریس کسی غریب ملک کی پارلیمنٹ تو ہے نہیں کہ پندرہ بیس منٹ میں کوئی بھی بل یا قرارداد منظور کرکے معاملہ ہی ختم کردے۔ جہاں قومی خود مختاری اور قومی سلامتی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے کی منظوری کا عمل طول پکڑتا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث ہی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ آسانی تلاش کرلی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اِس حقیقت کو سمجھ لیا گیا ہے کہ قومی خود مختاری کے بارے میں زیادہ سوچنے سے ذہنی خلل واقع ہوتا ہے۔ سب بھول جاؤ، صرف یہ یاد رکھو کہ معاملات تیزی سے نمٹنے چاہئیں۔ امریکیوں نے تو حد ہی کردی ہے۔ پوری سیاسی سرگم کو صرف قومی مفاد کی راگنی کے گرد گھماتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم ابھی گزشتہ ماہ ہی تو پانچ دن نیو یارک میں گزار کر آئے تھے۔ امریکی بے چارے ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ پھر میزبانی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ع اُڑنے نہ پائے تھے گرفتار ہم ہوئے آصف علی زرداری تو صرف دُبئی کا چکر لگاکر آ جایا کرتے تھے۔ میاں صاحب لندن جاکر دم لیتے ہیں۔ ع اِس ’’شبنمی‘‘ مزاج کو ’’سردی‘‘ ہی راس ہے اہل وطن اُن کے دوسرے دورۂ امریکہ سے پتا نہیں کیا کیا آس لگائے بیٹھے ہیں۔ دِل سے دُعا ہے کہ اِس دورے کی کوکھ سے جو کچھ بھی جنم لے وہ قوم کے حق میں ہو۔ ع دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا اوباما انتظامیہ کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ امریکی پالیسیوں کا مزاج دیکھتے ہوئے کوئی بات پاکستان کے حق میں جاتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر اوباما اور ان کے رفقاء پاکستان کو کچھ دینے کے خواہش مند ہوں بھی تو پالیسیاں آڑے آسکتی ہیں۔ ویسے امریکیوں سے جب بھی وفا کی اُمید وابستہ کی گئی، مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ؎ تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے اُمّید تو نہیں ہے، مگر ہاں خُدا کرے امریکیوں کا مزاج ایسا ہے کہ زمینی حقائق سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے حکمران بھی سمجھ چکے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی وہ امریکہ کا رُخ کرتے ہیں۔ امریکی حکومت کی خوشنودی کا حصول ہی اُن کے نزدیک سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔ رہ گئے پاکستانی عوام، تو وہ اِس زمینی حقیقت کی تہہ میں کہیں دبے پڑے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved