''تقدیسِ انتخابات‘‘ کے نام پر پاکستان کی پشت پر تازیانے برسانے اور اُسے ''نَکُو‘‘ بنا کر عالمی برداری میں رسوا کرنے کے لیے امریکی قرارداد کی تعبیر وتفسیر کچھ ایسی مشکل نہیں۔ انتخابات ہوئے پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ امریکی ترجمان متعدد بار اپنا سرکاری مؤقف دے چکے ہیں کہ ''یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘‘۔ یہ داخلی معاملہ یکایک اس قدر سنگین عالمی مسئلہ کیسے بن گیا کہ امریکی کانگرس کو ایسی شعلہ بداماں قرارداد منظور کرنا پڑی؟ اس کا جواب چوکوں چوراہوں میں ریڑھی لگانے والے پاکستانی کو بھی معلوم ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ آزادیٔ فکر وعمل اور احترامِ انسانیت جیسے سارے اصول‘ امریکی خارجہ حکمتِ عملی کی کچی ڈور سے بندھے ہیں۔ اُس کے مفاد پہ ہلکی سی آنچ بھی آئے تو یہ ساری متاعِ تہذیب واخلاق کچرا کُنڈی کا رزق بن جاتی ہے۔ ایک بڑا سبب یہ ہے کہ چند ماہ بعد امریکی انتخابات میں حصہ لینے والے امریکی ارکانِ کانگرس کو پیسہ بھی چاہیے اور ووٹ بھی۔ پی ٹی آئی منظم طور پر اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں کو یہ دونوں چیزیں اس شرط پر فراہم کر رہی ہے کہ وہ پاکستان دشمن قرارداد کی حمایت کریں۔
1980ء کی دہائی میں امریکی مفاد کا تقاضا تھا کہ کابل تک آ پہنچنے والے سرخ ریچھ کو مار مار کر بھگا دیا جائے۔ تب پاکستان میں جمہوریت تھی نہ پارلیمنٹ۔ بنیادی انسانی حقوق تھے نہ دور دور تک انتخابات کا نام و نشان۔ اسلحہ کے ڈھیر اور ڈالروں کی بوریاں بھیجتے وقت امریکہ نے اُن ''اصولوں اور نظریات‘‘ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جو کانگرس کی تازہ قرارداد میں تابندہ موتیوں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ مارشل لاء کے کامل گیارہ برسوں کے دوران اس نوع کی کوئی قرارداد کسی بھی امریکی ایوان میں جگہ نہ پا سکی۔ آمریت کے ساتھ اس والہانہ عشق پر اُس دن اوس پڑ گئی جس دن آخری روسی سپاہی دریائے آمو کے اُس پار اُتر گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر شخصی آمریت کا سکّہ رانج کیا تو امریکہ نے کھل کر مذمت کی۔ بھارت کا پانچ روزہ دورہ مکمل کر کے‘ صدر بل کلنٹن چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد آئے تو اُسے رسمی یا غیر رسمی دورے کے بجائے ''سٹاپ اوور‘‘ کا تحقیر آمیز نام دیا گیا۔ کڑی شرائط لگیں کہ استقبال کے لیے پرویز مشرف ہوائی اڈے پر آئے نہ ایوانِ صدر۔ اُس کے ساتھ کوئی تصویر بھی نہیں بننی چاہیے۔ تب امریکہ کی نگاہ میں آئین شکن آمر مردِ نامطلوب ہی نہیں‘ فرد مردود بھی تھا۔ پھر نائن الیون ہو گیا اور دنیا بدل گئی۔ پرویز مشرف کی متعفن آمریت‘ خوشبوئوں میں رچی بسی حسینۂ عالم بن کر‘ امریکہ کے حُجلۂ عروسی میں آ بیٹھی۔ آج گز گز بھر لمبی قراردادیں منظور کرنے والی کانگرس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ آئین کہاں ہے؟ ججوں پہ کیا گزری؟ رسوائے زمانہ ریفرنڈم کیسے ہوا؟ 2002ء کے انتخابات کتنے منصفانہ تھے؟ سیاسی حریف کن زندانوں کا رزق ہو گئے؟ مفاد سارے ارفع اصولوں کو ہڑپ کر گیا۔ یاد آیا! 1958ء میں پہلے آئین کے تحت‘ پہلے عام انتخابات ہونے کو تھے کہ ایوب خان کے ٹینک سڑکوں پر آ گئے۔ وہ ایوب خان امریکہ کا محبوب ترین حکمران بن گیا۔ تاریخ کے سب سے ''آزادانہ اور منصفانہ‘‘ انتخابات میں‘ قائداعظم کی بہن‘ مادرِ ملت فاطمہ جناح ''ہار‘‘ گئیں۔ کراچی والوں سے کچھ کوتاہی سرزد ہو گئی تو ''فتح‘‘ کے اگلے ہی دن‘ فاتح جرنیل کے بیٹے‘ گوہر ایوب خان نے جشنِ کامرانی منایا۔ کم وبیش تیس شہری جاں بحق ہو گئے۔ امریکہ کے ہونٹ سلے رہے۔
جمہوری ادوار کے ساتھ امریکہ کو ہمیشہ ایک چِڑ سی رہی۔ شاید اس لیے کہ ووٹ لے کر آنے والے‘ اپنے ووٹروں سے ڈرتے ہیں اور غیروں کا تر نوالہ نہیں بنتے‘ آمروں کو عوام کا کچھ ڈر خوف نہیں ہوتا۔ وہ قشقہ کھینچ کر دَیر میں جا بیٹھنے اور اسلام ترک کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ آمریت کی جبلت کے عین مطابق جابروں کی دہلیز کے لیے آمروں کی جبین میں ہمیشہ ہزاروں سجدے تڑپتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ عالمی شاطروں کو عزیز ہوتے ہیں۔ 1998ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد‘ دنیا بھر کی دھمکیوں کے باوجود نواز شریف کا اپنے عزم پر ڈٹے رہنا اور 2001ء میں مشرف کا کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو جانا اس تقابل کی عمدہ مثالیں ہیں۔
قیامِ پاکستان کے دن سے آج تک‘ کوئی امریکی صدر کسی جمہوری دور میں پاکستان نہیں آیا۔ آئزن ہاور پاکستان آنے والے پہلے امریکی صدر تھے۔ وہ نومبر 1959ء میں اس وقت تشریف لائے جب پہلا ڈکٹیٹر‘ آمریت کی پہلی سالگرہ منا رہا تھا۔ جانسن نے ایوب خان ہی کے عہد میں دسمبر 1967ء میں پاکستان کا دورہ کیا۔ رچرڈ نکسن اگست 1969ء میں پاکستان تشریف لانے والے تیسرے امریکی صدر تھے۔ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کا ''عہدِ جمہوریت نواز‘‘ پسند فرمایا۔ چوتھے صدر بل کلنٹن‘ بادلِ نخواستہ ہی سہی‘ اُس وقت پاکستان آئے جب پرویز مشرف کی حکمرانی تھی۔ پانچویں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش مارچ 2006ء میں پاکستان آئے جب پرویز مشرف ''مشرف بہ امریکہ‘‘ ہو چکا تھا۔ کسی امریکی صدر نے ذوالفقار علی بھٹو‘ نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے عہد میں سرزمینِ پاکستان پر قدم رکھنا شایانِ شان نہ جانا۔
حالیہ امریکی قرارداد کے ڈانڈے‘ نواز شریف کے تیسرے عہدِ وزارت عظمیٰ سے ملے ہیں۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (BRI) کی شکل میں ساٹھ ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات کی نئی جہتیں کھول دیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ان منصوبوں کی ناکامی کے لیے نواز شریف کو راستے سے ہٹانا ضروری قرار پایا۔ پاکستانی ''باورچیوں‘‘ کے عزائم جو ہوں‘ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک نے اس کھچڑی میں دال چاول کے دانے صرف اس لیے ڈالے کہ نواز چین رشتے کی طنابیں کاٹ دی جائیں۔ 28 جولائی 2017ء عمران خان کے لیے ہی نہیں‘ ان سب قوتوں کیلئے بڑی کامرانی کا دن تھا۔ تب پاکستان کی عدالتیں جو کچھ کرتی رہیں‘ اُن سے امریکہ کے ماتھے پہ کوئی شکن نہ ابھری۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے‘ انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا‘ امریکی کانگرس نے اُس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔
پی ٹی آئی کا امریکی قرارداد پر شادیانے بجانا‘ بجا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کے خط کے بعد یہ اُس کی دوسری بڑی کامیابی ہے۔ اُس نے اپنی زر خرید لابنگ فرموں کے ذریعے لاکھوں ڈالر اس مہم میں جھونکے۔ پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کے اس منصوبے میں پی ٹی آئی کو بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ نواز شریف کے برعکس‘ سی پیک اور بی آر آئی کو عمران خان نے سرد خانے میں ڈال کر چین دشمن طاقتوں کے دل میں نرم گوشہ پہلے ہی بنا رکھا ہے۔ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں جوابی قرارداد کی مخالفت کر کے‘ دراصل امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ اپنی راہوں میں مسلسل کانٹے بوتے چلے جانی والی پی ٹی آئی کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کے مشن میں وہ دراصل اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ تر کیے جا رہی ہے۔
تلخیٔ دوراں سے تھوڑا سا وقت ملے تو چند لمحے اس تحقیق کیلئے ضرور وقف کیجئے کہ کیا دور ونزدیک کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں کوئی ایسا گروہ ہے جو خود کو سیاسی جماعت کہلاتا‘ صبح وشام اپنے ''حقوق‘‘ کیلئے واویلا کرتا ہو اور جس نے اپنی تمام تر توانائیوں کی ایک ایک رمق اپنے وطن کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے وقف کر رکھی ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved