پاکستانی عوام کی اس نئے بجٹ کے بعد چیخیں سن کر میرا خیال ہے کہ سب سے زیادہ سکون اور مزے میں امریکی ہوں گے۔ وہ سکون سے سگار اور کافی پی رہے ہوں گے‘ یا پھر ہمارے مغربی ہمسایہ ملک میں طالبان حکومت بھی بڑے مزے میں ہو گی۔ آپ پوچھیں گے کہ ان دونوں ممالک کا پاکستان کے بجٹ سے کیا لینا دینا؟ امریکی ہماری چیخیں سن کر بھلا کیوں خوش ہوں گے؟ اس اہم سوال کا جواب اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا یہ سوال‘ جسے اگر گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری چیخیں کیوں نکل رہی ہیں اور امریکی اس پر کیوں خوش ہوں گے۔
اب تک پاکستان میں جتنے بجٹ بھی بنتے تھے ان میں ایک بڑا پورشن امریکی امداد کا ہوتا تھا‘ جس سے حکومت کو نئے ٹیکسز لگانے کی اُس طرح ضرورت نہیں رہتی تھی جیسی ضرورت اب سمجھی جا رہی ہے۔ وہ جنگ جسے ہم ''امریکی جنگ‘‘ کا نام دیتے آئے ہیں‘ وہ ہر سال کولیشن سپورٹ کے نام پر ڈیڑھ‘ دو ارب ڈالر لاتی تھی۔ یہ سراسر امداد تھی نہ کہ چین‘ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کی طرح تین ‘ چار فیصد مارک اَپ پر دیا گیا قرضہ‘ جو سود سمیت واپس کرنا ہوتا ہے۔ اب تو ان ملکوں کا قرضہ ادا کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس پیسے نہیں ‘ اس لیے ہر سال آپ یہ ''خوشخبری‘‘ سنتے ہیں کہ دوست ملکوں نے پاکستان کی درخواست پر قرضہ رول اوور کر دیا ہے۔ مطلب یہ قرضہ ہمارے پاس مزید ایک سال انہی شرائط پر رہے گا کہ ان ڈالروں کو آپ استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ آپ کو اس لیے دیا گیا تاکہ آپ کے فارن ریزرو ایک سطح پر قائم رہیں ورنہ دنیا کے ساتھ کاروبار کرنا مشکل ہو جائے گا۔
آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ پاکستان کو اربوں ڈالرز ادھار لینے کی ضرورت کب سے پڑنا شروع ہوئی؟ آپ حیران ہوں گے کہ جب سے ہم نے امریکہ پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ وہ اس خطے سے بوریا بستر گول کرے اور واپس جائے۔ امریکہ نے بہت پہلے پاکستان کے ساتھ کولیشن سپورٹ کے نام پر ایک فنڈ قائم کیا تھا‘ اس سپورٹ فنڈ کا مقصد بڑا واضح تھا کہ پاکستان وار آن ٹیرر میں امریکہ کا ساتھ دے‘ مشترکہ آپریشن ہوں گے‘ انٹیلی جنس شیئرنگ ہو گی اور دونوں ملک دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اس دوران پاکستان اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے گا اور اس ملٹری آپریشن پر جو بھی خرچہ ہو گا وہ امریکہ پاکستان کو ادا کرے گا۔ اس پورے خرچے کا ایک بل بنتا تھا جو امریکہ کو بھیجا جاتا تھا اور امریکہ اس بل کے بدلے پاکستان کو ڈالرز ریلیز کرتا تھا۔ اگر کبھی وہ ڈالرز لیٹ ہو جاتے تو پاکستانی وزیر خزانہ امریکی سفیر سے ملتا تاکہ بل جلد از جلد ریلیز ہو اور پاکستان اپنا بجٹ بنا سکے کیونکہ پاکستان ان ڈالروں پر بہت زیادہ انحصار کر رہا تھا۔ مطلب ڈیڑھ‘ دو ارب ڈالرز سپورٹ فنڈ کی وجہ سے ہی پاکستان اس طرح سود پر بیرونی قرضے نہیں لے رہا تھا۔ یہ ایک طرح کی امداد تھی جس سے حکومت کو عوام پر زیادہ ٹیکسز نہیں لگانا پڑتے تھے۔ امریکی کہتے تھے کہ ہم آپ کو چین کی طرح کمرشل قرضے نہیں دیتے‘ نہ ہی آپ کے قرضوں کے بوجھ یا سود کی اکٹھی ہونے والی رقم میں اضافہ کرتے ہیں۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد وہ پاکستان کو 32 ارب ڈالر دے چکا ہے۔ ایک اور دعویٰ بھی کیا گیا کہ امریکہ نے آزادی سے اب تک پاکستان کو مختلف شکلوں میں 82 ارب ڈالر کی امداد دی ۔ یہ گرانٹ تھی‘ قرض نہیں۔
ایک دفعہ جب ہیلری کلنٹن پاکستان آئیں تو ان سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان امریکی جنگ لڑ رہا ہے تو انہوں نے سیدھا جواب دیا کہ کون سا مفت لڑ رہا ہے۔ آپ ہم سے ڈالرز لیتے ہیں‘ اگر آپ کو ڈالر اچھے نہیں لگتے تو مت لیا کریں۔ یہ بڑا صاف جواب تھا ۔ لیکن اس دوران یہ مہم تیزی پکڑتی گئی کہ ہم امریکی جنگ لڑ کر غلام بن گئے ہیں‘ ہمارے ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے اور وجہ صرف یہ ہے کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بدلے میں ڈالر لے رہے ہیں۔ اس بیانیے کو تقویت عمران خان‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے دی۔ انہوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ ہم امریکہ سے ڈالر لے کر افغانستان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ بیانیہ زور پکڑتا گیا اور ہم ایک طرف امریکی ڈالرز لے کر طالبان کو انگیج کر رہے تھے اور دوسری طرف خود کو برُا بھلا کہہ رہے تھے کہ دیکھو ہم ڈالر دیکھ کر بک جاتے ہیں۔
امریکیوں کو بھی محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستانی ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں اور ڈالر لے کر طالبان کے ساتھ بھی دوستی نبھا رہے ہیں اور طالبان رہنمائوں کو اسلام آباد اور کوئٹہ میں محفوظ رکھا ہوا ہے لہٰذا امریکہ نے دھیرے دھیرے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیا کہ افغانستان سے نکلا جائے‘ جو مقاصد افغانستان میں حاصل کرنے تھے‘ وہ کر لیے‘ لہٰذا اقتدار پاکستان کے 'فیورٹ‘ طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ افغانستان سے نکلا تو ساتھ ہی پاکستان کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔ ہم سب نے طالبان کی کابل حکومت پر نعرے مارے اور اُدھر امریکہ نے کولیشن سپورٹ بند کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ وہی طالبان‘ جنہیں ہم آزادی دلا کر امریکہ کو اس خطے سے نکال رہے تھے‘ وہ ہمارے شکرگزار ہونے کے بجائے الٹا ہم پر حملہ آور ہیں۔ یوں امریکی بھی ناراض ہوئے‘ ڈالرز سپلائی بھی بند ہوئی اور اب طالبان سے بھی ناراضی چل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ اچھا ہوا امریکی اس خطے سے نکل گئے۔ تو کیا دہشت گردی ختم ہو گئی؟ اب تو یہ مزید بڑھ گئی ہے۔ پہلے امریکہ طالبان اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کے لیے ڈالرز اور اسلحہ دے رہا تھا‘ اب وہ کچھ نہیں دے رہا۔
یوں دو ارب ڈالرز کی سپلائی رکنے کے بعد پاکستان کے پاس یہی آپشن بچا تھا کہ دنیا سے ڈالرز ادھار لے۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت ہر دروازہ کھٹکھٹایا جائے‘ مگر اس ادھار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِس سال پچاس فیصد سے زائد بجٹ سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہو گا۔ امریکہ کیری لوگر بل کے نام پر بھی سات‘ آٹھ ارب ڈالر پاکستان میں سوشل سیکٹر میں امداد کی صورت دیتا تھا مگر اب نہ کولیشن سپورٹ فنڈ رہا نہ کیری لوگر امداد۔ اب آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستانیوں نے اپنا ملک خود چلانا ہے۔ آپ لوگ اپنے سارے بل خود ادا کرنا شروع کر یں۔ سارے لوگ ٹیکس دیں‘ ورنہ ملک نہیں چلے گا۔ یا تو ایکسپورٹ کو پچاس ارب ڈالرز سے اوپر لے جائیں یا قرض لیں۔ اب سبسڈیاں ختم‘ امریکی امداد والی عیاشیاں ختم۔ آپ تو خود کہتے تھے کہ ہم غلام تھوڑی ہیں‘ ہم غیر ملکی جنگ کیوں لڑیں۔ بالکل ٹھیک کہتے تھے ‘ تو پھر اپنے سارے بل بھی خود ادا کریں‘ پوری قوم ٹیکس دے کر اپنا ملک خود چلائے۔
اتنے برسوں سے ہم امریکی امداد کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب اپنی محنت سے پیسہ کما کر اپنے گھروں کے بجلی اور گیس کے بل دینے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ہم امریکی جنگ سے نکل کر'عظیم قوم‘ تو بن گئے لیکن اب پٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی اور گیس کے بلوں کے پیسے کہاں سے لائیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved