الیکشن کے اگلے روز اتوار کا دن تھا۔ اس دن میں جاگا تو سب گھر والوں کے چہروں پر اُداسی تھی۔ میں نے پوچھا تو پتا چلا کہ الیکشن کا نتیجہ آگیا ہے اور فیلڈ مارشل ایوب خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں ان دنوں پرائمری سکول کا طالبعلم تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین تھا کہ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی یقینی ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کے جلسوں میں لاکھوں افراد کی شرکت تھی۔ اس وقت میرا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ نتائج کیسے بدل سکتے ہیں۔ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی شکست میری زندگی کا پہلا دھچکا تھا۔ اس روز مجھے ماں نے کوئی چیز لینے کے لیے بازار بھیجا۔ بازار کے راستے میں وہی دیوار آتی تھی جس پر محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی اشتہار لکھا ہوا تھا۔ اس دن میں اس اشتہار سے نظر چرا کر آگے چلا گیا۔ دکان کے باہر لکڑی کے بینچ پر لوگ بیٹھے تھے اور اخبار پڑھ رہے تھے۔ اخبار کی سرخی میں انتخاب اور جھرلو کا ذکر تھا۔ اس دن میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ جھرلو کیا ہوتا ہے اور انتخاب سے اس کا کیا تعلق ہے؟ حقیقت یہی تھی کہ یہ انتخابی نتیجہ دھن‘ دھونس اور دھاندلی سے حاصل کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان‘ جو ہمیشہ سے جمہوری اقدار کا امین تھا‘ وہاں بھی ڈھاکہ کے علاوہ دوسرے علاقوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان جیت گئے۔ سابق آئی جی پولیس صباح الدین جامی‘ جو اُن دنوں بطور ایس پی سپیشل برانچ کراچی میں تعینات تھے‘ اپنی کتاب Police, Crime & Politics: Memoirs of an IGP کے دسویں باب In the service of Karachiites میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے گورنر عبد المنعم خان نے ایوب خان کی کامیابی کیلئے بے رحمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے۔ ادھر مغربی پاکستان میں گورنر ملک امیر محمد خان کے جابرانہ اقدامات اور سرکاری مشینری کے دباؤ کے باوجود کراچی میں محترمہ فاطمہ جناح جیت گئیں۔ یہ ایوب خان اور اس کے حواریوں کیلئے ناقابلِ برداشت تھا کہ اہلِ کراچی نے ایوب خان کو کیسے شکست دی۔
اس روز ہمارے گھر میں اداسی چھائی رہی۔ فاطمہ جناح کی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا۔ آخر ماں نے کہا: ''چلو جیسا بھی ہے انتخابات کا ہنگامہ تو ختم ہوا‘‘۔ لیکن ماں سمیت ہم میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اصل ہنگامہ تو ابھی باقی ہے اور یہ ہنگامہ پاکستان کی تاریخ کو وہ زخم دے جائے گا جو کبھی مندمل نہ ہوں گے۔ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سرکاری اہلکاروں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ انہیں جو ذمہ داری دی گئی اس میں کامیابی ہوئی۔ لیکن ایوب خان کے عقابوں کو جیت کے بعد بھی چین نہیں آرہا تھا۔ اسلئے کہ تمام تر دباؤ کے باوجود اہلِ کراچی نے ایوب خان کی کامیابی کا راستہ روک دیا تھا۔ اس کیلئے اہالیانِ کراچی کو سبق سکھانا ضروری تھا۔
وہ 4 جنوری 1965ء کا بدقسمت دن تھا جب ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنے والد کی فتح کا جشن منانے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ جلوس میں شامل لوگوں کی اکثریت مسلح تھی۔ کسے پتا تھا کہ یہ جلوس پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مخالفت کی آڑ میں نسلی اور لسانی تعصب کا زہر گھول دے گا جس کی تاثیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے اور تیز ہوتی جائے گی۔ حافظ صباح الدین جامی نے اپنی کتاب میں نے اس دن کا احوال تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے مطابق کراچی انتظامیہ نے جلوس کی خبر سن کر صورتحال سے نپٹنے کے لیے ایک اہم اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کی صدارت اس وقت کے کراچی کے کمشنر روئیداد خان کر رہے تھے اور اس میں ڈی آئی جی آصف مجید‘ ڈپٹی کمشنر امجد احد شیخ‘ ایس پی ٹریفک اینڈ سکیورٹی عبد الرحمن خان اور صباح الدین جامی ایس پی سپیشل برانچ شریک تھے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عبد الرحمن خان گوہر ایوب سے رابطہ کریں گے اور انہیں صورتحال کی نزاکت کا احساس دلانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سرتوڑ کوشش کے باوجود گوہر ایوب سے رابطہ نہ ہو سکا۔ آخر وائرلیس پر اعلیٰ حکام کو پیغام بھجوایا گیا ''Mr. Gauhar Ayub is riding a high horse and contact with him is impossible‘‘ (گوہر ایوب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور اس سے رابطہ ناممکن ہے)۔
ادھر جلوس میں شریک مسلح جتھے جلوس میں ہوائی فائرنگ کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ اہالیانِ کراچی حیران تھے کہ ان کے علاقوں سے تو محترمہ فاطمہ جناح جیتی ہیں پھر یہاں ایوب خان کی فتح کے جشن کیوں منایا جا رہا ہے۔ لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس جلوس کا مقصد انہیں سبق سکھانا ہے اور انہیں اس ''جرم‘‘ کی سزا دینا ہے کہ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ کیوں دیا۔ اب جلوس بے قابو ہو چکا تھا۔ فائرنگ کا رُخ اُن مہاجر بستیوں کی طرف تھا جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ انتظامیہ بے بس ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود جلوس کی اجازت دینے میں اس وقت کے کراچی کے کمشنر روئیداد خان کا ہاتھ تھا۔ ہر طرف ایک قیامت کا سماں تھا۔ اس اندھا دھند فائرنگ میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اُس روز کراچی کے گلی کوچوں میں رات گئے تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ یوں سیاسی اختلاف کو نسلی اور لسانی اختلاف میں بدل دیا گیا جس کی سزا کراچی آج تک بھگت رہا ہے۔
چار جنوری کو کیا ہوا؟ اس دن کی تفصیلات جاننے کیلئے میں نے معروف ادیب‘ شاعر‘ محقق اور پاکستان کرانیکل کے ایڈیٹر عقیل عباس جعفری سے رجوع کیا‘ جنہوں نے مجھے بلا تاخیر اس دن کے حوالے سے پاکستان کرانیکل میں شائع روداد بھیج دی جس کے مطابق ''کراچی کے باشندوں نے صدارتی انتخابات میں کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کاساتھ دیا تھا‘ اس جلوس کو دیکھ کر سخت مشتعل ہوئے اور لیاقت آباد‘ ناظم آباد اور گولی مار میں شہریوں اور جلوس کے درمیان افسوسناک تصادم ہوئے۔ اس تصادم کا بدلہ چکانے کیلئے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر حملے کیے گئے‘ آگ لگائی گئی اور کافی جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا‘‘۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ''شہاب نامہ‘‘ میں اس واقعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پُرتشدد جلوس کے نتیجے میں پٹھانوں اور مہاجرین کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔ کچھ راویوں کے مطابق اس زمانے میں ایک بار پھر ہندو مسلم فسادات کی یاد تازہ ہو گئی۔
پانچ جنوری کو محترمہ فاطمہ جناح نے ان بستیوں کا دورہ کیا جہاں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی اور متعدد مکانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ سابق آئی جی پولیس صباح الدین جامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پولیس کے اے آئی جی شفیع اللہ خان ڈیوٹی پر مامور تھے جب فاطمہ جناح لوگوں کے درمیان گھری پولیس کی چیرہ دستوں کی داستانیں سن رہی تھیں۔ اچانک انہیں اے آئی جی شفیع اللہ نظر آیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس کا نام سن رکھا تھا۔ اسے وہاں دیکھ کر ان کا غصہ عروج پر پہنچ گیا‘ وہ تیزی سے اس کی طرف لپکیں اور اس کے سینے پر دوہتڑ مارا۔ شفیع اللہ کو معلوم تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے غصے کا سبب کیا ہے۔ اس نے اپنے حواس پر قابو رکھا اور مشتعل ہونے کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کو سیلوٹ کیا اور جو کچھ ہو اس پر معذرت کی۔ یوں صورتحال کی تلخی کچھ کم ہوئی۔ اس روز بستیوں کے لٹے پٹے لوگ مادرِ ملت کو اپنے درمیان دیکھ کر بلک بلک کر انہیں اپنے دکھوں کی داستانیں سنا رہے تھے۔ تب مادرِ ملت کے ذہن میں ایک خیال جاگا اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے اور اپنے پاکستان میں قتل و خون کا یہ منظر دیکھتے تو ان کا ردِعمل کیا ہوتا؟ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved