تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     04-07-2024

حضرت عمرؓ کی تاریخِ شہادت

آج کل بعض حضرات نے یہ بحث چھیڑ رکھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت یکم محرم الحرام نہیں تھا۔ اول تو یہ ایک لایعنی بحث ہے‘ کیونکہ یہ کہیں بھی لازم نہیں ہے کہ یومِ شہادت اُسی دن منایا جائے‘ جس دن شہادت واقع ہوئی۔ پوری امت امام عالی مقام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمیع شہدائے کربلا‘ امامِ عالی مقام کے اہلبیتِ اطہار اور اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کا یومِ شہادت دس محرم الحرام کو مناتی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس سے پہلے یا بعد میں نہیں منایا جا سکتا۔ امام عالی مقامؓ کی مجالسِ شہادت تو چہلم تک جاری رہتی ہیں۔ اسی طرح میلاد النبیﷺ کی مجالس سارا سال جاری رہتی ہیں۔ نیز ایسے تاریخی شواہد بکثرت دستیاب ہیں کہ اَبُو لُؤْلُؤَہ فیروز مجوسی نے سیدنا عمرؓ کو زہر آلود دو دھاری خنجر سے ذوالحجہ کے آخری ایام میں فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے زخمی کیا اور اُسی کے نتیجے میں آپؓ کی شہادت یکم محرم الحرام کو واقع ہوئی اور آپؓ کی تدفین عمل میں آئی۔
امام ابوجعفر طبری (مُتَوَفّٰی 310ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: ''حضرت عمررضی اللہ عنہ کو 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24 ہجری کو آپ کی تدفین ہوئی‘‘ (المنتخب من ذیل المذیل‘ ص: 11)۔ امام اَبُو نُعَیْم (متوفیٰ 430ھ) لکھتے ہیں: ''حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ کو 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو (قاتلانہ حملے میں) زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24 ہجری کی صبح آپؓ کی تدفین ہوئی۔ پس آپؓ کی خلافت دس سال پانچ ماہ اور اکیس دن رہی۔
علامہ ابن اثیر جزری (متوفیٰ 630ھ) نے ''اُسد الغابہ (ج: 4‘ ص: 156) میں‘ علامہ یحییٰ بن شرف نووی (متوفیٰ 676ھ) نے ''تَہْذِیْبُ الْاَسْمَائِ وَاللُّغَات (ج: 2‘ ص: 13) میں‘ علامہ ذہبی (متوفیٰ 748ھ) نے ''سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَاء‘‘ (ج: 2‘ ص: 417 تا 418) میں‘ حاجی خلیفہ (متوفیٰ1067ھ) نے ''سُلَّمُ الْوُصُوْل اِلٰی طَبَقَاتِ الْفُحُوْل‘‘ (ج: 2‘ ص: 413) میں‘ علامہ علی القاری (متوفیٰ 1014ھ) نے ''مرقاۃ المفاتیح‘‘ (ج: 9‘ص: 3727) میں اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ''لَمْعَاتُ التَّنْقِیْحِ‘‘ (ج: 10‘ ص: 130) میں اسی طرح لکھا ہے۔
علامہ ابن کثیر (متوفیٰ 747ھ) لکھتے ہیں: ''جب حضرت عمر فاروقؓ بدھ 26 ذوالحجہ کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے‘ تو ابو لُؤْلُؤَہ فیروز نے دو دھاری خنجر سے آپؓ پر حملہ کیا۔ اس نے تین وار کیے اور ایک روایت کے مطابق چھ وار کیے۔ اُن میں سے ایک وار آپؓ کے زیرِ ناف لگا تو آپ گر پڑے۔ اس دوران آپؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو نماز میں اپنا نائب بنایا۔ پھر وہ پلٹ کر نکلا‘ راستے میں جو آیا‘ اُن پر وار کرتا گیا حتیٰ کہ اُس نے تیرہ اشخاص پر ضرب لگائی‘ اُن میں سے چھ شہید ہو گئے۔ فیروز اصلاً ایرانی تھا‘ پھر حضرت عبداللہ بن عوفؓ نے اُس پر کمبل ڈالا تو اس ملعون نے خودکُشی کر لی۔ حضرت عمرؓ کو اٹھا کر ان کے گھر لے گئے‘ اُن کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ طلوعِ آفتاب سے پہلے کا واقعہ ہے۔ پھر آپؓ کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آ جاتے۔ جب ہوش میں آتے تو آپؓ کو نماز یاد دلائی جاتی‘ وہ کہتے: ہاں! جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے‘ پھر اپنے وقت پر نماز پڑھتے۔ انہوں نے پوچھا: انہیں کس نے قتل کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا: مغیرہ بن شعبہ کے غلام اَبو لُؤْلُؤَہ نے‘ تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری موت کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں ہوئی۔ پھر کہا: اللہ اُس کا برا کرے‘ ہم نے تو اسے اچھی بات کا حکم دیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ نے اُس کے ذمے دو درہم یومیہ لگائے تھے‘ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: کیا میں اُس کے محصول میں اضافہ کر دوں‘ کیونکہ وہ نَجّار اور لوہار ہے‘ نقش ونگار کرتا ہے‘ تو انہوں نے اس کا محصول سو درہم ماہانہ کر دیا اور اُس سے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم بہت اچھا کام کرتے ہو‘ تم ہوائی چکی بناتے ہو۔ ابو لؤلؤہ نے کہا: میں ضرور آپ کے لیے ایک ایسی چکی بنائوں گا کہ لوگ مشرق ومغرب میں اُس کا ذکر کریں گے۔ یہ منگل کی شام کا واقعہ ہے اور بدھ 26 ذوالحجہ کی صبح اس نے آپؓ کو خنجر گھونپ دیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے اپنا جانشین منتخب کرنے کیلئے ایسے چھ اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنائی کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات تک اُن سے راضی تھے اور وہ تھے: ''حضرات عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم‘‘ (البدایہ والنہایہ‘ ج: 7‘ ص: 138)۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ''حضرت عمرؓ کا تین دن بعد انتقال ہوا اور محرم کی پہلی تاریخ‘ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نمازِ جنازہ صہیبؓ نے پڑھائی‘ حضرات عبدالرحمن بن عوف‘ علی‘ عثمان‘ طلحہ‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا اور وہ آفتابِ عالَم خاک میں چھپ گیا‘‘ (الفاروق‘ ص: 173)۔ ایک مصنف نے لکھا: ''قاتل کا خنجر سینۂ عمر میں نہیں‘ قلبِ کائنات میں پیوست ہو گیا‘‘۔ حضرت عمرؓ کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہتی تھی۔ روایت میں ہے: ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت اور دیارِ رسول میں موت عطا فرما‘‘ (بخاری: 1890)۔ علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''امام نووی نے کہا: دین کے معاملے میں فتنے میں مبتلا ہونے کے خوف سے موت کی تمنا کرنا مکروہ نہیں ہے‘ بلکہ مستحب ہے۔ امام شافعی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے: اللہ کی راہ میں شہادت کی تمنا کرنا مستحب ہے‘ کیونکہ صحیح روایت کے ساتھ حضرت عمرؓ سے ثابت ہے‘‘... آگے چل کر لکھتے ہیں: ''نبیﷺ نے فرمایا: جو شہادت کی سچی تمنا کرے گا‘ اُسے شہادت کا درجہ عطا کر دیا جائے گا‘ خواہ اُسے شہادت نہ ملی ہو‘‘ (مسلم: 1908)۔ کسی مقدس مقام پر بھی موت کی تمنا کرنا مستحب ہے‘ چنانچہ حضرت عمرؓ نے دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسولِ کریمﷺ کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ ان کی صاحبزادی اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ نے کہا: دونوں باتیں کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ چاہے گا تو عطا فرما دے گا‘‘ (طبقات ابن سعد‘ ج: 3‘ ص: 252‘ مرقاۃ المفاتیح‘ ج: 4‘ ص: 60)۔ علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''لاہور میں نمازِ جمعہ کے بعد ایک بزرگ نمازی نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی شہادت کے حصول کی دعا کی‘ جبکہ شہادت کا معنی ہے: مسلمان کو کوئی کافر قتل کر دے اور مقتول مغلوب ہوتا ہے اور قاتل غالب ہوتا ہے‘ سو یہ تو مسلمان کے مغلوب ہونے اور کافر کے غالب ہونے کی دعا ہے۔ میں نے اس کے جواب میں کہا: ایک چیز قبیح لذاتہٖ ہوتی ہے اور حَسَنْ لِغَیْرِہٖ ہوتی ہے جیسے جہاد کرنا‘ یہ فی نفسہٖ قبیح لِذَاتِہٖ ہے‘ کیونکہ اس سے شہر برباد ہوتے ہیں اور لوگ مارے جاتے ہیں‘ لیکن چونکہ یہ اِعْلَائِ کَلِمَۃُ اللّٰہ کا ذریعہ ہے‘ اس وجہ سے یہ حَسَن لِغَیرہٖ ہے‘ اسی طرح شہادت کا معاملہ ہے۔ کافر کے ہاتھوں مسلمان کا مغلوب ہونا قبیح لِذَاتِہٖ ہے‘ لیکن چونکہ یہ اِعْلَائِ کَلِمَۃُ اللّٰہ کا ذریعہ بنتا ہے‘ اس لیے حَسَن لغیرہٖ ہے‘‘ (نعمۃ الباری‘ ج: 4‘ ص: 355)۔ قبیح لِذَاتہٖ اُسے کہتے ہیں کہ کسی چیز میں ذاتی نقص ہو‘ لیکن اگر وہ کسی دوسری اعلیٰ چیز کے حصول کا ذریعہ بن رہی ہو تو وہ حَسَن لِغَیْرہٖ کہلاتی ہے کہ اُس مطلوبِ غیر نے اُس کے قُبْح کو حُسن میں تبدیل کر دیا‘ جیسے شدید سردیوں کی راتوں میں جبکہ درجۂ حرارت منفی ہوتا ہے‘ علی الصباح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا تکلیف دہ امر ہے‘سو اس معنی میں یہ قبیح ہے‘ لیکن چونکہ وضو صحتِ نماز کیلئے شرطِ لازم ہے‘ اس لیے نماز کی برکت نے اُس کے عیب کو کمال میں تبدیل کر دیا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ خطائوں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرما دیتا ہے‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! ضرور بتائیے! آپﷺ نے فرمایا: ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا اور زیادہ فاصلہ طے کر کے مسجدوں میں جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا‘ پس یہ جہاد کیلئے سرحدوں پر پہرہ دینے کی مانند ہے‘‘ (مسلم: 251)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved