صدیوں سے کاروباری اور کارجُو لوگوں کی کاوش رہی ہے کہ وہ منڈیوں کو تلاش کریں جہاں اپنی اشیا فروخت کریں اور وہ راستے بھی ڈھونڈیں جو محفوظ اور مختصر ہوں‘ اور جہاں سے ان کا سامانِ تجارت گزر کر صارفین تک پہنچ سکے۔ قدیم زمانوں میں جو اقوام چار علو م؛ جغرافیہ‘ فلکیات‘ کشتی سازی اور جہاز رانی میں مہارت حاصل کر پائیں‘ وہ خوش حال‘ طاقتور اور بااثر ٹھہریں۔ قرونِ وسطیٰ میں مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت دشوار گزار پہاڑوں‘ صحرائوں اور جنگلوں کی پُرخطرمسافتوں کو عبور کرکے کی جاتی تھی۔ چین کی پورسلین‘ ریشم اور دیگر اشیائے تعیش مغرب میں مشہور تھیں۔ کئی راستے تھے جو مشرقی اور جنوبی یورپ کو چین سے ملاتے تھے۔ ترکی‘ آذربائیجان‘ ازبکستان‘ تاجکستان سے آج کے سنکیانگ اور اُس زمانے کے مشرقی ترکستان سے گزرتے تھے۔ اب بھی جگہ جگہ ان ملکوں میں سرائیں موجود ہیں۔ چونکہ زیادہ تر توجہ اس وقت سلک (ریشم) پر تھی‘ اس لیے مغرب کی تاریخ نویسی میں ان راستوں کو مجموعی طور پر ''سلک روڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح وہ تمام ممالک جو آج کے دور میں پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش ہیں‘ گرم مسالوں‘ کپڑوں‘ ہیروں اور جواہرات کے لیے مشہور تھے۔ یہاں سے زمینی راستے ایران‘ افغانستان اور ترکی‘ اور پھر بلغاریہ اور یونان سے ہوتے ہوئے مغرب کی مشہور منڈی وینس‘ جو اٹلی میں ہے‘ جا نکلتے تھے۔ سلک روڈ پر ترکوں کی ایک سے زیادہ حکومتیں تھیں جو بعد میں ایک بڑی سلطنت کی صورت متشکل ہوئیں۔ اگر آپ نے ان خطوں کی تاریخ پڑھی ہے یا کم از کم جدید ترکی کے سلسلہ وار ''تاریخی‘‘ ڈرامے دیکھے ہیں‘ جو تاریخ کا دھندلا سا عکس ہیں‘ مگر ترک قومیت پرستی کی توانا علامت‘ تو آپ کو مغرب اور ترکی کی کشمکش کا کچھ اندازہ ہو گا۔ ترک تجارت پر ٹیکس لیتے تھے۔ ان کی دولت میں راہداریوں کو کنٹرول کرنے سے زبردست اضافہ ہوا۔ بعض مخاصمت کے علاوہ مغربی تاجر ترکی پر انحصار کم کرنے کی غرض سے متبادل راستے تلاش کرنے لگے۔ مسلم سپین کو فتح کرنے کے بعد‘ جنہیں آپ تاریخ میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے جانتے ہیں‘ مشرق تک رسائی کے لیے سپین کے بادشاہ نے کرسٹوفر کولمبس کو 1492ء میں چار جہازوں اور 90 افراد کے عملے کے ساتھ روانہ کیا‘ اور وہ کہیں اور جا نکلا۔
ہم بھی اس تمہید میں کہیں اور نکل گئے ہیں‘ مگر جو نکتہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ راہداریوں کی تلاش ہر دور میں رہی ہے‘ اور آج کل یہ ایک نئے عالمی رجحان کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اگر ہم نے ایک بار پھر یہ موقع ضائع کر دیا جو چین کے ساتھ راہداری کی صورت ہمیں حاصل ہے تو پھر یہ نہ ہو کہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اس طرح کوستی رہیں جس طرح ہم ان پر تبّرے بھیجتے ہیں جنہوں نے ہمیں بحرانوں میں دھکیل کر اپنی حکمرانیاں قائم کیں۔ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے‘ مگر ہمیں اپنا فرض پورا کرنا ہے۔ گوادر‘ کراچی اور اگر ضرورت پڑے تو پسنی کی بندرگاہیں ہمیں چین اور افغانستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان سے بھی آگے قرغزستان اور روس کی منڈیوں تک رسائی دے سکتی ہیں۔ کسی زمانے میں گرم پانیوں تک رسائی روس کے زار حکمرانوں کا خواب تھا۔ آج کے عالمگیریت کے دور میں یہ ہمارا خواب ہونا چاہیے۔ ایک عرصے سے ہم باتیں کر رہے ہیں کہ ٹرانس افغانستان ریلوے کا نظام تعمیر ہو اور ہماری منڈیاں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مربوط ہو جائیں۔ چلو کم ازکم ایک خواب تو ہے‘ ایک روز ضرور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اس حوالے سے دو حقیقتوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ ایک یہ کہ اتنا بڑا منصوبہ صر ف چین کے تعاون اور اس کے خطے میں مفادات کے ادارک کے بغیر ناممکن ہے۔ دوسرا‘ ہمیں اپنی قومی شناخت‘ سیاست اور سمت کا ازسرنو تعین کرنا ہو گا۔ بلاضرورت چھیڑی گئی مبہم نظریاتی کشمکش سے گریز ضروری ہے۔ ہماری ریاست اور اس کے ساتھ جڑی سیاست ابھی تک ''سرد جنگ‘‘ کے تاریک دور سے نہیں نکل پائی۔ ہمارے سامنے چین اس شان سے نکلا اور اتنی ترقی کی کہ اب امریکہ پریشان نظر آتا ہے کہ چین کی ترقی اور اس کے معاشی پھیلائو کو کیسے محدود کیا جائے تاکہ عالمی مسابقت کی دوڑ میں وہ اتنا آگے نہ نکل جائے کہ اسے مشرق بعید سے پسپائی اختیار کرنی پڑے۔ ہمیں بھی کچھ بنیادی معروضات کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ایک جغرافیائی فائدہ ہمیں حاصل ہے کہ ہم افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ وسطی ایشیا اور بھارت کے سنگم پر واقع ہیں۔ جو بات یہاں کھل کر نہیں کی جا رہی وہ یہ ہے کہ سب واہگہ اور دیگر بارڈر کراسنگ پوانٹس کے ذریعے جنوبی ایشیا کے ممالک تک تجارت بڑھانے میں اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں۔ ہماری کچھ اپنی مجبوریاں ہیں‘ مگر کچھ اور ممالک کی مثال سامنے رکھ کر اور اپنے مؤقف پر کوئی تبدیلی کیے بغیر تجارتی راہداری باہمی بنیادوں پر سب ممالک کے ساتھ قائم کرنا ہمارے حق میں ہے۔ چین کی طرح تجارت کو تزویراتی مسائل سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔
اگر ہم نے دیر کر دی تو دنیا نے ہمارا انتظار نہیں کرنا۔ ایران‘ بھارت اور افغانستان چند سال پہلے چابہار کے راستے وسطی ایشیا تک کی راہداری پر کام کر رہے تھے۔اس کے کئی ایک منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ اور اگر افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری نہ آئی تو اس راہداری پر کام دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ چند ہفتے پہلے ترکی نے عراق کے ساتھ ایک اور راہداری پر بات چیت شروع کی ہے۔ بصرہ پورٹ کو ریلوے لائنوں کے ذریعے ترکیہ کے ریل کے نظام کے ساتھ مربوط کرکے بحیرہ روم کی بندرگاہوں سے جوڑ کر یورپ تک تجارت ہو سکے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ راہدری نہر سویز کی طرح ایشیا کے تمام ممالک کو میسر ہو گی۔
دو دیگر راہداریوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے کیونکہ ان کی اہمیت آپ پر واضح ہو جائے گی۔ یہ شمال جنوب راہداری ہے۔ خلیج فارس اور کیسپین سمندر کو نہر سویز کی طرز پر ایران ایک بڑی نہر کے ذریعے جوڑے گا۔ مال بردار جہاز گزریں گے اور روس کے ریلوے نظام کو استعمال کرتے ہوئے یورپ کے دیگر ممالک تک تاجروں کو رسائی ملے گی۔ دوسری راہداری کے بارے میں آج کے ابھرتے ہوئے سعودی عرب نے منصوبہ بندی شروع کی ہوئی ہے۔ وہ بھی اپنی بندرگاہوں اور زمینی راستوں کو شام کے ساتھ جوڑ کر بحیرۂ روم تک گزارنے کا خواہش مند ہے۔
آپ کو کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس قدر دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ابھرتے ہوئے ممالک یورپ اور چین کی منڈیوں تک کئی متبادل راہداریوں کے ذریعے مربوط ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ سرمایہ کاری دنیا کے دیگر ممالک میں جس رفتار سے ہو رہی ہے‘ اس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی سوجھ بوجھ نہیں۔ یہاں ہر طرف خموشی ہے۔ دنیا کے ممالک پرانی تلخیاں ختم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ رہے ہیں‘ اور ہم دنیا سے الگ تھلگ رہنے پر مصر ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کچھ کرتوت ہی ایسے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک ہمیں اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتے۔ اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ کتنے جڑے ہوئے ہیں‘ اس کا اندازہ تو آپ شام کی خبروں‘ تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے تو ہم ایک دوسرے کو راہ داری دیں پھر دیکھیں گے کہ علاقائی ممالک اور اس کے بعد دنیا کے ساتھ کیسے مربوط ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved