تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-07-2024

لائبریری کل اور آج …(2)

ایک تو ہم لوگوں میں کتاب پڑھنے والوں کی شرح پہلے ہی افسوسناک حد تک کم تھی اوپر سے کتاب کی مہنگائی نے سونے پر سہاگہ کر دیا ہے۔ ایک پنجابی کہاوت ہے کہ ''اک بی بی سوہنی‘ اُتوں سُتی اُٹھی‘‘۔ یعنی ایک تو خاتون پہلے ہی شکل و صورت کی پوری تھی اوپر سے سو کر اٹھی تو اور بھی ''حسین‘‘ ہو گئی۔ یہی حال اس کتاب کی قیمت بڑھنے سے ہوا۔ ناشر سے گلہ کریں تو اس کے پاس بھی کتاب کی قیمت بڑھانے کا جواز ہے کہ کاغذ مہنگا ہے۔ کاغذ کا یہ عالم ہے کہ یہ ہر حکومت کی ان چند پسندیدہ ترین درآمدات میں سے ہے جس پر وہ ہر بجٹ میں مزید ٹیکس لگا کر اپنی کتاب دشمنی کا ثبوت دیتی ہے اور بڑے ہی غیرمحسوس انداز میں اور بڑی خاموشی سے انسدادِ خواندگی کا بندوبست کرتی رہتی ہے۔ ملک میں جس قسم کا نظام چل رہا ہے اسے جاری و ساری رکھنے کیلئے عوام کو علم اور کتاب سے حتی الامکان دور رکھنا ہر حکمران کا شاید مقصدِ حیات ہے کہ موجودہ بندوبست حکمرانوں‘ اداروں‘ زور آوروں اور اشرافیہ کیلئے آئیڈیل ہے اور اس نظام سے مستفید ہونے والوں میں سے کوئی بھی اسے تبدیل کرنے کا نہ خواہشمند ہے اور نہ ہی وہ کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہے۔
کتاب کی ہوشربا قیمتوں نے پہلے سے سسکتے ہوئے کتاب کلچر کی کمر بالکل ہی توڑ کر رکھ دی ہے‘ لیکن دوسری طرف سستی غیر کاغذی کتاب کا حصول جتنا آسان اور سہل ہوا ہے‘ یہ قوم اس کو اپنانے کی طرف بھی نہیں آ رہی۔ چلیں میری جنریشن کی تو مجبوری ہے کہ ہم ابھی تک کاغذ والی کتاب کی عادت سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ سکرین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی مگر 'پرانی عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں‘ والا معاملہ ہے۔ عالم یہ ہے کہ اب بھی کوئی لمبا آرٹیکل یا پیغام پڑھنا ہو تو یہ عاجز اس کا پرنٹ نکالتا ہے اور پڑھتا ہے۔ چلیں اسے آپ میری نالائقی سمجھ لیں لیکن نوجوان تو سکرین کے شیدائی ہیں اور دن کا بیشتر حصہ اس کے حوالے کیے بیٹھے ہیں‘ وہ تو ڈیجیٹل کتابوں اور ای بکس سے اپنے تعلقات بہتر کر سکتے ہیں لیکن معاملہ اس حوالے سے بھی تشویشناک ہے۔ آج کل جدید ماڈل کے اچھے موبائل کی قیمت بلامبالغہ چھ سات لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے اور میں یہ نئے ماڈل کے فون ایسے ایسے نوجوانوں کے ہاتھ میں عام دیکھتا ہوں جو نہ صرف یہ کہ خود کچھ نہیں کرتے بلکہ ان کے والدین بھی اس مہنگائی میں زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے کی معاشی بریکٹ میں ہیں‘ لیکن میں نے کسی نوجوان کے ہاتھ میں نہ تو کتاب ٹیبلٹ ہی دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس کنڈل دیکھا ہے۔ یہ چیزیں اگر کسی ہاتھ میں دیکھی ہیں تو انہی ہاتھوں میں جو کاغذ والی کتاب کے صفحات پلٹ کر‘ حروفِ سیاہ سے آنکھیں ٹھنڈی کر کے‘ کاغذ کی مہک سے لطف کشید کر کے‘ کتاب کے صفحہ کو موڑ کر‘ نشانی لگا کر سرہانے رکھ کر سوتے تھے اور اب مہنگی اور محدود کتابوں کی دنیا سے نکل کر کتابوں کی دوسری شکل پر مشتمل ایک وسیع سمندر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ بحرِ علم کے وہ شناور ہیں جو میری طرح نالائق نہیں ہیں لیکن یہ لوگ بھی کتنے ہیں؟ اس کتاب دشمن معاشرے میں آج کی جدید کتاب اور اس تک رسائی کے اس آسان اور سستے حصول کی راہ پر کتنے لوگ ہیں جو چل رہے ہیں؟ پی ڈی ایف کتب کا ایک سمندر ہے جو منتظر ہے کہ کوئی اس میں سے جتنا پانی چاہے نکال لے لیکن اس نئے ساقی کے پاس بھی وہی پرانے مے خوار اپنے خالی جام لے کر پہنچے ہوئے ہیں۔ چھ سات لاکھ روپے کا موبائل لینے والی نئی نسل نے اپنے موبائل سے کئی گنا کم قیمت والے کنڈل کو خریدنا تو رہا ایک طرف‘ کبھی شاید اسے خریدنے کا سوچا بھی نہیں ہے۔ میں نے سارا دن فون پر سوشل میڈیا سے جڑ کر دنیا جہان کے بارے میں اپنے علم کو اپنے فارورڈ کردہ میسجز کے ذریعے مشتہر کرنے والے کئی نوجوانوں سے پی ڈی ایف کتاب ڈاؤن لوڈ کا طریقہ دریافت کرنا چاہا تو انہوں نے اس مشکل کام سے اپنی لاعلمی اور نالائقی کا اعتراف کرتے ہوئے دانت نکال کر دکھا دیے۔
دنیا کتاب کے حوالے سے اتنا وسیع اور گہرا سمندر بن چکی ہے کہ مجھ جیسے پرانی طرز کے آدمی کو ابھی اس کا پوری طرح اندازہ بھی نہیں ہے اور اپنی نالائقی کے طفیل اس سے آگاہ ہونے کا شاید امکان بھی نہیں کہ ابھی میرے پاس کاغذ والی کتابیں موجود ہیں۔ ایک دن عزیزم سجاد جہانیہ نے میری کاغذ والی کتاب سے محبت دیکھتے ہوئے بُری خبر سنائی کہ یہ والی کتاب بس اسی صدی تک موجود ہے‘ اس کے بعد کاغذ والی کتاب صرف تاریخی علمی خزانہ بن کر رہ جائے گی اور اس کی چھپائی ختم ہو جائے گی۔ میں نے اس کی بات سن کر اطمینان کی سانس لی اور اسے کہا: برادرم! تم نے یہ بڑی اچھی خبر سنائی ہے کہ کاغذ والی کتاب کم از کم اس صدی میں موجود رہے گی۔ ہم نے بھی اس صدی کے اختتام سے بہت پہلے یعنی کتاب کے خاتمے کی تمہاری دی ہوئی تاریخ سے بہت پہلے رخصت ہو جانا ہے‘ مجھے اب اس بات کی رتی برابر فکر نہیں کہ میرے بعد کتاب کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔ تم نے مجھے اس بات کا اطمینان کروا دیا ہے کہ کم از کم میری زندگی اسی کاغذ والی کتاب کے ساتھ گزر جائے گی۔ مجھے مرنے کے بعد اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ میرے پیچھے کتاب کا کیا بنے گا۔ مجھے تو یہ فکر لاحق ہے کہ مرنے کے بعد میرے ساتھ آگے کیا ہوگا۔ پیچھے والے معاملات پیچھے والے جانیں۔ مرنے کے بعد تو آگے کے معاملات کی فکر کرنی چاہیے۔
کم از کم پنجاب کی حد تک تو مجھے علم ہے کہ ایک عدد پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن ہے۔ ایک عدد پبلک لائبریریز کی ڈائریکٹوریٹ بھی ہے اور ایک عدد سیکرٹری لائبریریز و آرکائیوز بھی موجود ہے مگر ملتان کی اکلوتی سرکاری لائبریری کے بارے میں کئی بار لکھنے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کہ شاید یہ سارے ادارے اور افراد لائبریری کی خدمت اور پھیلاؤ کیلئے نہیں بلکہ محض بیورو کریسی نے انہیں اپنا دامن وسیع کر کے اس میں سے عہدے نکالنے تک محدود کر رکھا ہے۔ آج کل کاشف منظور پبلک لائبریریز پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر تعینات ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ یہ ایک کتاب دوست افسر ہیں۔ اس حوالے سے ایک دو بار پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے اس کی بہتری کیلئے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ اس لاوارث اور بے آسرا لائبریری کو میونسپل کارپوریشن سے لے کر پنجاب پبلک لائبریریز یا اسی قسم کے کسی اور ادارے کو دے دیں جو لائبریری چلانے کی استعداد رکھتا ہو کہ کارپوریشن اس لائبریری کو اپنے اوپر ایک بوجھ تصور کرتی ہے۔ اس میں لائبریرین تو رہا ایک طرف‘ مناسب اہلیت کا کلرک بھی پانچ سال پہلے ریٹائر ہو چکا ہے۔ کارپوریشن کے پاس نہ تو اسے چلانے کی رتی برابر اہلیت ہے اور نہ ہی وہ اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کاشف منظور نے بتایا کہ یہ لائبریری ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔ میں نے عرض کی کہ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ اسے اپنی تحویل میں لے لیں۔ وہ کہنے لگے کہ اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ضلعی حکومتوں کے قیام کے بعد میونسپل کارپوریشن سے وابستہ چیزیں ہماری دسترس سے نکل گئی ہیں۔ اس ملک کے بہت سے مسائل نوکر شاہی کی پیچیدگیوں‘ سرکاری ضابطوں کی موشگافیوں اور سرخ فیتے سے منسلک ہیں جسے کوئی ٹھیک کرنے پر تیار نہیں۔
دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی اسی پرانے مرحلے پر کھڑے ہیں بلکہ پرانے مرحلے پر بھی کب؟ جن لائبریریوں کو میں نے بارونق اور چہل پہل کے ساتھ چلتے دیکھا ہے وہاں اب اُلو بولتے ہیں اور کتابوں کی جن دکانوں کے اندر میں نے رونقِ بازار کا سا منظر دیکھا ہے ان میں سے اکثر بند ہو چکی ہیں۔ لائبریری حصولِ علم اور کتاب بینی کا سب سے آسان اور سستا عوامی ذریعہ ہے جو ہمارے ہاں مسلسل بربادی کی طرف گامزن ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved