بھارت سے تعلقات بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے والے وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے پاکستانی رہنما نہیں ہیں‘ ان سے قبل قریب ڈیڑھ سال پہلے سعودی اخبار' العربیہ‘ کو ایک انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دونوں ملکوں کے پُرامن تعلقات اور تعاون کی افادیت کو اجاگر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان اور بھارت نے تین بڑی جنگیں لڑی ہیں لیکن ان کے نتیجے میں دونوں کو پہلے سے زیادہ غربت اور بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے اس سے سبق سیکھا ہے‘ اس لیے ہم امن کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہم باہمی مسائل کو حل کر سکیں۔ بھارت (کی حکومت اور عوام) کیلئے میرا یہی پیغام ہے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل کو پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں جن میں کشمیر بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ پُرامن ہمسایوں کی طرح رہتے ہوئے اپنے اپنے ملک اور عوام کی ترقی اور خوشحالی پر توجہ مرکوز کریں یا آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوئے وقت اور وسائل ضائع کریں۔ شہباز شریف کے اس انٹرویو سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاکستان نے بات چیت کا فیصلہ کر لیا ہے‘ تاہم اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ بھارت کے ساتھ بات چیت صرف اسی صورت ہو سکتی ہے جب 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لیا جائے‘ اس کے بغیر بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی واضح کیا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کے خواہش مند ہیں لیکن اس کیلئے برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کیلئے باہمی احترام اور ایک عرصہ سے چلے آ رہے مسئلہ کشمیر کا ایک پُرامن اور منصفانہ حل ضروری ہے۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان کی موجودگی میں پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ بات چیت اور تعلقات‘ جن میں دو طرفہ تجارت کی بحالی بھی شامل ہے‘ کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری جانب بھارت نے بھی بات چیت کیلئے اپنی شرائط پیش کی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر نے ایک بیان میں کہا کہ سفارتی تعلقات اور تجارت کی بحالی پر بات چیت ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے پہل پاکستان کی طرف سے ہونی چاہیے کیونکہ اسلام آباد نے پانچ اگست کے اقدام کے خلاف رد عمل کے طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے میں پہل کی تھی۔ اسلام آباد اور نئی دہلی‘ دونوں جانب سے باہمی تعلقات کی بحالی کے حق میں آوازیں سنائی دے رہی ہیں مگر اس جانب عملی پیشرفت طریفین سے شرائط عائد کرنے کی وجہ سے نہیں ہو رہی۔ البتہ دونوں ملکوں کی سول سوسائٹی اس کے لیے پوری طرح سرگرم ہے کیونکہ باہمی تعلقات میں تعطل سے نہ صرف قومی ترقی کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
منی شنکر ائیر (Mani Shankar Aiyar) بھارت کے ایک سینئر سیاستدان اور سابق وزیر ہیں۔ وہ پاکستان میں سفارتی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران اپنے تاثرات پر مبنی ایک کتاب بھی تحریر کی جس میں انہوں نے پاکستانی عوام کی فراخدلی‘ مہمان نوازی اور بھارتی عوام کے بارے میں مثبت اور خوشگوار جذبات کا ذکر کیا۔ وہ پاک بھارت دوستی‘ خصوصاً عوامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ روابط کے بہت بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام کے بارے میں پائے جانے والے تاثرات کو غلط قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام کی بھارتی عوام کے ساتھ دوستی کو سب سے بڑا اثاثہ قرار دیا ہے۔ یہی بات بھارتی عوام کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے اور بھارت کے حالیہ انتخابات میں ووٹرز نے نریندر مودی کے 400 سے زائد لوک سبھا کی نشستیں حاصل کرنے کے خواب کو جس طرح چکنا چور کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی عوام بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف زہر آلودہندوتوا بیانیے کے خلاف ہیں۔
بھارت کے مشہور اکانومسٹ اور نوبیل انعام یافتہ دانشور امرتیا سین نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں بھارتی عوام نے بی جے پی کے ہندوتوا بیانیے کو مسترد کر دیا ہے‘ پاکستان کی پبلک ڈپلومیسی کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انتخابات کے بعد بھارت میں عوامی سطح پر پیدا ہونے والی انتہا پسند ہندوتوا کے نظریے سے بیزاری اور مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ انتخابات میں مودی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی غیر متوقع کمی کا مطلب صرف مودی کی اندرونی پالیسیوں اور اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں بلکہ انتخابات میں بھارتی ووٹر نے مودی کی ہمسایہ ملکوں کے خلاف جارحانہ خارجہ پالیسی کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ انتخابی نتائج نے بھارت میں مثبت ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں مذہب کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے‘ لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور عدم برداشت پیدا کرنے اور اقلیتوں کو دبانے والے اقدامات کی کھل کر مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر‘ مودی کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریتا سین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس موقع پر اپنی سائوتھ ایشین ڈپلومیسی کو ٹاپ گیئر میں لانا چاہیے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی حکومت کو پاک بھارت امن مذاکرات کے سلسلے کو وہیں سے شروع کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے جہاں یہ 2008ء میں ممبئی حملوں کی وجہ سے منقطع ہوا تھا۔ بین الاقوامی برادری بھی پاکستان کے اس مؤقف کی حمایت کرے گی۔
اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں بھی اہم محکموں‘ مثلاً دفاع‘ خارجہ‘ داخلہ اور خزانہ پر وہی وزیر تعینات کیے ہیں جو ان کی سابقہ کابینہ میں ان محکموں کے وزیر تھے مگر بھارت میں اب حکومت بی جے پی کی نہیں بلکہ این ڈی اے کی ہے‘ جس میں بہار کے نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چندرا بابو نائیڈو بھی شامل ہیں۔ یہ تجربہ کار سیاستدان اگرچہ مودی حکومت کا حصہ ہیں مگر یہ ایک مخلوط حکومت ہے‘ جس میں ماضی کی طرح بی جے پی اور نریندر مودی کو من مانی کی آزادی حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی پارلیمنٹ میں مودی کی ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس ضمن میں قائدِ حزبِ اختلاف اور کانگرس کے رہنما راہول گاندھی کی پارلیمنٹ میں تقریر بھارت کے اندر اور باہر ایک پُرامن‘ مستحکم اور خوشگوار جیو پولیٹکل ماحول قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات موجودہ صورتحال سے قریبی مماثلت رکھتے ہیں‘ اس وقت بھی دونوں اطراف سے مذاکرات کی پیشکشیں چند شرائط کے ساتھ کی جا رہی تھیں۔ پاکستان کا اصرار تھا کہ پہلے کشمیر اور پھر دیگر تنازعات پر بات ہوگی جبکہ بھارت کشمیر کے علاوہ سب مسائل پر بات چیت پر آمادہ تھا۔ آخر کار 1996ء میں مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں سارک کی سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب اِندر کمار گجرال سے ملاقات میں غیر مشروط طور پر پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ شروع کرنے پر اتفاق ہواجن میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اب بھی ایسے ہی جرأتمندانہ انیشی ایٹو کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved