جناب شاہد خاقان عباسی اور (ان کے وزیر خزانہ) جناب مفتاح اسماعیل نے اپنے متعدد ہم نواؤں سمیت ''عوام پاکستان پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ دونوں حضرات مسلم لیگ(ن) سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے ہیں۔ شاہد تو اُس وقت گرفتار بھی کیے گئے جب جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹا تھا۔وہ پی آئی اے کے سربراہ تھے‘ اس حوالے سے اُنہیں شریک ملزم بنا لیا گیا تھا کہ وزیراعظم ان کی معاونت کے بغیر طیارہ ''ہائی جیک‘‘ نہیں کر سکتے تھے۔ فوجی حکومت کے تمام تر دبائو کے باوجود اپنے قائد کے ساتھ کھڑے رہے‘اور ان کے خلاف کسی قسم کا عدالتی بیان دینے سے انکار کر دیا۔ نواز شریف کو اس''جرم‘‘ میں عمر قید کی سزا ہوئی تو حکومت نے اس کے خلاف اپیل کر دی۔ پرویز مشرف انہیں پھانسی کی سزا دلوانا چاہتے تھے‘ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ عوامی دباؤ سے مجبور ہو کر انہوں نے نواز شریف کو جلا وطن کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور شریف خاندان جدہ جا مقیم ہوا۔ اس معاملے کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو رہائی نصیب ہوئی تو وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ جڑے رہے اور نواز شریف کے انتہائی بااعتماد اور باوفا ساتھیوں میں ان کا قد مزید اونچا ہوتا چلا گیا۔ شاہد پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ان کے والد خاقان عباسی سے جنرل محمد ضیا الحق کا گہرا یارانہ تھا۔دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے کا اعلان کیا تو خاقان عباسی بھی(غالباً ان کی تحریک پر) میدانِ انتخاب میں کود پڑے۔ ان کا تعلق شمالی پنجاب کے جس حلقے سے تھااُسی سے جنرل ضیا کے وزیر اطلاعات اور اوپننگ بیٹسمین راجہ ظفر الحق بھی امیدوار تھے۔خاقان کے ہاتھوںوہ شکست کھا گئے تو انتخابات کی کریڈیبلٹی میں اضافہ ہوا۔ جنرل صاحب کے ایک اور وزیر غلام دستگیر خان گوجرانوالہ سے شکست کھا گئے‘ان کی ناکامی نے بھی انتخابی عمل کی ساکھ میں اضافہ کیا۔ ان حضرات کی شکست کو جنرل ضیا الحق کی فتح پر محمول کیا گیا کہ وہ شفاف انتخابات کا اہتمام کر گزرے تھے‘ یوں صدارتی ریفرنڈم کا پیدا کردہ منفی تاثر دور کرنے میں (بڑی حد تک) مدد ملی۔خاقان عباسی جونیجو کابینہ میں شامل ہوئے لیکن اوجھڑی کیمپ کے حادثے میں لقمہ ٔ اجل بن گئے۔ سڑک سے گزر رہے تھے کہ ایک گولہ ان کے قریب پھٹا اور انہیں زندگی سے محروم کر گیا۔ان کے ایک بیٹے بھی نشانہ بنے اور برسوں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد راہی ٔ ملک ِ عدم ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد شاہد نے ان کی نشست سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور آزاد حیثیت میں رکن منتخب ہو گئے۔ بعدازاں نوازشریف کی بیعت کی اور مسلم لیگ(ن) کی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنے لگے۔ شاہد کئی مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے‘ ایک بار وہ اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے تو نوازشریف نے انہیں حکم دیا کہ لاہور کے ضمنی انتخاب میں کاغذات نامزدگی داخل کریں‘ نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ وزیراعظم نوازشریف کو ''پانامہ سازش کیس‘‘ کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو نواز شریف نے اپنے جانشین کے طور پر شاہد خاقان کو نامزد کر دیا۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اپنی سادگی‘ صاف گوئی اور منکسر المزاجی کی بدولت نام اور مقام دونوں بنائے۔ وہ اپنا ٹیلی فون اکثر خود اٹھاتے اور اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے وزیراعظم سیکرٹریٹ پہنچ جاتے۔ اپنے ذاتی گھر میں مقیم رہے اور شان و شوکت کے کسی بھی مظاہرے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ مفتاح اسماعیل اُن کے وزیرخزانہ تھے۔ اسحاق ڈار کی جگہ انہوں نے سنبھالی تو اپنے علم اور مہارت کو منوایا‘ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سکہ بند اکانومسٹ تھے جو معیشت کی کمزوریوں سے واقف تھے اور انہیں درست کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
مسلم لیگ(ن) کو 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرنے دی گئی۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ شاہد خاقان مسلم لیگ (ن) کے ان رہنمائوں میں شامل تھے جن کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی دیانت اور اُجلا پن مسلّم رہا ہے۔ ان کے والد بیرونِ ملک سے دولت کما کر لائے تھے‘ یہاں بھی ان کا کاروبار وسیع تھا‘ شاہد نے اس کی وسعتوں میں اضافہ کیا‘ وہ ایک ایسے سرمایہ کار تھے جنہیں قدرت نے انتظامی صلاحیتوں سے مالامال کر رکھا تھا۔ اُن کی ایئر لائن نے اپنے قدم جما لیے۔ انہیں بے سروپا الزامات لگا کر جیل میں ٹھونس دیا گیا‘ وہ بہادری سے لڑے اور اعلیٰ عدالتوں سے پروانۂ رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مفتاح اسماعیل بھی کراچی کے ایک بڑے صنعتکار ہیں۔ عمران خانی دور میں نیب نے ان کو بھی دبوچ لیا‘ انہوں نے بھی حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو بالا کیا۔ جیل ان کے حوصلے پست نہ کر سکی۔ شاہد مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر تھے اور نواز شریف کا خصوصی اعتماد ان کو حاصل تھا۔نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی بیٹی مریم متحرک ہوئیں اور مسلم لیگ(ن) کے حلقے میں ممتاز اور موثر ہوتی گئیں۔ انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر بنا دیا گیا اور نواز شریف کے بعد ان کا مرتبہ اس طرح بلند ہوا کہ سینئر وائس پریذیڈنٹ دیکھتے رہ گئے‘ یہی سوراخ بڑھتے بڑھتے شگاف بن گیا۔ شہبازشریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں مفتاح اسماعیل کو جس انداز سے وزارتِ خزانہ سے ہٹا کر جناب اسحاق ڈار کو اُن کی جگہ دی گئی‘ اس نے بھی دل کوچرکا لگایا۔ شاہد خاقان‘ مفتاح اسماعیل اور پیپلزپارٹی کے (معتوب باغی) مصطفی نواز کھوکھر ایک نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تلاش میں لگ گئے۔انہوں نے جگہ جگہ تقریریں کیں‘ اپنے ہم نوائوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ مصطفی نواز کھوکھر تو دھیمے پڑ گئے لیکن شاہد اور مفتاح نے نئی پارٹی''لانچ‘‘ کر ڈالی ہے۔وہ نظام بدلنے کے دعویدار ہیں۔ آئین کی حاکمیت پر زور دے رہے ہیں لیکن اُن سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو اپنا ہم خیال کیوں نہ بنایا‘ اس کے پلیٹ فارم سے اپنا اصلاحاتی ایجنڈا متعارف کیوں نہ کر پائے؟ اس سوال کا جواب نواز شریف کے بھی ذمے ہے کہ اگر بروقت اقدام ہو جاتا تو شاہد خاقان عباسی اور اُن کے رفقا کی صلاحتیں مسلم لیگ (ن) کیلئے وقف رہ سکتی تھیں۔
سیاسی جماعتیں با علم‘ باوقار اور باکردار رہنمائوں اور کارکنوں کے بغیر تھوتھا چنا بن جاتی ہیں‘ تو ذہین اور اہل افراد بھی موثر پارٹی کے بغیر اپنی توانائیوں کو نتیجہ خیز نہیں بنا پاتے۔جہاں نئی سیاسی جماعت بنانا آسان نہیں ہے وہاں مستعد اور پُرمغز کارکنوں کے بغیر کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کی تکمیل بھی ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنمائوں نے ایک دوسرے سے محروم ہو کر کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے‘یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ وقت جو لوٹ کر نہیں آتا‘ ہاتھ سے نکل جائے تو ہاتھ ہی ملنا پڑتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved