ٹی ٹی پی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ افغانستان میں شورش 40سال سے زیادہ تک جاری رہی اور ٹی ٹی پی افغانستان کی مجموعی صورتحال کا ایک شاخسانہ ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر امریکہ مخالف جہاد میں متحرک رہے۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ طالبان آج ٹی ٹی پی کو بے یارومددگار چھوڑ دیں۔ انگریزی میں اصطلاح ہے ''کامریڈ اِن آرمز‘‘ (Comrade in arms )۔ طالبان اور ٹی ٹی پی کا یہ رشتہ رہا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ راتوں رات یہ رشتہ تبدیل ہو جائے۔
افغانستان کے پہاڑ اور وادیاں ٹی ٹی پی کیلئے ایک سیف ہیون کا درجہ رکھتے ہیں۔عمران خان نے پھر اتنی کون سی غلط بات کی کہ طالبان سے تعلقات خراب کرکے ٹی ٹی پی کو شکست دینا آسان کام نہ ہوگا؟ یہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ حملے یہاں ہو رہے ہیں اور پھر پناہ کیلئے افغانستان کی سرزمین ٹی ٹی پی کیلئے میسر ہے۔ خواجہ آصف کا تو بہت ہی غیرذمہ دارانہ بیان تھا کہ ضرورت پڑی توپاکستان ٹی ٹی پی ٹھکانوں پر کراس بارڈر حملے کرسکتا ہے۔ طالبان کا جواب بھی ایسا ہی تھا کہ یہ کارروائی ہوئی تونتائج کا ذمہ دار پاکستان ہو گا۔ اور کچھ ہو نہ ہو‘عام فہم عقل کا تقاضا ہے کہ ایسی بڑھکوں سے اجتناب کیا جائے۔
ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے سامنے ویت کانگ نامی تنظیم کھڑی تھی جس کے پیچھے ظاہر ہے شمالی ویتنام تھا۔میدانِ جنگ میں امریکی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تک گئی‘ ویتنام پر امریکیوں نے بم اتنے گرائے کہ جتنا کہ پوری دوسری جنگِ عظیم میں تمام فریقین سے استعمال نہ ہوئے۔ لیکن پھر بھی دنیا کی طاقتور ترین دفاعی قوت ویت کانگ کو ہرا نہ سکی۔ ایک اور بڑی وجہ امریکی شکست کی یہ تھی کہ امریکی رائے عامہ منقسم ہو چکی تھی اور ویتنام جنگ کی مخالفت امریکہ میں بڑھ گئی تھی۔ یہی وہ دن تھے جب عظیم باکسر محمد علی نے کہا تھا کہ اُس کی قوم کے دشمن امریکہ کے گورے ہیں‘ نہ کہ دس ہزار میل دور ایک ایشیائی قوم جس پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ باکسنگ کا عالمی اعزاز محمد علی سے چھین لیا گیا‘ پانچ سال کی قید اُسے سنائی گئی لیکن اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا اور ایک لحاظ سے اَمر ہو گیا۔
ہمیں اپنے اندرونی حالات دیکھنے چاہئیں۔ یہ جو اندرونی محاذ ملک کی سیاست میں کھلا ہوا ہے یہ کسی ٹی ٹی پی مخالف آپریشن کیلئے حوصلہ افزا فیکٹر نہیں ہے۔ یہ کوئی پٹاخوں کی جنگ تو ہو نہیں رہی کہ ہم اسے ہلکا لیں۔ ہم یکسو ہوں گے‘ تمام قومی توانائیاں اس آپریشن یا جنگ پر مرکوز ہوں گی تو پھر کامیابی کا راستہ کھلے گا۔ لیکن قومی سطح پر کوئی یکسوئی نظر آتی ہے؟ پی ٹی آئی کا مؤقف تو چھوڑیں‘ اُس مؤقف کو تو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا‘ دیگر آوازیں بھی ایسے آپریشن کے خلاف اُٹھ رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کیا کہہ رہے ہیں‘ اُن کی باتوں پر غورکرنا چاہیے۔ ہمارے قبائلی علاقوں سے لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہاں تو کھل کے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ پہلے کے آپریشنوں نے قبائلی علاقوں کو تباہ کر دیا‘ اس لیے مزید تباہی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی آپریشن سے پہلے ایسے اعتراضات کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔
اس وقت پاکستان کو تین خطرات لاحق ہیں: ڈوبتی معیشت‘ بلوچستان میں شورش اور کے پی کے میں وہ صورتحال جسے دہشت گردی کا نام دیا جا تا ہے۔ تمام قومی توانائیاں ان تین خطرات سے نمٹنے کیلئے صرف ہونی چاہئیں لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں کہ بڑا سیاسی محاذ کہیں اور کھلا ہوا ہے۔ کسی کو نظر نہیں آ رہا کہ فروری کے الیکشنوں میں قوم نے کیا رائے دی تھی؟ کیا اُس رائے کو نظرانداز کرکے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے؟ قوم ساتھ ہو تب ہی کوئی ایسی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے نہیں تو کھینچا تانی رہے گی۔ اہلِ اقتدار ایک طرف کھینچ رہے ہوں گے اور سیاسی لیڈر کچھ اور کہہ رہے ہوں گے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ موجودہ سیٹ اَپ میں ونسٹن چرچل والی صلاحیتیں ہیں اور جو رنگ برنگا بندوبست وفاق میں تیار کیا گیا ہے اور جس قسم کی ٹک ٹاک حکومتِ پنجاب میں چل رہی ہے‘ یہ طفیلی لیڈر جن کی اپنی ساکھ عوام میں رہی نہیں قوم کو یکجا کر سکتے ہیں تو پھر ایسی سوچ کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہوگا۔
یہاں رِیت اب چل نکلی ہے کہ آپ سوشل میڈیا کو برا بھلا کہیں اور تمام بیماریوں کی جڑ اُسے ٹھہرائیں۔ ویتنام کی جنگ میں جب امریکی رائے عامہ جنگ کے خلاف ہونے لگی تو وہاں کے اکابرین بھی میڈیا پر الزام دھرتے تھے۔ وہاں بھی یہی خیال تھا کہ تمام برائیوں کی جڑ میڈیا ہے۔ اصل بیماری تو ظاہر ہے یہ تھی کہ امریکہ ایک ایسی جنگ لڑ رہا تھا جس میں اُس کیلئے کامیابی ناممکن تھی۔ ناکامیاں ہوں توعذر ڈھونڈے جاتے ہیں کیونکہ ناکامی کی ذمہ داری کسی کندھے پر تو ڈالنی ہوتی ہے۔ ویتنام کے زمانے میں یہ سوشل میڈیا نہیں تھا‘ اب تو یہ بلا پیدا ہو چکی ہے۔ ہم عصر زندگی کی یہ حقیقت بن چکی ہے اور اسے اب ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکمران جو بھی ہوں اُن کیلئے اب یہ لازم ہو چکا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ساتھ رہنے کا ہنر سیکھیں۔ سوشل میڈیا سے ہٹ کر یوکرین کی جنگ دیکھ لیں‘ ڈرون ٹیکنالوجی وغیرہ کی وجہ سے جنگیں لڑنے کا طریقہ کار بدل رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ ظاہرکر رہی ہے کہ آئندہ کی جنگیں ٹینکوں وغیرہ سے نہیں لڑی جائیں گی بلکہ بھاری ہاتھ اُن کا رہے گا جو ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر لیں گے۔
ہمارا مخمصہ دیکھیں‘ ٹی ٹی پی اور بلوچ شورش پسندوں کی صورت میں ہمیں نئے خطرات کا سامنا ہے جبکہ ہماری تمام سوچ اور ٹریننگ ہندوستان کے بارے میں ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھاری ٹینکوں کا زمانہ جا رہا ہے۔ جرمنی نے یوکرین کو لیپرڈ ٹینک (Leopard tank) دیے ہیں لیکن یوکرین کو ان سے فائدہ کیا ہوا ہے؟ بھاری سے بھاری ٹینک ایک ڈرون کی مار ہو گئے ہیں۔ ہمیں قبائلی علاقوں میں ان جدید ہتھیاروں پر زیادہ انحصارکرنا چاہیے اور پرانی سوچ سے نکلنا چاہیے۔ لیکن یہ تو تکنیکی چیزیں ہوئیں‘ اصل اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ قوم یکسو کھڑی ہو اور فضول کی محاذ آرائی کو ختم کیا جائے۔ روس کی مثال لے لیں‘ شروع میں اُس کی فوجوں کو یوکرین میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ جنگی اہداف حاصل نہ ہو سکے لیکن بھاری نقصانات کے باوجود صدر ولادیمیرپوتن ڈٹا رہا اور اب جنگ کے تیسرے سال میں صورتحال یہ ہے کہ یوکرین کی فورسز پسپا ہو رہی ہیں اور میدانِ جنگ میں واضح پلڑا روس کا بھاری ہے۔ ایک بڑی وجہ اس کامیابی کی یہ ہے کہ روسی عوام پوتن کے پیچھے کھڑے ہیں۔ جنگ کے دوران صدارتی الیکشن ہوئے جس میں پوتن کو واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ لہٰذا حاصل یہ ہے کہ عوامی حمایت کے بغیر روس یہ جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔
کیا ہم نے کوئی انوکھے اصول مرتب کرنے ہیں؟ قومی اتحاد اور یکسوئی کے بغیر کے پی کے کے پہاڑوں اور وادیوں میں کامیابی آسانی سے مل سکتی ہے؟ وہ علاقہ پختونوں کا ہے اور 47ء سے لے کر آج تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ اُس مغربی سرحد کی محافظ پختون قوم ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ضروری ہے کہ اُن علاقوں میں آج کس قسم کی سوچ کارفرما ہے۔ ہتھیاروں کے استعمال سے پہلے قومی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس ضرور بلائیں لیکن اُسے ایک فضول کی نمائش اور کالج لیول کے تقریری مقابلہ میں تبدیل ہونے سے بچائیں۔ ویژن کا لفظ آج کل کچھ زیادہ ہی استعمال ہو رہا ہے۔ ماضی کے ہمارے جن افلاطونوں نے پاکستان کو افغانستان کی آگ میں پورا زور لگا کر دھکیلا اُن میں کچھ ویژن ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد بن جاتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved