جتنے زورشور اور شدت کے ساتھ ڈرونز‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملات میڈیا پر پیش کئے جا رہے ہیں‘ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ امریکہ کا واحد مقصد یہی تھا کہ صدر اوباما کو ان امور پر قائل کیا جائے۔ یا وزیراعظم تنازعہ کشمیر میں امریکہ کو کردار ادا کرنے کی دعوت دینے گئے تھے۔ جہاں تک توانائی کے بحران میں امریکی امداد کا تعلق ہے‘ وہ بہت پہلے شروع ہو چکی ہے۔ امریکیوں نے بارہا کہا ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی پیدا کرنے کے وسائل میں اضافے کے لئے امداد دیں گے لیکن کسی نئے منصوبے کو شروع کرنے کا وعدہ نہیں کیا گیا۔ توانائی کے شعبے میں امریکی امداد کا سلسلہ 2 سال سے شروع ہے‘ جس کا وزیراعظم کے موجودہ دورہ امریکہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح 1.6 ارب ڈالر کی جو رکی ہوئی رقم جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ وہ بھی نوازاوباما ملاقات سے پہلے ہو چکا تھا۔ اب یہ بات پاکستانی اور عالمی میڈیا میں ایک ساتھ کہی جا رہی ہے کہ وزیراعظم کا دورہ امریکہ کسی تیاری اور دونوں ملکوں کے مختلف ماہرین کے درمیان مشاورت پرمشتمل رپورٹوں کے مطالعے اور تجزیئے کے بغیر کرا دیا گیا۔ خدا جانے وہ کون لوگ تھے؟ جنہوں نے یو این کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران یا فوراً بعد صدر اور وزیراعظم کی ملاقات پر زور دیا۔ اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں نہ تو اتنی جلد بازی میں ہوتی ہیں اور نہ ہی سربراہوں کے دورے ایسی افراتفری کے عالم میں کرائے جاتے ہیں۔ امریکہ جیسی واحد سپرپاورکے ساتھ مذاکرات میں‘ ایسی پوزیشن کبھی فائدہ مند نہیں ہوتی‘ جس میں ایک فریق مطالبات کرنے اور مراعات مانگنے تک محدود رہے اور دوسرا فریق محسوس کرے کہ اس سے مہربانیاں طلب کی جا رہی ہیں۔ ایک معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایسی ملاقات میں حاصل کیا ہو گا؟ ملکوں کے باہمی مفادات کے فیصلے نہ اخلاقیات کی بنیادوں پر ہوتے ہیں‘ نہ سابقہ خدمات کا ریکارڈ دیکھ کر اور نہ میزبان سربراہ مملکت کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر۔ یہ صرف سودے بازی ہوتی ہے۔ جس کے دوران ہر فریق یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے اور اسے کتنے دبائو میں لانے کی پوزیشن میں ہے؟ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستانی وزیراعظم‘ امریکہ کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ کیونکہ ہم نے اپنا کوئی کیس تیار ہی نہیں کیا تھا۔ جبکہ امریکہ ایک بار پھر پاکستان سے سہولتیں اور رعایات حاصل کرنے کا ضرورت مند ہے ‘ یہ اس کے ماہرین کی ہنرمندی ہے کہ انہوں نے اپنی ضرورت کو بڑھا چڑھا کر پیش ہی نہیں کیااور نہ پاکستان کو موقع دیا کہ وہ امریکہ کو اپنی اہمیت اور افادیت کا قائل کر سکے۔ مذاکرات میںبات کرنے کے لئے جو کچھ ہمارے وزیراعظم کو دیا گیا‘ ان میں ایک بھی چیز ایسی نہیں تھی جو فوری یا ہنگامی نوعیت کی ہو۔ مسئلہ کشمیر 65سال سے چلا آ رہا ہے۔ وہاں گرائونڈ پر جو پوزیشن پہلے تھی‘ وہ آئندہ بھی نہ جانے کتنے عرصے تک باقی رہے گی؟ اور جب بھی یہ پوزیشن بدلی‘ اس کا فیصلہ صرف پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اور کشمیری عوام ہی کریں گے۔ جس دن امریکہ کو کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا‘ تو کوئی کم عقل ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے حق میں بات کرے گا۔ امریکہ کا ہر کردار‘ ہمارے خلاف اور بھارت کے حق میں ہو گا۔ تنازعہ کشمیر کا فیصلہ صرف کشمیری اور دونوں ملکوں کے عوام کریں گے۔ ڈرونز کا معاملہ 10سال سے چل رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا اور حکومتی سطح پر صرف دوتین سال سے یہ مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امریکہ کی طرف سے اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ملا کہ’’ آپ اپنی سرزمین سے ہمارے مفادات پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کو نکال دیجئے‘ حملے رک جائیں گے۔‘‘ غور کیا جائے‘ تو ڈرون حملے رکوانے کی کنجی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ 90فیصد سے زیادہ ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں ہوتے ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ اور پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ہمارا اس علاقے پر کوئی اختیار نہیں۔ ایک انکشاف کے مطابق بیت اللہ محسود شمالی وزیرستان میں ہی روپوش تھا۔ وہ ہمارے قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچا رہا تھا اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے تھے۔ ہم نے سرکاری طور پر امریکیوں سے اپیل کی کہ اس کے خلاف ڈرون کا استعمال کیا جائے۔ بیت اللہ محسود کو ہماری فرمائش پر ہلاک کیا گیا۔ ظاہر ہوا کہ ڈرون حملے رکواناہمارے بس میں ہے۔ جس دن ہم نے شمالی وزیرستان کو عالمی دہشت گردوں سے خالی کرا کے‘ وہاں پاکستان کی رٹ قائم کی‘ ڈرون حملوں کا جواز ختم ہو جائے گا اور امریکہ کو بھی ان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہاں عالمی دہشت گرد بیٹھے دنیا بھر میں کارروائیاں کرنے کے منصوبے بنا رہے ہوں اور امریکہ ہمارے مطالبات کی وجہ سے ڈرون حملے روک دے۔ ایسا نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں بھی ہم مطالبے کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا‘ تو امریکہ جیسی سپرپاورمحض مطالبے کر کے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو لے جا سکتی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونے جا رہا ہے۔ ایسے معاملات جب بھی طے ہوتے ہیں‘ حکومتوں کے مابین باہمی اور خفیہ سمجھوتوں کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سربراہ باہمی رضامندی سے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے‘ قانونی طور طریقوں کو نظراندازکر کے ملکی مفادات کی روشنی میںایسے معاملات کو ختم کرتے ہیں۔ جیسے امریکی صدر ڈاکٹر عافیہ کی سزا اپنے خصوصی اختیارات کے تحت ختم کریں اور ڈاکٹر شکیل پر قائم مقدمات حکومت پاکستان واپس لے کر ‘ اسے چھوڑ دے۔ یہ معاملہ جب بھی حل ہوا‘ اسی طرح کے کسی طریقے سے ہو گا۔ وزیراعظم کے مذاکراتی ایجنڈے میں ایسے معاملات کو شامل کرنا تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے وہ معاملات امریکہ کے سامنے رکھنا چاہئیں جو فوری حل کے متقاضی ہیں۔ میں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ امریکی افواج اور اس کے جنگی سامان کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اب اس میں تیزی آنے والی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم واپسی کے عمل میں تیزی آنے سے پہلے امریکیوں سے کہیں کہ ’’آئیے جناب! ذرا میز پر بیٹھ کر بات کریں کہ آپ نے جنگ کے شروع میں اور اب واپسی کے وقت ہمارے ذرائع آمدورفت کے استعمال سے ہمارا جونقصان کیا ہے اور کریں گے‘ اس کا چکتا کون کرے گا؟‘‘ ماضی میں زمینی انفراسٹرکچر کے نقصان کا جو معاوضہ دیا گیا‘ اس کا ماہرانہ تخمینہ لگایا ہی نہیں گیا۔میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں بلاتاخیر عالمی ماہرین کی ایک کمیٹی بنا کر‘ ان سے تخمینہ لگوانا چاہیے کہ پاکستان کے راستے‘ افغانستان میں فوجیں اور سامان لے جاتے وقت‘ دوران جنگ اپنی فوجوں کو سپلائی برقرار رکھنے کے لئے اور اب واپسی میں ہمارے انفراسٹرکچر کو جو نقصان پہنچے گا‘ اس کی ادائی کیسے ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہماری موٹروے‘ جی ٹی روڈ اور کراچی سے چمن جانے والی تمام مرکزی شاہراہوں کو امریکہ کے بھاری ٹرالروں اور گاڑیوں نے ادھیڑ کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے نہری اور دریائی پلوں کی عمر کم کر دی ہے۔ ہمیں اپنا شکستہ انفراسٹرکچر پھر سے تعمیرکرنا پڑے گا اور اس کام کے لئے اخراجات ادا کرنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ انوکھا کام نہیںکریں گے۔ امریکہ نے گزشتہ چند سال کے دوران‘ اچھی طرح سے دوسرے ذرائع آزمانے کی کوشش کی مگر وسطی ایشیا کے جن ملکوں سے امریکہ نے اپنا سامان اور فوجی دستے واپس لے جانے کی درخواست کی‘ ان سب کے بل اتنے بھاری تھے کہ امریکیوں کو مجبور ہو کر پاکستان کی طرف لوٹنا پڑا۔ کیا ہمارے ماہرین او ر دفاعی اور خارجہ امور کی وزارتیں اس بات کو نہیں جانتیں؟ جب یہ چھوٹے چھوٹے ملک‘ امریکہ کی طاقت سے ڈرے بغیر‘ اپنا حق طلب کرنے سے نہیں ڈرے‘ تو ہمیں کس بات کا ڈر ہے؟عالمی قوانین کے تحت یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر آمدورفت کے انفراسٹرکچر کے استعمال کا معاوضہ حاصل کریں۔ اگر ایک منتخب حکومت بھی سر اٹھا کر اپنا حق نہیں مانگ سکتی‘ تو پھر کون مانگے گا؟ اور سچی بات ہے ‘ ہمارے مواصلاتی انفراسٹرکچر کو امریکیوں نے جس طرح برباد کیاہے‘ اسے دوبارہ پرانی حالت میں واپس لانے یا اسے ازسرنوتعمیر کرنے کے وسائل ہمارے پاس نہیں ہیں۔ یہ وسائل انہی کو مہیا کرنے ہوں گے‘ جنہوں نے انہیں توڑپھوڑ کے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہم اگر اس وقت چپ رہیں گے‘ تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ حقیقت ہے کہ ہم آنے والے کئی عشروں تک اس نقصان کی تلافی نہیں کر پائیں گے‘ جو ہمیں پہنچایا جا چکا ہے۔ رہ گئے کشمیر‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈرون حملے؟ تو یہ سب مسائل اپنے اپنے وقت پر حل ہوں گے۔ لیکن جو وقت سر پہ آ گیا ہے‘ پہلے اس کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔پہلاکام پہلے۔ ہے کوئی مائی کا لال؟ جو امریکیوں کے ہاتھوں پاکستان کے مواصلاتی انفراسٹرکچر کی تباہی کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے جائے؟ سید اقبال حیدر کی وفات کے بعد وکلا برادری میں کچھ مردان حر تو یقینا باقی ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved