تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-07-2024

حمزہ شہباز خاموش کیوں؟؟

کیا آپ نے ایک بات محسوس کی؟ یہ کہ جب ہر طرف سیاست سیاست‘ دھاندلی دھاندلی‘ کارکردگی کارکردگی‘ مہنگائی مہنگائی‘ احتجاج احتجاج ‘ مذاکرات مذاکرات اور بجٹ بجٹ کا واویلا ہے‘ ایسے میں ایک سیاسی رہنما بالکل خاموش ہے۔ نہ اُس کی جانب سے کوئی بیان آتا ہے‘ نہ کوئی خبر ریلیز ہوتی ہے‘ نہ ہی کوئی مطالبہ نہ کوئی تجویز‘ نہ کوئی اظہارِ خیال نہ کسی پالیسی یا اقدام پر کوئی تنقید۔ یہ بندہ کون ہے؟؟ حمزہ شہباز۔ جب سے ملک میں عام انتخابات ہوئے ہیں‘ اور جب سے نئی حکومتوں نے کام کرنا شروع کیا ہے‘ کیا آپ نے کبھی حمزہ شہباز کا کوئی بیان سنا‘ کوئی خبر پڑھی؟ یقینا نہیں پڑھی ہو گی۔ تو کیا خیال ہے حمزہ شہباز کی اس خاموشی بلکہ گہری خاموشی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے‘ یا پھر سیاست میں دلچسپی نہیں رہی‘ یا پارٹی کے معاملات میں کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں جو موافق نہیں ہیں یا کچھ ابہام ہیں جن کا خاتمہ نہیں ہو پا رہا؟ اب اس سب کی اصل وجہ تو حمزہ شہباز ہی بتا سکتے ہیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ حمزہ شہباز اس سیاست کے قائل نہیں جیسی کہ اس وقت ہو رہی ہے۔ ان کے والد صاحب وزیراعظم ہیں اور تایا زاد بہن وزیراعلیٰ پنجاب‘ چنانچہ ان کے لیے مرکز یا پنجاب میں کوئی بھی حکومتی عہدہ لینا مشکل یا ناممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اگر سرگرم نہیں ہیں اور خاموش ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ خود کو اس میں سیٹ محسوس نہیں کرتے۔
عوام میں ان کا جو بھی تاثر پھیلایا گیا ہو‘ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حمزہ شہباز ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ عوامی فلاح اور مخلوقِ خدا کی خدمت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ہے‘ وہ کسی انسان کو دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے‘ جبکہ آج کی سیاست میں یہی چیز عنقا ہے۔ یہ بات محاورتاً بولی جاتی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن انسانی ہمدردی اور عوامی بہبود کے معاملات میں یہ چیز ثابت ہو جاتی ہے۔ خود ہی پرکھ لیں اور اندازہ لگا لیں کہ ہماری حکومتیں اور حکمران عوام دوست ہونے کے پیرامیٹرز پر کتنا پورے اُترتے ہیں۔ واضح ہو جائے گا کہ حمزہ شہباز خاموش کیوں ہیں۔ یہ ایک پرانا اصول ہے کہ سیاست کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی کی سیاست کے لیے قربانیوں کی بات کی جائے تو ہمیں قربانیوں کی ایک طویل فہرست نظر آئے گی‘ اور یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ حمزہ شہباز کی قربانیاں ان میں سب سے زیادہ‘ سب سے منفرد اور سب سے نمایاں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اکتوبر 1999ء میں جب پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد ایک ڈیل کے تحت تقریباً ساری شریف فیملی سعودی عرب چلی گئی تھی تو یہ حمزہ شہباز ہی تھے جو پاکستان میں رہے (انہیں ہو سکتا ہے گروی کے طور پر یہاں رکھا گیا ہو) انہوں نے نہ صرف طویل عرصہ جیل کاٹی اور نامساعد حالات کا سامنا کیا بلکہ پارٹی کو قائم رکھا اور پارٹی کے سپورٹرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شریف فیملی کی جلا وطنی کے دور میں مسلم لیگ (ن) اگر منتشر ہونے سے بچی رہی تو صرف اور صرف حمزہ شہباز کے عزم و استقلال کی وجہ سے۔ حمزہ شہباز سات آٹھ سال تنِ تنہا عزم اور حوصلے کا پیکر بنے رہے۔ یہی نہیں عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی انہوں نے بہادری کے ساتھ جیل کاٹی۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے اور کسی بھی حوالے سے اُف تک نہیں کی۔
خاندان کے ہی نہیں‘ نجی‘ ذاتی اور انفرادی معاملات میں بھی وہ غیر متزلزل رہے۔ 22سال بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ ان کی نوزائیدہ بیٹی بیمار تھی اور امریکہ میں اس کی سرجری ہو رہی تھی تو حمزہ شہباز اس کے پاس جانے کے بجائے یہاں پاکستان میں موجود رہے اور پارٹی کے سیاسی معاملات میں مصروف رہے۔
حمزہ شہباز کی خاموشی کی وجوہات پر غور کریں تو ایک وجہ مسلم لیگ (ن) لاہور کی صدارت کے معاملے میں ان کی بات کا نہ مانا جانا بھی شامل ہو سکتی ہے۔ صدارت کے لیے رانا مشہود احمد خان‘ حافظ میاں نعمان‘ میاں مرغوب احمد اور سیف کھوکھر امیدوار تھے۔ حمزہ شہباز کا خیال تھا کہ لاہور کی پارٹی صدارت کسی ایسی شخصیت کو ملنی چاہیے جس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کا کارکن پوری طرح اٹیچ ہو اور جو پارٹی کو مزید فعال بنانے میں سرگرم کردار ادا کر سکے کیونکہ لاہور کو مسلم لیگ (ن) کا قلعہ سمجھا جاتا ہے‘ لیکن لاہور کی پارٹی صدارت حمزہ شہباز کی مرضی کے برعکس سیف کھوکھر کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ اس طرح حمزہ شہباز کی پارٹی کو لاہور کی سطح پر اجاگر کرنے کی ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس پر ظاہر ہے خاموشی کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
اگر مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور حمزہ شہباز کے درمیان تعلق کا ذکر کیا جائے تو (ن) لیگ اور شریف فیملی میں حمزہ شہباز واحد شخصیت ہیں جس کا کراچی سے لے کر پشاور تک بالعموم اور اٹک سے لے کر صادق آباد تک بالخصوص پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہر وقت اور ہر سطح پر رابطہ رہا‘ اور حمزہ شہباز تک پارٹی کارکنوں کی رسائی 24گھنٹے ممکن تھی۔ حتیٰ کہ جب حمزہ شہباز مختصر عرصے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب بنے تب بھی ان کے اور پارٹی کارکنوں کے درمیان رابطے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہ پہلے ہی کی طرح حمزہ شہباز سے بلا جھجک مل سکتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کا کارکن ہمیشہ حمزہ شہباز کو اپنے حقوق کا پاسبان سمجھتا رہا ہے‘ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حمزہ شہباز پارٹی کے اجلاسوں میں ببانگِ دہل کہا کرتے تھے کہ پارٹی کا ورکر مسلم لیگ (ن) کا قیمتی اثاثہ ہے‘ اگر ہم ورکر کو مسلسل نظر انداز کریں گے اور پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والوں کو فراموش کر دیں گے اور جب انتخابی امیدوار کے لیے ٹکٹ دینے کی باری آئے تو نو واردوں کو ٹکٹ دیں گے تو اس کا بہت اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس کا پارٹی کو نقصان ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کے ورکر کی آج بھی یہی خواہش ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف‘ جو اب پارٹی صدر بھی ہیں‘ حمزہ شہباز کی اس طویل خاموشی کو توڑیں‘ انہیں تھپکی دیں اور انہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ میاں نواز شریف نے محرم کے بعد جو ملک گیر جلسوں اور جلوسوں کا اعلان کیا ہے‘ ان میں حمزہ شہباز کو بھی اپنے شانہ بشانہ لے کر چلیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو شاید یاد ہو کہ ماضی میں دونوں حمزہ شہباز کو اپنے سیاسی جاں نشین بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ وہ اگر حمزہ شہباز کی خاموشی توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ملک کو درپیش بحرانوں اور پارٹی کو درپیش مسائل و مشکلات کو دور کرنے میں حمزہ شہباز بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کا کمبی نیشن پارٹی میں ایک بار پھر سے نئی جان ڈال سکتا ہے۔ یہی وقت کی طلب اور یہی حالات کا تقاضا بھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved