آپریشن عزم استحکام صرف ایک آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک حکمت عملی‘ ایک ویژن کا نام ہے۔ یہ دہشت گردوں کو تباہ کرنے‘ ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے عزم کا اعادہ ہے۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی دہشت گردی کے انسداد کیلئے آپریشن عزم استحکام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے دشمن کو بتایا گیاکہ افواج اور عوام‘ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کیلئے پُرعزم اور متحد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وطنِ عزیز نہایت نازک دور سے گز رہا ہے۔ ایک جانب معاشی عدم استحکام ہے اور دوسری جانب سیاسی انتشار اور دہشت گردی۔ ایسے میں افواجِ پاکستان اپنا فرض بخوبی نبھا رہی ہیں۔ آپریشن عزم استحکام ضربِ عضب‘ ردالفساد‘ خیبر وَن‘ خیبر ٹو‘ آپریشن راہِ راست‘آپریشن راہِ نجات و دیگر آپریشنز کا تسلسل ہی ہے۔ اس کا مقصد قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح پھونکنا اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔ عزمِ استحکام کا مقصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
2014ء میں دشمن نے جو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا‘ وہ حملہ سکول پر نہیں بلکہ قوم کے مستقبل پر ہوا تھا جس میں اس مادرِ وطن کے معصوم معماروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور بچوں سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ انکے لہو کا دشمن سے حساب لینے کیلئے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جس کے تحت آپریشن ضربِ عضب کی کارروائیوں میں مزید تیزی لائی گئی۔ یہ آپریشن اُس وقت کی عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور ملک میں امن و امان قائم ہوا۔ لیکن اب جب ملکی سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد میں توسیع کرتے ہوئے آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بھی اس آپریشن کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے فیصلہ پر سیاسی جماعتوں میں نظر آنے والی تقسیم دہشت گردوں کو یہ شہ دینے کے مترادف ہے کہ وہ ہمارے ملک میں جیسے چاہے دندناتے پھریں۔ خدارا سبھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور ملکی امن و امان اور سالمیت کو جھوٹی اَنا اور ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ ہم آج اگر اپنے گھروں میں محفوظ ہیں تو پاک فوج کی قربانیوں کی وجہ سے۔ آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج کے جانبازوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر ان دہشت گردوں کو محدود کر رکھا ہے اور آپریشن عزم استحکام سے ملک کا امن مزید مستحکم ہو گا۔ ان شاء اللہ!
افسوس سیاسی انتشار اور ذاتی مفادات کی جنگ سکیورٹی اداروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمران تو نیشنل ایکشن پلان کے 22نکات میں سے اُن 17نکات‘ جن پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے‘ پر عملدرآمد میں ناکام رہے بلکہ عوام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے نقصانات کے حوالے سے کوئی بیانیہ بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ رواں برس مئی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق افواجِ پاکستان اب تک دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر 13ہزار کارروائیاں کر چکی ہیں۔ آپریشن عزم استحکام بھی ٹارگٹڈ آپریشن ہے جو ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ آپریشن عزم استحکام اور ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کیے گئے آپریشنز میں فرق ہے۔ سابقہ آپریشنز میں ایسے علاقے‘ جو دہشت گردی کی وجہ سے نوگو ایریاز بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے‘ وہاں سے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اُن علاقوں سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے علاقہ مکینوں کی نقل مکانی بھی کروانی پڑی۔ لیکن آج‘ اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو ایریاز نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو گزشتہ آپریشنز کے ذریعے فیصلہ کن طور پر شکست دی گئی تھی۔ اس لیے آپریشن عزمِ استحکام ایسا آپریشن نہیں جس کی انجام دہی کے لیے آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں اپنے دس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اور اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا کر بھی ہم امریکہ کو خوش نہیں کر سکے۔ اس نے ڈومور کے تقاضے کرکے ہمارے ساتھ عملاًدشمنوں والا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ازلی دشمن بھارت کی پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے اور سی پیک کو سبو تاژ کرنے کیلئے پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ امریکی کانگرس میں منظور کی جانے والی قراردادبھی پاکستان کے سیاسی انتخابی سسٹم کو مشکوک بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ حد تو یہ ہے کہ طالبان حکومت آج عملاً بھارت کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس کی سازشوں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔ طا لبان کے مخاصمانہ رویے اور دوحہ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے افغان طالبان گٹھ جوڑ نے خطے کا امن داؤ پر لگا دیا ہے جس کا واضح ثبوت بلوچستان میں خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ بنانے والے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی دفاعی شوریٰ کے کمانڈر نصر اللہ عرف مولوی منصور اور ادریس عرف ارشاد کی گرفتاری ہے۔ مولوی منصور نے دورانِ تفتیش ٹی ٹی پی کے افغان طالبان‘ بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور کالعدم بی ایل اے سے گٹھ جوڑ سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔ گرفتار دہشت گرد نے اعترافی وڈیو بیان دیا جس میں اس نے بتایا کہ میرا نام نصر اللہ عرف مولوی منصور ہے‘ میں نے پاک فوج کی مختلف چیک پوسٹوں پر شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان‘ ڈی آئی خان اور پاک افغان بارڈر پر حملوں کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ جنوری 2024ء میں ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود اور نائب امیر مفتی مزاحم نے مجھے قندھار افغانستان بلا کر ایک خاص مقصد کے تحت پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جانے کا حکم دیا اور اس مقصد کیلئے ہمیں سپن بولدک سے ہوتے ہوئے بی ایل اے کی رہنمائی اور مدد سے بلوچستان کے جنوب سے پاک افغان بارڈر کراس کرنے کا کہا گیا۔ اس سارے کام کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا۔ بقول دہشت گرد نصراللہ مولوی نور ولی سمیت ٹی ٹی پی کے تمام کمانڈر افغانستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ افغان طالبان حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ انہیں مکمل سہولت کاری فراہم کررہی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر نصراللہ کی گرفتاری اور اس کے اقبالی وڈیو بیان کی تصدیق امریکی سی آئی اے کی سابق رکن (Intelligence Analyst) سارا ایڈمز کے Shawn Ryan Show میں کیے گئے انکشاف سے بھی ہو جاتی ہے کہ بھارت نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ خالصتاًن کے حامیوں کو قتل کرنے کیلئے ایک کروڑ ڈالر ادا کیے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں طالبان دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے۔ اس سنگین صورتحال کے تناظر میں ملکی بقا و سلامتی کی خاطر قومی‘ سیاسی اور مذہبی قیادت سمیت تمام سٹیک ہو لڈرزکا دفاع وطن اور دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کا تقاضا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved