عجب تماشا نہیں‘ تماشوں میں عمر گزر گئی‘ جو ہم دیکھے جا رہے ہیں۔ اب تو دل میں کوئی ملال‘ کوئی دکھ اور کوئی رنج نہیں۔ وہ زمانہ بھی کب کا گزر چکا۔ اب ہم خود تماشا ہونے کے باوجود دنیا کے تماش بینوں کی صف میں شامل ہو چکے۔ غیروں کی طرح ہم بھی اب اونچی جگہ کھڑے ہو کر تماشا کرنے اور تماشا بننے والوں کے کرتب اور فنکاریاں دیکھ کر محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی اگلی چال‘ اگلا قدم‘ زبان وکلام کے نئے زاویے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ مگر ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے کہ سیاسی ڈرامے کے سب کردار وہی ہیں۔ نہ سکرپٹ بدلا اور نہ اداکار۔ اب اس آٹھویں‘ نویں بار دونوں بڑے ایوانوں میں عوامی لباس کی جگہ گہرے رنگوں کے بزنس سوٹوں نے لے لی ہے۔ اس پر کئی دن غور وفکر کرنے کی کوشش کی تو نکتہ یہ کھلا کہ واشنگ پائوڈر کے اشتہاروں سے موروثی سیاسی خاندانوں نے بہت سنجیدہ سبق سیکھا ہے۔ مغربی سوٹ گاہے گاہے زیب تن فرما کر دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ فرق صاف ظاہر ہے۔ یہ کہ وہ روشن خیال ہیں‘ مغرب کے پرانے تابع فرمان‘ حلیف‘ اور جنہوں نے سائفر کو ایشو بنا کر سیاست کی ہے‘ ان سے نہ صرف مختلف ہیں‘ بلکہ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ معتوب پارٹی کے بانی نے قومیت پرستی کا رنگ اپنی ذات میں بھرنے کی غرض سے عوامی سوٹ کو ملکی اور بین الاقوامی سرکاری تقاریب میں رواج دیا تھا۔ عرب‘ افریقی اور بھارتی رہنما بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ جو سرکاری پارٹی آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد وجود میں آئی‘ تو اچانک ہی سوٹوں والے اتنی تعداد میں دکھائی دینے لگے کہ یوں محسوس ہوا واقعی وہ انقلاب آگیا ہے جس کی امید پر لوگ جی رہے تھے۔ ہمارے دوست کسی زمانے میں جب نیا سوٹ بنواتے تھے تو ''مبارک‘‘ نہ کہنا کنجوسی میں شمار ہوتا تھا۔ اس لیے ہم سوٹوں والی سرکار کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک گزارش بھی ہے کہ سوٹوں کو ''سُوٹوں‘‘ (یعنی کش لگانا) نہ پڑھ لینا۔ ان کا کام صرف ڈرامے میں اداکاری ہے‘ مگر اسے آپ شوقیہ نہ تصور کر لینا اور نہ ہی مہمان اداکار سمجھنا‘ بلکہ یہ مفادات کے تحفظ اور ترویج کے لیے پانی پت کی آخری لڑائی کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔
ہماری داستانِ عجب اتنی پُرفریب‘ پُرپیچ اور بھلے کاموں سے بھری پڑی ہے کہ ہمیں اس پر کسی دل فریب تماشے کا گماں گزرتا ہے۔ اس لیے تو ہم آپ سے کہیں زیادہ ذوق وشوق سے یہ سب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عجب والی بات شاید آپ کو سمجھ نہ آ رہی ہو تو اسے کچھ معقول اور کچھ نامعقول مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یوں سمجھیں کہ ہم گھر کو خود آگ لگاتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ دنیا آکر اسے بجھائے۔ کئی بار دنیا آگ بجھانے کے لیے آئی‘ مگر اب وہ کہتے ہیں کہ خود سوزی کرنے کے طریقوں سے آپ کو کئی مرتبہ آگاہ کر چکے ہیں‘ بلکہ گائیڈ بکس تیار کرکے بھی دی ہیں‘ اگر مرنے کا شوق ابھی تک نہیں گیا تو آپ اپنا شوق پورا کریں‘ ہمیں معاف کرنا‘ ہمیں اور بھی کام کرنے ہیں۔آگ بجھانے کے لیے روزانہ کی دوڑیں ہم نہیں لگا سکتے۔
اگر بات اب بھی سمجھ میں نہیں آئی تو کھلے سمندر میں کشتی کی مثال تو آپ نے سن رکھی ہو گی۔ اگر نہیں تو کچھ اس طرح ہے کہ مذکورہ کشتی میں سفر کرنے والوں میں سے کچھ خود ہی اس میں سوراخ کر رہے تھے۔ یہ کشتی بان تھے جن کے ہاتھ سمت کا تعین کرنے اور رفتار پر کنٹرول رکھنے کے آلات پر تھے۔ یہ تو نادان سواریوں کو بعد میں معلوم ہوا۔ جب کشتی ڈوبنے لگی تو اسے چلانے والے اپنی اپنی لائف بوٹ میں بیٹھ کر خوبصورت جزیروں پر ہنستے بستے ملکوں کی طرف‘ جہاں ان کے مستقل ٹھکانے‘ دولت کے انبار اور محلات تھے‘ بھاگ گئے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ جب کسی نہ کسی طرح کشتی کے سواروں نے اسے ڈوبنے سے بچائے رکھا تو وہ پھر واپس آ گئے اور دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا کہ یہ تو ہمارا آبائی پیشہ ہے‘ تُو کون ہے اس کے پتوار کو ہاتھ لگانے والا۔ یہ الگ بات کہ کشتی دوبارہ پہلے کی طرح گہرے سمندر میں بے سمت محوِ سفر ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کس کنارے جا لگے گی۔ ممکن ہے آپ کو اس کہانی میں کسی مبالغے کا گمان ہو لیکن باہر کی دنیا میں ہماری کہانی بالکل اس طرح پڑھی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک کے نامور صحافی اور اینکرپرسن کامران خان صاحب نے ایک زمانے میں ''عجب کرپشن کی غضب کہانی‘‘ کے عنوان سے کئی پروگرام کیے تھے۔ وہی کہانی اور دیگر کئی کہانیاں ''ہزار داستان‘‘ کی صورت دنیا کے اخباروں میں چھپ رہی ہیں۔ ان کے بارے میں اب بات کرنے سے جی متلاتا ہے۔ عجب تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ جب ضیا دور ختم ہوا‘ جس پر ہم سب ایسے ایسے القابات کی بارش کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! آپ جو کہیں سب درست ہے‘ مگر مجموعی طور پر اسّی کی دہائی میں پاکستان جنوبی ایشیا کا خوشحال ترین ملک تھا۔ پہلی بار یہ درویش 1984ء میں بھارت گیا اور کئی بڑے لیڈروں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا‘ تب لوگ ہمیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ ہماری فی کس آمدنی‘ روپے اور ڈالر کا فرق اور ترقی کی رفتار بھارت اور چین کے مقابلے میں بہتر تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ 1988ء کے بعد ملک اور عوام غریب ہوتے چلے گئے اور سیاسی گھرانے امیر سے امیر تر ؟ اگر کسی کو شک ہے تو اُن کی 1988ء میں دولت‘ جائیدادیں اور کارخانوں کا مقابلہ آج کل جو سرکاری طور پر سامنے ہے‘ اس سے کر لے۔ نہ اُن کی زبان تھکتی ہے اور نہ ان کے آگے پیچھے دوڑنے والے کل پرزوں کی۔ بس اب ہم ''ٹیک آف‘‘ کرنے لگے ہیں‘ مگر جب کرتے ہیں تو وہ ''ملک دشمن‘‘ جہاز کے پہیوں کو پکڑ کر اسے پرواز نہیں کرنے دیتے۔ یہ تماشا گزشتہ 45 سالوں سے ہمیں بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ اب تو ہم اپنے اس مقدر‘ جو ہمارے ہاتھوں کی لکیروں میں کسی تیز دھار ہتھیار سے گہرا کر دیا گیا ہے‘ کے سامنے سر جھکائے جیے جا رہے ہیں۔
دنیا ایسی قوم کی عزت نہیں کرتی اور نہ ہی ان شوخ رنگوں کے سوٹوں والی سرکار کے بڑے ناموں کی۔ دنیا کی رسم نبھانے کے لیے ان سے دیگر ملکوں کے رہنما ہاتھ بھی ملاتے ہیں‘ مسکراتے ہوئے خوش آمدید بھی کہتے ہیں‘ ہمارے ملک کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے عزت بھی بخشتے ہیں۔ ہماری اُن سے تو نہیں‘ مگر جو اُن اہم ملکوں سے قریب رہے ہیں اُن سے تو ملاقاتیں رہی ہیں۔ اندر کی کہانیاں اور وہ قصے جو عجب کرپشن کی کہانی میں تھے‘ کامران خان لطف لے کر سناتے تھے۔ شاید ہمارے اِن اکابرین کو بھی معلوم ہے کہ دنیا ان کے بارے میں کیا کہتی ہے مگر جب عزت اور وقار سے دستبردار ہو جائیں تو پھر کس کی پروا۔ سونے کی چمک سنا ہے کہ اکثر کو اندھا کر دیتی ہے۔ کل ہی ہمارے ٹی وی پروگرام میں بات ہو رہی تھی کہ دیکھیں برطانیہ میں انتخابات ہوئے‘ ایران میں ہوئے اور چند ہفتے پہلے بھارت میں ہوئے‘ کسی نے شور نہیں مچایا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ یہاں پھر کیوں شور اٹھتا ہے؟ سوال تو دلچسپ ہے اور اس کے اندر ہی جواب بھی موجود ہے۔ بات تو سیاسی شخصیات کے کردار‘ اخلاقی اقدار‘ آئین و قانون کے احترام اور راست بازی کی ہے۔ جن کے بغیر ہر نظام اُس گل بوٹوں والے ٹرک کی طرح ہو گا جو بغیر بریکوں کے پہاڑی علاقوں میں کچی سڑک کی ڈھلوان پر چھوڑ دیا جائے۔ سیاسی حادثات ہم خود کرتے ہیں‘ پھر شور مچاتے ہیں کہ بچاؤ بچاؤ۔ عجیب تماشا ہے‘ بس دیکھتے جاؤ اور اپنی جان بچاؤ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved