تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-07-2024

آج کا عمران کیا سوچتا ہے؟ …(1)

وہ پہلے سے بہت زیادہ مستعد‘ فٹ اور مضبوط لگا۔ صد فی صد فوکس اور واضح گفتگو کرنے والا‘ بغیر کسی ابہام کے سنگل ٹریک آدمی۔ اللہ پر توکل کی انتہا متاثر کن بھی اور کئی حوالوں سے حیران کن بھی۔ جب یہ کالم آپ پڑھیں گے تب اُس کی قید 12ویں مہینے کا پہلا ہفتہ مکمل کرے گی۔ جمعہ کے روز میں نے صبح اسلام آباد کی ہائیکورٹ اور پھر جوڈیشل کمپلیکس میں ATC کورٹ میں کیس نمٹائے۔ جس کے بعد 10:10 پر اڈیالہ جیل راولپنڈی کی بلند وبالا دیواروں کے اندر داخل ہوا‘ جہاں قیدی نمبر 804 کا ٹرائل تھا۔ دوسرے قیدیوں کے لیے استعمال ہونے والا کورٹ روم صرف ٹرائل کورٹ جج صاحب کے چیمبر کی حد تک کھلتا ہے جبکہ عمران خان کے مقدمات کا ٹرائل ایک بوسیدہ ٹین ڈبہ ٹائپ بیرک نما کمرہ‘ جس کے اندر ہارڈ بورڈ وغیرہ سے تازہ کھوکھے بنائے گئے ہیں‘ وہاں ہوتا ہے۔ میں اس جیل ٹرائل کورٹ روم میں پہنچا تو آگے نیب کی پراسیکیوشن ٹیم کرسیوں پر بیٹھی تھی۔ میز کے دوسری جانب عمران خان کو آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ اور ایتھلیٹک پہناوے میں‘ اپنی مخالف ٹیم سے ٹیبل پر ہاتھ رکھے خوش گپیوں میں مصروف پایا۔ علیک سلیک کے بعد ہم نے گپ شپ شروع کی۔ میں نے سرسری سا پوچھا: خان قیدِ تنہائی کیسی چل رہی ہے؟ پہلے مخصوص انداز میں قہقہہ لگایا اور پھر کہا: بابر! میں کبھی اکیلا نہیں ہوتا‘ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ میرا اللہ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔
اُوپر میں نے جس توکل کی بات کی تھی وہ عمران خان کی رُوح تک اُترا ہوا ہے۔ پھربولنا شروع کیا: اگر انسان اپنی ضرورتوں کو محدود کر لے‘ تو اُس کے لیے کہیں بھی رہنا مشکل نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی ضرورتیں مزید محدود کر لی ہیں۔ یہ سُن کر میرا دھیان 2017ء کی ایک صبح کی طرف چلا گیا۔ جب میں بیٹے عبداللہ کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کے لیے عمران خان کو ساتھ لینے بنی گالا پہنچا تھا۔ تب عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ سینئر ترین جج‘ جسٹس محسن اختر کیانی نے ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا۔ عمران خان کے رہائشی کمپائونڈ پر گاڑی روکی تو بنی گالا کا اکلوتا گارڈ ایوب باہر نکل آیا اور کہنے لگا: آپ کا انتظار ہو رہا تھا۔ اتنے میں سفید کیٹی کے شلوار قمیض میں ملبوس عمران خان باہر آ گئے۔ دروازے کے باہر پرانے ریلوے سٹیشنوں پر لگے ہوئے موٹے منہ والا نلکا کھولا۔ نیچے بیٹھ کر ہاتھ منہ دھوئے۔ گیلی انگلیوں سے بال سیدھے کیے اور کہنے لگے: چلیں! میں نے کہا: یار جیکٹ تو لے لیں۔ عمران نے انتہائی معصومیت سے قمیض کو استری کرنے کے انداز میں ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے: سب ٹھیک ہے‘ چلتے ہیں۔ میں نے عبداللہ سے جیکٹ مانگ کر عمران خان کو پیش کی‘ جو اُس نے اپنے کندھے پر لٹکا لی۔ قدرت نے آج کا عمران اس نیچرل اور سادہ طرزِ زندگی کے اگلے درجے پر پہنچا چھوڑا ہے۔ میں جب بھی باہر نکلتا ہوں‘ اپنے احباب ہوں یا انجان لوگ‘ مجھے دو باتیں ضرور سننے کو ملتی ہیں۔ ایک دعائیہ فقرہ‘ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ظالموں کے ظلم سے بچائے۔ اگلا جملہ لازماً عمران خان کے بارے میں ہوتا ہے۔ آئیے آپ کو بتاتا چلوں آ ج کا عمران کیا سوچتا ہے۔ کوشش کروں گا کہ میں عمران خان کے الفاظ ہی میں آپ کو بتائوں۔
عمران خان کی اولین سوچ: باہر جا کر بتانا‘ ایک سال کی قید تو کیا مجھے موت بھی آ جائے تب بھی حقیقی آزادی اور آئین کی بالادستی کی منزل سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی ایک ہے‘ جس کو جس کام کیلئے بھرتی کیا گیا ہے‘ وہ اُس کام کے علاوہ باقی سارے کام کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے 76 سال بعد بھی ہمارے ادارے‘ ادارے نہ بن سکے‘ ہماری قوم دنیا کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکی اور ہم پیچھے رہ گئے۔ جب تک طاقتور لوگ اور طاقتور ادارے آئین کے نیچے نہیں آئیں گے ملک نیچے ہی رہے گا‘ اُوپر نہیں اُٹھ سکتا۔ یہ صورتحال ملک زیادہ دیر افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہم کراس روڈ پر پہنچ چکے ہیں لیکن یہ طے ہو گیا ہے کہ پوری قوم آئین کی بالادستی چاہتی ہے۔
عمران خان کی دوسری سوچ: جہاں تک مذاکرات کی بات ہے‘ اُس کا ٹائم گزر گیا۔ مذاکرات 8 فروری کی رات کو ہو سکتے تھے۔ تب سارے لوگ بیٹھتے‘ قوم کا فیصلہ مان جاتے‘ ووٹر کے مینڈیٹ پر ڈاکا نہ ڈالتے۔ کیونکہ یہ کوئی معمولی مینڈیٹ نہیں تھا۔ ایسٹ پاکستان والے الیکشن کے بعد ویسٹ پاکستان میں پہلی بار Electables کی سیاست ختم ہو گئی۔ لوگوں نے پورے پاکستان میں PTI کے نظریے کو ووٹ دیا۔ لیکن 9 فروری کو یحییٰ خان ماڈل ایک بار پھر دہرایا گیا۔ جیتنے والے باہر بیٹھے ہیں اور ہارنے والے اقتدارکی کرسیوں پر۔ اب استحکام کا صرف ایک راستہ بچتا ہے‘ وہ ہے فوری طور پر تین شرائط کے ساتھ پاکستان میں نئے الیکشن کرانے کا راستہ۔ پہلی شرط‘ موجودہ سیاسی الیکشن کمیشن کا کردار سابق کمشنر راولپنڈی نے قوم کے سامنے واضح کر دیا۔ اس الیکشن کمیشن کو ہٹا کر‘نیا الیکشن کمیشن فوری الیکشن کرانے کی تیاری کرے۔ دوسری شرط‘ الیکشن آئین کے نیچے آزادانہ‘ فری اور فیئر ہونے چاہئیں۔ سب سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا برابر موقع دیا جائے اور کوئی ادارہ سویلین ہو یا نان سویلین‘ وہ انتخابات کے عمل اور انتخابی نتائج سے دور رہے۔ قوم آزادانہ فیصلہ کرے گی‘ تب جا کر نمائندہ حکومت بنے گی‘ جسے اندرون ملک اور بیرونی دنیا مانے گی اور پاکستان کی عزت بحال ہو گی۔ پبلک کی نمائندہ حکومت نہ ہونا پاکستان کی ترقی کو روکنے والا سب سے خطرناک گڑھا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ تحصیلداروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے بجائے‘ جو اکثر سیاسی بھرتیوں کے ذریعے نوکری میں بیٹھے ہیں‘ ڈسٹرکٹ جوڈیشری سے RO اور ARO لیے جائیں۔ جونہی اقتدار عوام کی چوائس کے مطابق الیکٹ ہونے والی حکومت کو ملے گا‘ استحکام اور اعتماد کی بحالی کا دروازہ فوراً کھل جائے گا۔
عمران خان کی تیسری سوچ: پاکستان قرض کے سہارے نہیں چل سکتا۔ لوکل انڈسٹری اور مقامی انویسٹمنٹ کی غیر موجودگی میں باہر سے آکر کیوں کوئی انویسٹر پاکستان میں سرمایہ لگانے کا رسک لے گا؟ ہم جونہی اگلا الیکشن جیتیں گے‘ بیرونی سرمایہ کاری کا ہمارا سب سے بڑا ذریعہ اوور سیز پاکستانیز فورس ہے۔ ہم اُسے استعمال کریں گے۔ اوور سیز پاکستانیز کو نادان فیصلہ سازوں نے شدید ناراض کر رکھا ہے۔ ہم اس فورس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔
یہ کہہ کر عمران خان نے دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھے اور گہری سوچ میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میری طرف مُڑے اور کہنے لگے: اس ملک کے لوگوں اور معیشت کو کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپریل کے آخر تک ملک پر 66 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا‘ اور اب صرف 31 دنوں میں یہ قرض بڑھ کر 67 ہزار 816 ارب روپے ہو گیا ہے۔ نااہل نظام نے 1733 ارب روپیہ قرضوں میں شامل کیا۔ جو تقریباً56 ارب روپے روزانہ بنتا ہے۔ یہ واپس کون کرے گا؟
اُن کو ضد ہے کہ یہ موسم نہ بدلنے پائے
صبح بے شک ہو‘ مگر رات نہ ڈھلنے پائے
شاطرِ وقت کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے
خلقتِ شہر کوئی چال نہ چلنے پائے
(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved