مشہور کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم کا نام ونڈوز ہے‘ یعنی کھڑکیاں۔ ایک دریچہ کھولیے تو اس کے ساتھ ہی بے شمار جھروکے کھلنے اور ہر ایک میں جدا جدا منظر روشن ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اس کائنات کے خالق نے انسانی ذہن میں جو نظام رکھا ہے‘ وہ بہت برتر ہے۔ ایک پرانی یاد ذہن کے کسی دروازے کو کھول دیتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہزاروں دریچوں والا ایک محل آپ کے سامنے ہوتا ہے‘ جس دریچے کو چاہیں کھول لیجئے۔ جسے چاہیں بند کر دیجئے۔ ہر جھروکے‘ ہر کھڑکی کے دوسری طرف الگ الگ یادوں کے مناظر جگمگ کرتے اور جھلملاتے ہیں۔ یادوں کا ایک دسترخوان آپ کے سامنے بچھ جاتا ہے جس پر لاتعداد کھانے موجود ہیں۔ کسے کھائیے‘ کسے چکھئے اور کسے اگلے وقت کے لیے موقوف کر دیجئے‘ سب کچھ آپ کے اختیار میں ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ جب وقت کم اور یادیں زیادہ ہوں تو ہر منظر کیسے دیکھیں‘ ہر ذائقہ کیسے چکھیں؟
معروف ادیبہ سلمیٰ اعوان نے بہت سے دوستوں کو عشائیے پر جمع کیا ہوا تھا۔ کئی دوستوں سے بہت مدت کے بعد ملاقات ہوئی تو پرانی یادیں بھی دہرائی گئیں۔ لگ بھگ 20 سال پہلے کا لاہور سے پٹیالہ‘ بھارت کا وہ سفر بھی یاد کیا گیا جس میں بہت سے دوست اکٹھے تھے۔ واقعات دہرائے گئے۔ قہقہے لگائے گئے اور مسکراہٹیں بکھیری گئیں۔ محفل دوستوں کی مسکراہٹوں ہی سے تو روشن ہوا کرتی ہے۔ یہی گزشتہ رات بھی ہوا۔ تا دیر ذکر چھڑا رہا۔ محفل جگمگ کرتی رہی اور جب برخاست ہوئی تو ایک اور محفل پر کلک کرکے اسے روشن تر کر گئی۔ میں ساری رات اس دوسری محفل میں بیٹھا رہا اور جھروکوں کے پٹ کھولتا اور بند کرتا رہا۔ یادوں کی یہ محفل برخاست ہی نہ ہوتی تھی۔ آخر نیند نے آنکھوں کے پٹ بند کیے تو یہ محفل بھی اُجڑ گئی۔
2004ء کی سردیوں کا موسم تھا۔ ہم لاہور کے بہت سے لکھنے والے واہگہ بارڈر پر کھڑے تھے۔ پٹیالہ جانے کی تیاری تھی جہاں ہمیں پٹیالہ یونیورسٹی نے عالمی پنجابی کانفرنس میں مدعو کیا تھا۔ سفر سڑک کے ذریعے ہونا تھا اور اتنے بہت سے لکھنے والے شاید پہلی بار اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ تین بسوں میں 100 کے قریب ادیب‘ شاعر‘ صحافی حضرات و خواتین کو پٹیالہ یونیورسٹی پہنچنا تھا۔ بہت نامور لوگ اس قافلے میں شریک تھے۔ چند نام لیے جائیں تو نامور کمپیئر مرحوم طارق عزیز‘ منّو بھائی‘ بشریٰ رحمن‘ سلمیٰ اعوان‘ فخر زمان‘ شفقت تنویر مرزا وغیرہ سینئر لوگوں میں تھے۔خالد مسعود‘ بشریٰ اعجاز‘ سیما پیروز‘ ثروت محی الدین‘ نیلما ناہید‘ نیلم احمد بشیر‘ یونس متین‘ ایثار رانا‘ جنید اکرم‘ سرفراز سید‘ اختر شمار اور بہت سے نام بھی قافلے میں شامل تھے۔ (سو کے لگ بھگ نام لینا ممکن نہیں اس لیے صرف چند نام شامل کر رہا ہوں)۔ ذہن میں رہے کہ یہ 2004ء کا زمانہ ہے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات اتنے کشیدہ نہیں تھے اور ادبی‘ علمی اور ثقافتی وفود کا آنا جانا ممکن تھا۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ تھے جو پٹیالہ کے مہاراجگان کی اولاد میں سے ہیں۔ پاکستانی پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے۔ غالباً امریندر سنگھ نے پاکستان کا دورہ کیا اور جوابی دورے کے طور پر چودھری پرویز الٰہی کو اپنے ادبی وفد کے ساتھ پٹیالہ یونیورسٹی کی عالمی پنجابی کانفرنس میں مہمانِ خاص کے طور پر شرکت کی دعوت دی۔ چودھری پرویز الٰہی نے یہ دعوت قبول کر لی اور اس طرح 100 افراد کا وہ وفد تیار ہوا جس میں میں بھی شامل تھا اور اب واہگہ بارڈر پر پیدل سرحد عبور کرنے کے انتظار میں تھا۔ فخر زمان پنجابی کانگریس کے سربراہ تھے جو ایک الگ تنظیم تھی اور ان کی چھوٹی سی منڈلی بھی اس قافلے کا حصہ بن گئی تھی۔ سہ روزہ پنجابی کانفرنس میں چودھری پرویز الٰہی نے آخری دن شریک ہونا تھا اور اُسی دن ان کی تقریر تھی۔ ان کے مختصر وفد میں ہمارے سینئر دوست‘ ہر دلعزیز شاعر شعیب بن عزیز بھی شامل تھے۔ اس دن واہگہ بارڈر پر سب دوست ایک ایک کرکے اکٹھے ہوتے گئے۔ اکثر کے لیے یہ بھارتی پنجاب کی سیاحت کا پہلا موقع تھا اور سب یہ موقع میسر آنے پر خوش تھے۔
پاکستان اور بھارت کا بارڈر پیدل عبور کرنے کا پہلا موقع تھا۔ کسٹم اور امیگریشن کا مرحلہ جلد ہی نمٹ گیا۔ گیٹ کی دوسری طرف کی دنیا میں قدم رکھا تو منظر نامہ بالکل بدل چکا تھا۔ پٹیالہ یونیورسٹی کے میزبان ہمارے خیر مقدم کے لیے موجو دتھے۔ لمبے تڑنگے سردار جن میں بوڑھے‘ ادھیڑ عمر اور جوان سب شامل تھے‘ بھارتی امیگریشن سے پہلے ہم سے آ ملے۔ ابھی میں دوسری طرف قدم رکھنے کے بعد ان کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ان میں سے ایک نے بڑا سا گلاب جامن میرے منہ میں ٹھونس دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مضبوط بھرپور جپھی ڈال دی۔ میں نے بمشکل گلاب جامن کو منہ سے باہر آنے سے روکا اور بھرے منہ سے ان کی جی آیاں نوں (خوش آمدید) کا جواب دیا۔ قافلے میں ہر ایک کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ پٹیالہ یونیورسٹی کے ساتھ بھارتی وزیراعلیٰ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ بھارتی امیگریشن اور کسٹم کا مرحلہ جھٹ پٹ نمٹ گیا‘ اور اب سفر کی تیاری تھی۔پولیس کی حفاظتی گاڑیاں اور پروٹوکول کا عملہ تین بسوں کے آگے پیچھے تھا۔ اس طرح کے پروٹوکول میں انسان خود بخود اپنے آپ کو معزز اور نامور سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن حیرانی اس کے بعد شروع ہوئی۔ واہگہ سے نکلتے ہی سڑک کے دونوں طرف بھارتی سکولوں کے بچے پاکستانی اور بھارتی پرچم لیے خیر مقدم کو صف بستہ کھڑے تھے۔ مجھے اپنے بچپن کے کچھ واقعات یاد آئے جب ہم اسی طرح سڑک کے کنارے کھڑے جھنڈیاں اٹھائے بعض اوقات سخت گرمی میں‘ معزز مہمانوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے تھے۔ لیکن یہ موسم سردی کا تھا اس لیے بچوں کو کم از کم دھوپ اور گرمی کا مسئلہ نہیں ہوا ہوگا۔ کچھ دور تک یہ بچے ساتھ رہے اس کے بعد ہم واہگہ‘ امرتسر روڈ پر کھیتوں اور ہریالی کے درمیان سفر کر رہے تھے۔ لاہور اور امرتسر کا فاصلہ ناپا جائے تو یہ 50 کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس تیز رفتار دنیا میں یہ کوئی فاصلہ ہی نہیں‘ لیکن ذہنوں میں جو فاصلہ ہے وہ ہزاروں میل کا ہے۔ ذہنوں میں تو امرتسر ایک اور ہی دنیا کا شہر ہے اور عملی طور پر ہے بھی ایسا ہی۔
مکرر عرض ہے‘ یہ 2004ء کی بات ہے۔ یقینا سڑکیں‘ ماحول اور امرتسر اب بہت بدل چکا ہو گا۔ لیکن میں وہی مشاہدہ پیش کر رہا ہوں جو اُس وقت کا ہے۔ امرتسر کے مضافات ویسے ہی تھے جیسے پنجاب کے چھوٹے شہروں کے ہوا کرتے ہیں۔ کھیتوں کے درمیان دھول اڑاتی اچھی برُی سڑکیں‘ کچے پکے مکان‘ بیل گاڑیاں‘ گدھا گاڑیاں‘ سائیکل رکشا‘ آٹو رکشا اور بھارتی ساختہ گاڑیاں‘ جو پنجاب کا عمومی منظر ہے۔ فرق ان سرخ‘ زرد‘ نارنجی پگڑیوں کا تھا جو ہر طرف نظر آتی تھیں۔ لمبی داڑھیوں اور رنگا رنگ پگڑیوں والے سکھ دکانوں‘ سواریوں اور گھروں میں ہر طرف تھے۔ بھارتی پنجاب سکھ اکثریتی علاقہ ہے۔ ہندو‘ مسلمان اگرچہ موجود ہیں لیکن خال خال۔ ہم یہ منظر دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور جلد ہی پُرہجوم اور ٹریفک سے چھلکتی سڑکوں کا حصہ بن گئے۔ ہم امرتسر میں داخل ہو گئے اور ایک نئے شہر کے خد و خال واضح ہونے لگے۔ میرا پہلا تاثر ہجوم اور گندگی کا تھا۔ سڑکوں کے کنارے گندگی کے ڈھیر تھے اور انہیں دیکھ کر دھچکا سا لگا۔ بازاروں میں بھی یہی صورتحال تھی۔ اگرچہ لاہور میں بھی صفائی کے حالات کوئی آئیڈیل نہیں تھے‘ لیکن یقینا بہت بہتر تھے۔ یہ تاثر اس سفر سے پہلے بھی موجود تھا۔ جب سکھ سیاح اور زائرین‘ جو اس زمانے میں پاکستان آیا کرتے تھے‘ اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے کہ آپ کا شہر اور آپ کے لوگ بہت خوبصورت ہیں۔ ہم دائیں بائیں شہر دیکھتے آگے بڑھتے گئے۔ اچھا! تو ایسا ہے امرتسر! ہمیں یہ تو علم تھا کہ ہمارا پہلا پڑاؤ امرتسر میں کسی جگہ ہے‘ لیکن کہاں؟ یہ معلوم نہیں تھا۔ شہر میں دس پندرہ منٹ چلنے کے بعد ایک نسبتاً کشادہ سڑک نے ہمیں جگہ دی اور دو تین موڑ مڑ کر قافلہ ایک بڑے سے گیٹ میں داخل ہونے لگا۔ گیٹ پر اوپر گورمکھی اور نیچے انگریزی میں لکھا تھا: بابا گورو نانک یونیورسٹی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved