اللہ تبارک و تعالیٰ زمان و مکان کو بنانے والے ہیں‘ جس مکان کو چاہیں عظمت اور فضیلت عطا فرما دیں اور جس وقت کو چاہیں‘ اہم بنا دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیق ارض و سماوات کے دن ہی سے چار مہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ توبہ کی آیت 36 میں ارشاد فرماتے ہیں ''مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے‘ اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا اور اس میں سے چار حرمت و ادب کے مہینے ہیں‘ یہی درست دین ہے‘ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘۔ محرم الحرام کا مہینہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔کتاب و سنت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان مہینوں میں نیکی کے کاموں کا ثواب تو زیادہ ہے‘ گناہ کے کاموں کا عتاب بھی زیادہ ہے۔ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے بعد محرم الحرام کے روزے افضل ہیں۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ سے دریافت کیا گیا: فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور ماہِ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ''فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات کی نماز (تہجد) ہے اور رمضان کے بعد سب سے افضل روزے‘ اللہ کے مہینے محرم کے ہیں‘‘۔
محرم الحرام کا ایک مضبوط تاریخی پس منظر ہے۔ ایک نسبت اس کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے جنہوں نے اللہ کے دین کی تبلیغ اور توحید کی نشر واشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور اس حوالے سے نہ تو فرعون کی رعونت کو دیکھا‘ نہ ہامان کے منصب کو اور نہ ہی قارون کے سرمایے کی پروا کی۔ آپ علیہ السلام دعوتِ دین کے دوران استقامت کی چٹان بنے رہے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے کیلئے بھرپور انداز سے تگ و دو کی۔ آپ علیہ السلام نے فرعون کو اللہ کی بہت سی نشانیاں دکھلائیں لیکن وہ ہر نشانی کو دیکھنے کے بعد اللہ کی ذات سے مزید منحرف ہو جاتا۔ یہاں تلک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے ہمراہ فرعون کے علاقے سے نکلنے کا حکم دیا۔ موسی علیہ السلام جب سمندر میں داخل ہوئے تو فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون کو غرقِ آب کر دیا اور موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔ موسیٰ علیہ السلام کو جس دن نجات ملی وہ 10 محرم کا دن تھا۔ جب نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہود 10 محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مسلمانوں کی نسبت کو زیادہ مضبوط قرار دیتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ''رسول اللہﷺ جس وقت مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور استفسار فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ نیک دن ہے‘ اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی اور اس دن موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ میرا تم سے زیادہ تعلق ہے‘ چنانچہ آپﷺ نے اس دن کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی‘‘۔ نبی کریمﷺ نے عاشورا کے روزے کو ایک برس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے عاشورا کے روزے سے متعلق سوال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا ''میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ عاشورا کے روزے کو اس سے پہلے کے سال (ماضی) کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا‘‘۔
نبی کریمﷺ عبادات میں یہود ونصاریٰ کے طرزِ عمل کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسی مناسبت سے نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں استفسار کیا کہ یہود بھی 10 تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی مکرمﷺ نے یوم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام کہنے لگے: یہودی اور عیسائی تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں‘ اس پر رسول اکرمﷺ نے فرمایا: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا (بھی) روزہ رکھیں گے‘‘۔ یہاں فقہا کے درمیان اختلاف پیدا ہوا کہ کیا نبی کریمﷺ نے 10 تاریخ کے روزے کو 9 کے ساتھ بدل دیا یا 10 کے ساتھ 9 محرم کا روزہ رکھنے کا بھی حکم دیا۔ جمہور علما اس بات کے قائل ہیں کہ آپﷺ نے 10 تاریخ کے ساتھ 9 تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا؛ البتہ بعض اکابر علما کا یہ بھی مؤقف ہے کہ آپﷺ نے 10 تاریخ کے روزے کو 9 محرم کے ساتھ بدل دیا۔
محرم الحرام ہمیں سیدنا فاروق اعظمؓ کی عظیم المرتبت شخصیت کی یاد بھی دلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں کو نیا حوصلہ اور نئی توانائی حاصل ہوئی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ قبولِ اسلام سے قبل اسلام سے جس قدر دوری رکھتے تھے‘ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے اتنی ہی قربت کو اختیار کیا۔ آپؓ کی زندگی کا ایک ہی نصب العین تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور نبی کریمﷺ کی اطاعت کو اختیار کیا جائے۔ آپؓ زندگی کے جملہ نشیب وفراز کے دوران نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہے اور ہجرت کے بعد آپؓ بھی مدینہ طیبہ آ گئے۔ آپؓ نے جملہ غزوات میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ حصہ لیا اور آپﷺ کے اشارۂ ابرو پر اپنا تن من دھن نچھاور کرنے پر آمادہ وتیار ہو جایا کرتے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ سابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو یہ شرف عطا کیا کہ آپؓ کی بیٹی سیدہ حفصہؓ رسول اللہﷺ کے عقد میں آئیں۔ اسلام کو نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد جتنے بھی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے آپؓ حضرت صدیق اکبرؓ کی ہمراہی میں پیش پیش رہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے مشیر اعظم کی حیثیت سے اپنے فریضے کو انجام دیتے رہے اور بعد ازاں اللہ نے آپؓ کو خلعتِ خلافت بھی عطا کر دی۔ آپؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں روم‘ ایران اور دیگر بہت سے مقامات پر اسلام کے جھنڈے کو لہرایا۔ آپؓ نے سماجی خدمت کے ایک ایسے نظام کو متعارف کرایا جو آج بھی یورپ کے بہت سے ممالک میں جاری وساری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ریاست کو اس اعتبار سے منظم کیا کہ جدید دنیا بھی آپؓ کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لیے نشانِ منزل سمجھتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو اللہ نے جہاں دین کی خدمت کیلئے بہت زیادہ توفیق دی وہیں اللہ نے آپؓ کو شہادت کے منصبِ جلیلہ سے بھی سرفراز فرمایا اور تاقیامت آپؓ کو نبی کریمﷺ کی ہمراہی میں آپﷺ ہی کے حجرے میں دفن ہونے کا شرف عطا فرمایا۔
محرم الحرام کا مہینہ سیدنا امام حسینؓ کی شہادت کی یاد بھی تازہ کرتا ہے۔ سیدنا حسینؓ نبی کریمﷺ کے انتہائی محبوب نواسے تھے اور نبی کریمﷺ نے آپؓ کو سیدنا حسنؓ کے ہمراہ نوجوانانِ جنت کا سردار قرار دیا۔ آپؓ نبی کریمﷺ کی محبتوں کے مرکز رہے اور آپ ؓ کو دوشِ رسول پر سوار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ نے اپنی تمام عمر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں وقف کیے رکھی اور عبادت وریاضت کے اعتبار سے دیگر صحابہ کرام میں ممتاز حیثیت کے حامل ٹھہرے۔ آپؓ کی زندگی جہاں بندگی کا روشن باب ہے وہیں آپؓ ایک شہید کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے اور آپؓ کی شہادت کی کسک آج بھی مسلمانانِ عالم کے دلوں میں موجود ہے۔
محرم الحرام کا مہینہ جہاں ان عظیم الشان شخصیات کی یاد تازہ کرتا ہے وہیں ہمارے اندر یہ تحریک بھی پیدا کرتا ہے کہ اگر ہم ان شخصیات کے نام لیوا ہیں تو ہمیں انہی کے طریقے کے مطابق زندگی کو بسر کرنا چاہیے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے کردار وعمل کو ان شخصیات کی سیرت کے سانچوں میں ڈھالتے ہیں تو یقینا دنیا اور آخرت کی سربلندی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved