یہ کہانی مجھے میری دادی جان نے سنائی تھی۔ انہیں ان کی دادی نے اور ان کی دادی کو پردادی نے۔ یوں یہ کہانی سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہے۔ دادی جان کی پردادی کے سولہ پوتے تھے۔ ہر پوتے نے یہ کہانی سنی اور آگے اپنے پوتوں تک پہنچائی۔ پھر یہ پرپوتوں نے سنی۔ معلوم نہیں‘ یہ خاندان کہاں تک پھیلا اور اب کہاں کہاں موجود ہے۔ انسان کی افزائش درخت کی طرح ہے۔ فرض کیجیے یہ آم کا درخت ہے۔ اس پر سینکڑوں آم لگے۔ ان کی گٹھلیاں جہاں جہاں دفن ہوئیں‘ وہاں وہاں اور درخت اُگ آئے۔ کون جانے گُٹھلیاں کہاں کہاں پہنچیں۔ آپ ہر گٹھلی کو ایک پوتا جانیے۔ تعجب نہیں اگر کوئی پوتا سنگاپور جا بسا‘ کوئی ہرات‘ کوئی مدراس اور کوئی بنگال! مگر کہانی ایک ہی ہے جو ہر پوتے نے اپنے پوتے کو سنائی!
کہانی یوں ہے کہ سینکڑوں‘ ہزاروں سال پہلے ملکِ عراق کے حالات ابتر تھے۔ خلقِ خدا پریشان تھی۔ رات کو نیند تھی نہ دن کو چَین!! گرانی اتنی تھی کہ لوگ صرف ایک مولی یا ایک آلو یا ایک سیب خرید سکتے تھے۔ لباس خریدتے تو کھانا رہ جاتا۔ پیٹ بھرنے کا سامان خریدتے تو ملبوس بِک جاتا۔ تاجروں‘ دکانداروں‘ آڑھتیوں‘ کمیشن ایجنٹوں کی پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں! عام صارف کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ گرمیاں آتیں تو دستی پنکھوں کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچتیں۔ جاڑے میں ایندھن استطاعت سے باہر ہو جاتا۔ اس پر طُرّہ یہ کہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر آئے دن نئے ٹیکس لگاتی رہتی۔ اس لیے کہ حکومتی اخراجات حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخراجات کیا تھے؟ اللے تللے تھے! عمائدین‘ وزرا اور افسران کی فوج ظفر موج کی پرورش عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ہو رہی تھی۔ ساٹھ ستر فیصد اخراجات ناروا تھے اور دوست نوازی کا نتیجہ تھے۔ مثلاً ملک میں قانون نہیں تھا مگر قانون کی وزارت قائم تھی۔ خوراک عنقا تھی مگر فوڈ سکیورٹی کے نام پر الگ وزارت بنی ہوئی تھی۔ جو شعبے مرکز کے پاس تھے ان کی وزارتیں اور محکمے صوبوں میں بھی چل رہے تھے۔ جن شعبوں کو صوبے اور ریاستیں چلا رہی تھیں ان کی وزارتیں مرکز میں‘ یعنی بغداد میں بھی قائم تھیں‘ جن پر لاکھوں کروڑوں کے اخراجات آ رہے تھے۔ عوام کی بدحالی کے باوجود حکومتی وزرا اور منصب دار تعیشانہ زندگی گزار رہے تھے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا تھا۔ ان عمائدین کو گھوڑا گاڑیاں‘ چراغ‘ جھاڑ‘ فانوس‘ کچن کا ایندھن‘ باورچی‘ کوچوان‘ پہریدار‘ منشی اور کئی طرح کے ملازم‘ سب کچھ حکومت کی طرف سے ملتا تھا۔ عوام اور مراعات یافتہ طبقات میں تفریق بہت زیادہ نمایاں ہونے لگی تھی۔ یہاں تک کہ بچے بچے کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ بہت ہو چکا! مراعات یافتہ طبقے کا اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
اس عوامی اضطراب کی خبر خفیہ ایجنسیاں بادشاہ تک بھی پہنچا رہی تھیں۔ بادشاہ فکرمند تھا۔ شاید عوام کی فلاح و عافیت کے لیے! یا شاید اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے۔ اس نے اپنے وزیرِ باتدبیر سے مشورہ کیا۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے‘ وزیر نے ساری زندگی بادشاہ کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ اس کی سوچ محدود تھی۔ ایک آرام دہ زندگی کے سوا اس کے دماغ میں کبھی کچھ آیا ہی نہ تھا۔ دانش سے اس کا تعلق صفر تھا۔ اُس زمانے میں بھی حکومت کے عمائدین کو کتابوں سے‘ اہلِ علم سے اور عقلمندوں سے نفرت تھی۔ وزیر آخر کیا مشورہ دیتا۔ اخراجات کم کرنے کی بات کرتے ہوئے تو اس کی جان جاتی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کچھ ماہ کی مہلت مانگ لی۔
اُس زمانے میں عراق کے طول وعرض میں ایک فقیر کا بہت شہرہ تھا۔ یہ فقیر‘ بغداد سے کچھ دور‘ ایک غار نما جگہ میں رہتا تھا۔ بولتا کم تھا۔ خوراک بھی اس کی برائے نام تھی۔ کبھی جنگلی پھل کھا لیے۔ کبھی کسی نے کھانا پیش کر دیا تو پیٹ بھر لیا۔ پانی دریا سے پیتا تھا۔ اہلِ حاجت حاضر ہوتے۔ مدعا بیان کرتے۔ فقیر چند الفاظ ہی بولتا۔ سائل اشارہ سمجھ لیتا تو ٹھیک‘ نہ سمجھ پاتا تو اس کی قسمت! وزیر نے اس فقیر کے بارے میں سنا تھا۔ کافی سوچ بچار اور غور وخوض کے بعد وزیر فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدعا بیان کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ فقیر اسے مسئلے کا حل بتائے جسے وہ بادشاہ کے سامنے پیش کر دے۔ یوں اس کے نمبر بھی بڑھ جائیں گے۔ مگر فقیر نے اس کی بات سن کر صرف اتنا کہا ''بچنا مشکل ہے‘‘ اور وزیر کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وزیر نے ایک دو بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر ایک تو فقیر کی شخصیت میں رعب بہت تھا‘ دوسرے‘ فقیر اب اس کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ وزیر کئی دن اس کے پاس جاتا رہا۔ فقیر اسے مسلسل نظر انداز کرتا رہا۔ جب کئی ہفتے گزر گئے تو فقیر نے اسے صرف اتنا کہا کہ بادشاہ سے وہ خود بات کرے گا۔
وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور فقیر کو لے کر دربار میں پہنچ گیا۔ بادشاہ خلوت میں تھا۔ فقیر نے اسے سلام کیا نہ جھکا۔ بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ''تمہارا‘ تمہاری سلطنت کا اور اس شہر کا جو تمہارا دارالحکومت ہے‘ بچنا مشکل ہے‘‘۔ بادشاہ دست بستہ عرض گزار ہوا کہ کچھ وضاحت فرمائی جائے۔ فقیر گویا ہوا ''جب کنویں میں ہی زہر ہوگا تو پیاسا کیسے بچے گا۔ جب کھیت میں کانٹے اُگیں گے تو لوگ شکم کی آگ کیسے بجھائیں گے؟ جب مسجد میں بُت ہوں گے تو نماز کیسے ہو گی۔ تمہاری عدالتوں کے قاضی ہی تو انصاف کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے ایک قاضی کی بیٹی نے جو گھوڑا گاڑی چلا رہی تھی‘ دو بے گناہ افراد کو گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ اس جرم کو سرزد ہوئے ایک مدت گزر چکی‘ کوئی انصاف نہیں ہوا۔ ظلم در ظلم اور ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ مقتولوں کے پسماندگان نے انصاف کا مطالبہ کیا تو انہیں کوتوالی میں بند کر دیا گیا۔ میں تمہارے شہر کو ڈوبتا دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری سلطنت کا ریزہ ریزہ ہونا لکھا جا چکا۔ جس اقلیم میں انصاف کرنے والا ظلم کرنا شروع ہو جائے‘ اس کی بربادی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ بادشاہ کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ فقیر نے عصا اٹھایا‘ چادر کاندھے پر رکھی اور محل سے نکل گیا۔
کہانی کا آخری حصہ دردناک بھی ہے‘ ہولناک بھی اور عبرتناک بھی! اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ سلطنت یوں بکھرنے لگی جیسے آندھی ریت کو اُڑا لے جائے۔ پھر ایک رات دجلہ نے شہر کو نگل لیا۔ بادشاہ کی لاش کئی کوس دور‘ دریا کے کنارے‘ کیچڑ میں لپٹی ہوئی ملی۔ ملکہ کے آدھے جسم کو مگرمچھ کھا چکے تھے۔ عمائدین‘ وزرا‘ خوشامدی درباریوں میں سے کوئی نہ بچ سکا۔ رہے قاضی تو ان کا نام نشان نہ رہا۔ کہتے ہیں کئی ماہ کے بعد پانی اترا تو شہر کھنڈر بن چکا تھا۔ پھر ایک رات فقیر کھوہ سے نکلا اور اجڑے ہوئے شہر میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چل کر گیا۔ پھر وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا۔ اس نے ''حق ہُو‘‘ کا نعرہ اتنے زور سے لگایا کہ خلق خدا نے دور دور تک سنا۔ پھر وہ دو زانو ہوکر زمین پر بیٹھا‘ سجدہ کیا‘ اور دعا مانگی ''یا پروردگار! اگر اس شہر کو دوبارہ آباد کرنا ہے تو انصاف کرنے والے قاضی بھیجنا‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved