تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-07-2024

لائبریری‘ کل اور آج …(3)

ملتان میں پہلا سکول 1870ء میں قائم ہوا۔ یہ پرائمری سکول اپنی موجودہ عمارت میں 1905ء میں منتقل ہوا۔ سکول کے اندر لگی ہوئی سنگ مرمر کی تختی پر لکھا ہوا ہے: ''تاریخ مدرسہ۔ سکول ہٰذا کا آغاز 1870ء میں پرائمری سکول کی حیثیت سے ہوا۔ 1875ء میں اسے مڈل سکول کا درجہ ملا اور یکم اپریل 1878ء کو اس میں ہائی کلاسز کا اجرا کر کے اسے میونسپل بورڈ سیکنڈری سکول کے نام سے موسوم کیا گیا۔ 1905ء میں صوبائی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور گورنمنٹ ہائی سکول کا نام پا کر اس موجودہ عمارت میں تبدیل کر دیا‘‘۔ نیچے پاکستان بننے سے قبل کے انتیس عدد ہیڈ ماسٹر صاحبان کے نام ہیں جن میں سے اٹھارہ عدد ہندو‘ آٹھ عدد مسلمان اور تین انگریز تھے۔
ابا جی مرحوم نے اسی سکول سے میٹرک پاس کیا اور بڑے بھائی طارق محمود خان مرحوم اس سکول میں آٹھویں کلاس تک پڑھتے رہے۔ میں اور شاکر حسین شاکر ایک دن اس سکول کی لائبریری دیکھنے کیلئے خصوصی طور پر گئے۔ سکول کے حساب سے بڑی اچھی کتب کا ذخیرہ موجود تھا اور قیام پاکستان سے قبل کی کافی تاریخی کتب‘ جن میں سے کئی کافی قیمتی اور نایاب تھیں‘ موجود تھیں۔ تاہم اس لائبریری سے استفادہ کرنے والے طلبہ کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی۔ معلوم ہوا کہ اس لائبریری کا کوئی باقاعدہ لائبریرین ہی نہیں اور اس کو اس سکول کا ایک استاد دیکھ رہا ہے۔ وہ استاد محنتی تو تھا لیکن یہ اس کا فیلڈ نہیں تھا۔ لائبریری کی دیکھ بھال کی حد تک تو یہ درست انتخاب تھا لیکن ذخیرۂ کتب میں سے اپنی مطلوبہ کتاب تک قاری کی آسان اور بسہولت رسائی کو ممکن بناتے ہوئے اسے خاص ترتیب دینا اور طلبہ میں کتاب بینی کے فروغ کے معاملے میں جو فریضہ ایک پیشہ ور تربیت یافتہ لائبریرین سرانجام دے سکتا ہے وہ صورتحال اس قدیمی لائبریری میں مفقود تھی۔ مجھے خوف ہے کہ اس قدیمی لائبریری میں موجود بعض نادر اور نایاب کتب وقت کی گرد تلے دب کر برباد نہ ہو جائیں کہ ہمارے ہاں قدیم کتابوں اور مخطوطوں کو محفوظ کرنے کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں ہے۔
ملتان میں بعض پرانے معزز خاندانوں کے پاس بھی بہت سی نایاب کتب اور قدیم مخطوطے موجود ہیں لیکن یہ سب کچھ ایسے خزانوں کی مانند ہیں جن پر سانپ پہرہ دیتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر آفس کی 1848ء میں قائم کردہ لائبریری میں اس خطے سے متعلق انتہائی نادر اور تاریخی دستاویزات اور کتابیں تھیں لیکن 2001ء میں جونہی ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کر کے اسے ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر (DCO) میں تبدیل کیا‘ ڈی سی او صاحب نے سب سے پہلے اس قدیمی لائبریری سے ایسے جان چھڑائی جیسے یہ لائبریری نہیں کوئی بوجھ تھا جو اُن پر لادا ہوا تھا۔
ملتان میں دو عدد پبلک لائبریریاں ہیں لیکن ایسی کسمپرسی کا شکار ہیں کہ اس کی منظر کشی کم از کم الفاظ سے کرنا تو ناممکن ہے۔ پبلک لائبریری باغ لانگے خان ایک ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہے لیکن ٹرسٹ اس حد تک عدم تحفظ کا شکار ہے کہ اس لائبریری کو اپنے پروں تلے ایسے سمیٹ کر بیٹھا ہے جیسے مرغی اپنے چوزوں کو چھپا کر رکھتی ہے۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر موجود پبلک لائبریری میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام ہے۔ نہ وہاں گزشتہ بیس بائیس سال سے کوئی لائبریرین ہے اور نہ ہی عمارت کی مرمت کی گئی ہے۔ کئی کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سے مل کر اس لائبریری کا حال بہتر کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ کارپوریشن کے پاس نہ تو اس لائبریری کو چلانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی یہ ان کی ترجیحات میں کسی درجے پر ہے۔ بلکہ اب صورتحال یہ ہے کہ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کو ملتان کے قدیمی قلعہ کی تزئین و آرائش کا ''ٹھیکہ‘‘ مل گیا ہے اور شنید ہے کہ یہ لائبریری اس نئے پروجیکٹ کی زد میں آ کر وجود سے عدم وجود کی طرف گامزن ہے۔ یہ پانچ ہزار سال سے زائد عرصہ سے‘ دنیا کے مسلسل آباد چند شہروں میں سے ایک شہر ملتان کا قصہ ہے جس کی آبادی بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے مقابلے میں پیریز برگ محض دو سو سات سال پرانا شہر ہے اور اس کی آبادی پچیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس شہر میں تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کی بات تو رہنے دیں‘ صرف پبلک لائبریری کی بات کروں تو دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش ایسی ایک لائبریری پاکستان میں بھی ہو۔
یہ مسافر اپنے نواسوں اور نواسی کے ہمراہ پیریز برگ کی 143 سالہ اس قدیم لائبریری میں داخل ہوا تو یوں سمجھیں کسی نئے جہان میں داخل ہو گیا۔ ایسا جہانِ حیرت جس کا اس چھوٹے سے شہر کی اس لائبریری میں ہونے کا گمان تک نہ تھا۔ لائبریری میں داخل ہوتے ہی اڑھائی سالہ ایمان نے مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اندر بائیں طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس طرف بچوں کا سیکشن تھا اور اسے اس طرف کا راستہ یاد تھا۔ اس سیکشن میں دو اڑھائی سال سے لیکر بارہ‘ پندرہ سال تک کے درجنوں بچے موجود تھے۔ الماریوں کے درمیان کھلی جگہ پر دو عدد تکون ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ میں نے سیفان سے پوچھا تو اس نے بتایا اسے Teepee کہتے ہیں۔ بچے اس میں گھس کر کھیل رہے تھے۔ سامنے دیوار کے ساتھ ایک پورا کچن بنایا ہوا تھا اور چھوٹی چھوٹی بچیاں اس جعلی باورچی خانے میں پلاسٹک سے بنے برتنوں میں ربڑ سے بنی ہوئی سبزیاں‘ انڈے‘ ڈبل روٹیاں‘ برگر اور اسی طرح کی دیگر کھانے پینے کی اشیا ڈال کر نقلی کوکنگ رینج پر الٹ پلٹ رہی تھیں۔ ایک پورا Lego سیکشن تھا جہاں بچے ایک دوسرے میں پھنسنے والے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر مختلف چیزیں بنا رہے تھے۔
کائونٹر پر بیٹھی خاتون سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس لائبریری میں کتابوں‘ آڈیو بکس اور وڈیو بکس کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ لیکن اس عجائب خانے میں روایتی لائبریری سے ہٹ کر بہت کچھ تھا۔ ایک پورا سیکشن بیکنگ کے سانچوں کا تھا اور کائونٹر کے قریب شو کیس میں ڈرل مشینیں‘ کٹر‘ ہتھوڑیاں‘ پیچ کس‘ پلاس اور لکڑی سے بنے ہوئے امریکی گھروں میں دیواروں کے پیچھے لکڑی کے فریم کی نشاندہی کرنے والے ''سٹڈ فائنڈر‘‘ پڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ چیزیں لائبریری کے ممبران مفت یا بالکل معمولی کرائے کے عوض لے جا سکتے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ لوگ یہ چیزیں لینے کیلئے جب یہاں آتے ہیں تو لائبریری سے دو چار کتابیں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مرکزی ہال کے دوسری طرف دو کمرے تھے جن میں سے ایک میں سو ڈیڑھ سو سال پرانی بڑے سائز کی باریک کپڑے پر کاغذ چپکا کر چھپی ہوئی کتابیں تھیں۔ یہ پیریز برگ اور نواح کی تاریخ پر مشتمل کتابیں تھیں۔ دروازے کے پاس کورونا کی تشخیصی کٹس پڑی تھیں‘ جو مفت دستیاب تھیں۔ بچوں کیلئے پی ایس فور‘ پی ایس فائیو‘ نینٹینڈو اور دیگر اقسام کی وڈیو گیمز کھیلنے اور ڈائون لوڈ کرنے کے کارڈ پندرہ دن کیلئے مفت دستیاب تھے۔ لائبریری کیا تھی؟ انور مسعود کے شعر کی تفسیر تھی ''جنتری اے یا پنساریاں دا ہٹ اے‘‘۔ چہل پہل ایسی کہ گویا کسی چھوٹے موٹے میلے کا سماں لگتا تھا۔ میں نے سوچا اگر یہ لائبریری ہے تو ہمارے ہاں جو بوسیدہ الماریوں والے خستہ حال کمروں پر مشتمل کتابوں کے قبرستان ہیں وہ کیا ہیں؟ اور اگر وہ لائبریریاں ہیں‘ تو پھر یہ یقینا کوئی اور ہی چیز ہے۔
چار پانچ ماہ قبل میں اپنے مادرِ علمی ایمرسن کالج‘ جو اَب ایمرسن یونیورسٹی ہے‘ کی لائبریری میں گیا تو وہاں کتاب کا قاری تو ایک بھی نہ تھا‘ البتہ الماریوں‘ میزوں اور کرسیوں پر دھول اور مٹی اتنی تھی کہ لائبریری کے برُے حالوں پر رونا آ گیا۔ یہ ایک سو سالہ قدیم لائبریری کا حال تھا۔ دنیا بھر میں لائبریریاں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں اور ہمارے ہاں پرانی کتابیں بھی رزقِ خاک ہوئی جا رہی ہیں۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved