تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     09-07-2024

بے مقصد لڑائی

خیبر پختونخوا‘ جہاں قدرت کی رنگینی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے‘ وہاں طویل عرصے سے کچھ اہم مسائل بھی سایہ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان مسائل میں دہشتگردی‘ غربت اور سیلاب جیسی آفات سرفہرست ہیں۔ ایک طرف تو یہ صوبہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو دوسری طرف یہاں کے عوام ان مسائل سے نبرد آزما اور انکے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ گیارہ سال سے ایک ہی جماعت کے اقتدار میں رہنے کے باوجود صوبے کے مسائل حل کیوں نہیں ہو سکے؟ اس طویل حکمرانی کا تقاضا تو یہ تھا کہ پالیسیوں کے تسلسل کے باعث صوبے کی ترقی دیگر صوبوں کیلئے مثالی ہوتی‘ اور ترقی میں خیبر پختونخوا دیگر صوبوں سے آگے ہوتا‘ لیکن زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں۔ خیبر پختونخوا کے عوام باقی صوبوں سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل دورانیے تک اقتدار میں رہنے والی جماعت جس طرح حکومت میں آنے سے پہلے احتجاج کر رہی تھی‘ آج بھی اسی پوزیشن پر کھڑی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک صوبے کے وسائل کو پی ٹی آئی کے دھرنے کو کامیاب بنانے میں استعمال کرتے رہے‘ انہوں نے پارٹی کی سیاسی لڑائی کیلئے نہ صرف افرادی قوت مہیا کی بلکہ وہ خود بھی 2014ء کے دھرنے میں شریک رہے۔ جب وزیراعلیٰ ہی احتجاج اور دھرنے کا حصہ بن جائے تو صوبے کو کون سنبھالے گا؟ 2018ء میں محمود خان کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تو عثمان بزدار کی طرح ان کی شخصیت پر بھی سوال اٹھا کہ پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے بجائے انہیں وزیراعلیٰ کا اہم عہدہ کیوں دیا جا رہا ہے؟ مگر چونکہ اس کا اختیار خان صاحب کے پاس تھا اس لیے عاطف خان اور شہرام ترکئی جیسے رہنما‘ جو خود کو وزیراعلیٰ کا مضبوط امیداوار سجھ رہے تھے‘ ششدر رہ گئے مگر پارٹی کی خاطر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ پرویز خٹک اور اسد قیصر جیسے بڑے نام وفاق میں جا بیٹھے۔ محمود خان وزیراعلیٰ بنے تو امید تھی کہ اب وفاق اور صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے تو عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے گی۔ اس دور میں صحت کارڈ ایک ایسا منصوبہ تھا جسے خالصتاً عوامی منصوبہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی سبب عوام کی اکثریت نے اس منصوبے کو بے حد پسند کیا مگر ابتدا میں اس منصوبے کا دائرہ خاصا محدود تھا۔ پشاور‘ مردان‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ صوابی اور ہری پور میں صحت کارڈ کا منصوبہ2021ء میں شروع کیا گیا‘ جبکہ اس ایک منصوبے کے علاوہ صوبے کے عوام کے درجنوں اہم مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ محمود خان کے دور میں صوبے کے مالی مسائل شدت اختیار کر گئے‘ وفاق میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود صوبے کو وفاق سے فنڈز کے حصول میں دشواری کا سامنا رہا۔ پریشان کن لمحہ وہ تھا جب پختونخوا کی حکومت پرویز خٹک حکومت کی ڈگر پر چلتے ہوئے وفاقی حکومت کو بچانے کیلئے کندھا فراہم کرنے لگی‘ یوں صوبے کی تمام تر توجہ پارٹی کے مزاحمتی بیانیے کی نذر ہو گئی۔
سوال یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی نے اپنے دو ادوار میں ڈیلیور نہیں کیا تو تیسرے الیکشن میں عوام نے اسے دو تہائی اکثریت سے کیسے کامیاب کرا دیا؟ تو عرض یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کی بہادری اور مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔ بڑی مہارت سے عوام کو اپنے بیانیے کا حصہ بنایا گیا اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی کہ آپ کی بہادری کو للکارا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں تیسری بار حکومت قائم ہونے پر بھی پی ٹی آئی اسی ٹول کو استعمال کر رہی ہے اور سادہ لوح عوام اپنے اصل حقوق کا تقاضا کرنے کے بجائے بے مقصد لڑائی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اپنی غیرت کا مسئلہ سمجھتے ہوئے عوام کی بڑی تعداد اب بھی اس بے مقصد لڑائی میں بھرپور طریقے سے شامل ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے عزمِ استحکام کی مخالفت میں عوام کو شامل کرنا اسی بے مقصد لڑائی کا حصہ ہے۔ عوام کو ہرگز اس مہم کا حصہ نہیں بننا چاہئے‘ اتفاق رائے اور عوام کی حمایت ہی سے قومی چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مسائل اور اسکی ترقی پر بحث کرتے وقت ایک اہم عنصر وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ صوبائی حکومتوں کے وفاق کیساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبائی حقوق اور اختیارات کے حصول پر توجہ زیادہ رہی اور تعلیم‘ صحت اور غربت جیسے اصل مسائل پر کم توجہ دی گئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاق اور صوبے کا تعاون ہی ترقی کی ضمانت ہے کیونکہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے‘ جہاں مرکز اور صوبوں کو آئین کے تحت ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبے‘ جو پورے صوبے کو فائدہ پہنچاتے ہیں‘ عام طور پر وفاقی حکومت کے ذمے ہوتے ہیں۔ اسی طرح غربت اور تعلیم جیسے بعض شعبوں میں ترقی کیلئے بھی وفاق اور صوبے کے وسائل اور حکمت عملیوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وفاق اور صوبے کے درمیان تعاون اور مثبت تعلقات سے ہی خیبر پختونخوا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے مشترکہ حکمت عملی اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی زندگیوں میں خوشحالی آ سکے اور یہ خطۂ ارضی اپنے پورے پوٹینشل کو بروئے کار لا سکے۔
سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹ کی حمایت سے اقتدار حاصل کرتی ہیں جس کا اولین مقصد عوامی مسائل کا حل اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں الٹی روایت ہے۔ یہاں حکومتیں عوام کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب حکومتوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان کی زندگیوں اور معاشرے کیلئے اہم فیصلے کریں۔ جمہوری نظام میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ منتخب حکومتیں اپنی توجہ اصل مسائل پر کیسے مرکوز رکھ سکتی ہیں اور غیر ضروری امور میں الجھنے سے کیسے بچ سکتی ہیں۔ اسکا جواب ہم ترقی یافتہ ممالک سے لے سکتے ہیں‘ جہاں حکومتیں اپنی آئینی مدت میں عوام کی خدمت اور مسائل کے حل پر توجہ دیتی ہیں۔ فن لینڈ تعلیم‘ خوشحالی اور سلامتی کے معاملے میں سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔ فن لینڈ کی حکومتیں طویل عرصے سے تعلیم کے شعبے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں سکول کی تعلیم کو روزگار کے بجائے زندگی بھر سیکھنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے فن لینڈ کی افرادی قوت انتہائی ہنرمند ہے۔ وہاں کی حکومتیں صحت عامہ اور سماجی تحفظ کے نظام کو بھی مستحکم کرنے پر زور دیتی ہیں تاکہ ہر شہری کو ایک باعزت زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔ اسی طرح جرمنی اپنے مضبوط صنعتی ڈھانچے اور مسلسل ترقی کیلئے مشہور ہے۔ جرمن حکومتیں نجی شعبے اور حکومت کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہیں‘ جس سے ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر میں ترقی ہوتی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں غیر ضروری امور میں الجھنے کے بجائے اپنی توانائی اصل مسائل پر صرف کرتی ہیں۔ وہاں کی حکومتیں طویل المدت حکمتِ عملیوں پر توجہ دیتی ہیں اور عوام کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ پاکستان میں وفاقی یا صوبائی سطح پر عوامی مسائل کا طائرانہ جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ یہاں حکومتیں اپنی کارکردگی یا خوبی کی بنیاد پر قائم نہیں بلکہ مخالف کی خامیوں کو عوام کے ذہنوں میں زہر کی صورت انڈیل کر حکومت کی جا رہی ہے۔ نفرت اور زہر کی کاشت سے زعفران کی پیداوار کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام کو شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی‘ عوام بے مقصد لڑائی کا حصہ بننے کے بجائے کارکردگی پر سوال کریں۔ تاہم اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام اپنی رائے کا اظہار کریں اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرائیں تاکہ ہم پاکستان کو ایک ایسی ڈگر پر گامزن کریں جہاں سب کیلئے ترقی اور خوشحالی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved