ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ہر قیمت پر سیاستدان بننا چاہتے ہیں۔ بڑے لوگ سیاسی لیڈر تو عوام پارٹی ورکر بننا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بڑے لوگ واقعی عوام کی خدمت کرنے کیلئے میدان میں اُترتے ہیں‘ ان کے دل میں عوام کا بہت درد ہے‘ جو انہیں رات کو سونے نہیں دیتا؟ خدا نے انہیں جو کچھ دیا ہوا ہے وہ سب کچھ معاشرے کو لوٹانا چاہتے ہیں؟ چونکہ قسمت ان پر دوسروں سے زیادہ مہربان رہی ہے لہٰذا انہیں اب اپنی بقیہ زندگی دوسروں کیلئے وقف کرنی چاہیے؟ انہیں اب اپنی ذات کیلئے کچھ نہیں چاہیے۔ انہیں اب اپنی اولاد کی فکر بھی نہیں ہے۔ فکر ہے تو عوام کی‘ لہٰذا وہ کوئی بھی مشکل برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ وہ ہر قسم کا تشدد‘ تھانہ کچہری اور مقدمات بھگت لیں گے لیکن عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے؟
کبھی مجھے واقعی ایسے لگتا تھا کہ سب بڑے لوگ غریبوں کی محبت میں مرے جارہے ہیں۔ غریبوں کے دکھ انہیں چین نہیں لینے دے رہے۔ پھر میرا کچھ سیاسی لوگوں کے گھر آنا جانا شروع ہوا اور میں نے اُن کا اپنے گھریلو ملازمین اور سٹاف کے ساتھ رویہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ انہیں عوام کا کتنا دکھ ہے۔ 25کروڑ عوام کو چھوڑیں‘ اپنے گھر کے ملازمین کے ساتھ ان کا جو غیرانسانی رویہ تھا وہ ظاہر کررہا تھا کہ وہ کتنے بڑے فراڈ ہیں۔ وہ صرف غریب عوام کا نام لے کر ان پر اُسی طرح حکمرانی کے خواہش مند تھے جیسے اپنے گھر کے ملازمین پر۔
اگر یہ واقعی غریبوں کی زندگیاں بدلنے باہر نکلے ہیں اور ان کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تو پھر شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے اُن انکشافات اور الزامات کا کیا کرنا ہے جو انہوں نے نئے بجٹ کے بعد حکمرانوں پر عائد کیے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے انکشاف کیا تھا کہ نئے بجٹ میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کیلئے پانچ سو ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ رکھا گیا ہے۔ چلیں یہ فنڈز تو اراکینِ اسمبلی اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں لیکن سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ان پانچ سو ارب میں سے 150ارب روپے تو رشوت اور کمیشن میں کھائے جائیں گے کہ اب ترقیاتی فنڈ کا مقصد یہی سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2008-13ء کے درمیان بہت سے ایم این ایز اور سینیٹرز نے اپنے ترقیاتی فنڈز لکی مروت میں ٹھیکیداروں کو بیچے تھے۔ ایک کروڑ کے فنڈ پر بیس لاکھ روپے کمیشن ملتا تھا۔ یہ سکینڈل دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں مَیں نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بریک کیا تھا۔ اگر ملک کا سابق وزیراعظم‘ جو کئی دفعہ خود ایم این اے رہا ہے اور جس کے اپنے حلقے میں بھی ترقیاتی فنڈز استعمال ہوتے رہے ہیں‘ وہ یہ بات کہہ رہا ہو تو پھر آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ہر بندہ اب سیاست میں کیوں آنا چاہتا ہے۔ وہ ہر طرح کے سرکاری فنڈ میں اپنا 33فیصد حصہ کیش میں چاہتا ہے۔ وہ سرکاری اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے علاقے کا ڈان بننا چاہتا ہے جہاں تھانہ‘ کچہری‘ ضلعی انتظامیہ‘ ڈی پی او اور ڈی سی تک سب اس کے حکم پر چلیں اور جب وہ بازار سے گزرے تو سب جھک کر سلام ٹھوکیں۔
میرا دوست جنید اکثر کہتا ہے کہ یہ سب Privilege کا کھیل ہے۔ اس ملک میں کتنے ارب پتی ہوں گے لیکن انہیں ایک سپاہی تک نہیں جانتا‘ نہ کوئی سلام کرتا ہے۔ انہیں ایسا کوئی بندہ نہیں جانتا جو ان کیلئے وی آئی پی پروٹوکول کا بندوبست کرے۔ ان کیلئے ہٹو بچو ہو‘ روٹ لگا دیا جائے۔ پروٹوکول سکواڈ کی گاڑیاں آگے پیچھے دوڑ رہی ہوں۔ لوگ ان کے گھر کے باہر ان کے جاگنے کا انتظار کرتے ہوں۔ وہ ٹی وی شو میں دن رات موجود ہوں۔ انہیں سب جانتے ہوں۔ سیاستدان بن کر وہ سب پریویلیج لے سکتے ہیں۔ بقول سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ‘اگر کسی کو بیٹھے بٹھائے 33فیصد کمیشن‘ طاقت اور شہرت مل رہی ہو تو بتائیں کون سا بندہ اپنی جان پر کھیل کر سیاسی سرکل میں شامل ہونا پسند نہیں کرے گا؟ یہی وجہ ہے اب لوگوں نے سیاست میں آنے کیلئے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ یقین کریں ان لوگوں کو کوئی عوام کا دکھ نہیں۔ یہ سب حکمرانی کا نشہ ہے۔
یہ سب باتیں مجھے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی نئی پارٹی کی تقریب میں اُن کی تقاریر سن کر یاد آرہی تھیں۔ میں سوچتا رہا کہ اس ہال میں موجود کتنے لوگ اب بھی ان دونوں کی باتوں پر یقین کیے بیٹھے ہوں گے کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح کو اگر موقع ملا تو وہ ان کی زندگیاں بدل دیں گے اور تقریر پر تالیاں بجا رہے تھے۔ ایک بات مزے کی تھی‘ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے پاکستان کے مسائل پر تفصیل سے بات کی۔ ان کی باتوں سے لگا کہ اگر انہیں فوری طور پر اقتدار نہ دیا گیا تو کل صبح تک اس ملک کا حشر ہو چکا ہو گا۔ انہوں نے پورے مسائل اور حکمرانوں پر روشنی ڈالی۔ میں انتظار کرتا رہا کہ اب شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل ہمیں بتائیں گے کہ جب وہ خود حکومت کا حصہ تھے تو انہوں نے کون سے کارنامے سرانجام دیے تھے جو دوسروں سے مختلف تھے‘ لہٰذا وہ خود کو باقیوں کی نسبت بہتر چوائس سمجھتے ہیں؟ مفتاح اسماعیل بتائیں گے کہ جب وزارتِ خزانہ کا عہدہ ان کے پاس تھا تو انہوں نے دوسروں سے کیا مختلف کیا تھا؟ میں حیران رہا کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے ایک دفعہ بھی اپنے بارے میں بات نہیں کی کہ ان کا اپنا دور کیسا تھا۔ ان کی باتیں سن کر لگتا تھا کہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے اور وہ جن سیاستدانوں کی خرابیاں بتارہے تھے وہ ہمیشہ سے حکومت میں تھے۔ مجھے توقع تھی وہ اپنے دور کی ایک ایک بات بتائیں گے تاکہ خود کو عوام کے ووٹ کا حقدار ثابت کر سکیں۔ کوئی ایک کارنامہ تو شاہد خاقان عباسی کو بتانا چاہیے تھا جو انہوں نے سرانجام دیا ہو جب وہ سال بھر وزیراعظم رہے یا مفتاح اسماعیل نے وزارتِ خزانہ میں بیٹھ کر کوئی غیر معمولی کام کیا ہو۔ بلکہ مفتاح اسماعیل کے دور میں تو ڈالر 182روپے سے 260/270 روپے سے بڑھ گیا تھا اور ڈالر کی تین مارکیٹس پیدا ہو گئی تھیں جن کا ریٹ ہی مختلف تھا۔ بینکوں نے ڈالر ریٹ کے نام پر اربوں کمائے جن کی انکوائری اسمبلی کی فنانس کمیٹی کرتی رہی اور بینکوں کو چند کروڑ کا جرمانہ کرکے اس معاملے پر مٹی ڈال دی گئی۔
میں شریف خاندان کے اندازِ سیاست اور حکمرانی کا ناقد رہا ہوں کہ انہوں نے سیاست کو ہمیشہ فیملی بزنس یا فیکٹری سمجھ کر چلایا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو کم از کم عزت تو دی تھی۔ انہیں وزیراعظم بنایا‘ مری سے وہ الیکشن ہارے تو انہیں لاہور سے جتوا دیا۔ اُن کے کہنے پر اُن کے رازدان مفتاح اسماعیل کو وزیرخزانہ بنا دیا۔ اس کے بعد وہ شاہد خاقان عباسی کیلئے اور کون سا عہدہ پیدا کرتے تاکہ وہ خوش رہتے؟ جب کسی سیاستدان کو سب سے بڑا عہدہ مل جائے تو اُس کے بعد بہتر ہوتا ہے کہ وہ یا تو پارٹی میں Elder بن کر سینیٹر بن جائے جیسے یوسف رضا گیلانی سینیٹر یا راجہ پرویز اشرف سپیکر بن گئے یا پھر سائیڈ پر ہو جائے جیسے امریکہ میں کلنٹن اور اوباما ہو گئے۔ لیکن پاکستان میں سائیڈ پر ہونا کوئی افورڈ نہیں کر سکتا‘ پھر وہی بات کہ سارا کھیل خود کو بھگوان سمجھنے اور پریویلیج کا ہے۔ کوئی عام آدمی بن کر اس معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا۔ پیسہ‘ پاور اور پروٹوکول چاہیے جو آپ کو ارب پتی بن کر بھی نہیں ملتا۔ وہ سب کچھ آپ کو غریبوں کے نام پر ان کا پیسہ کھا کر سیاستدان بن کر ملتا ہے جس کیلئے آپ کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں اور جان دے بھی سکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اسی پریویلیج کی لڑائی لڑ رہے ہیں جسے چھوڑنا وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ کون بھلا عام آدمی بن کر رہنا چاہتا ہے۔ کم از کم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل تو ایسا نہیں چاہتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved