ڈان اخبار نے6 جنوری 1965ء کی اشاعت میں محترمہ فاطمہ جناح کے متا ثرہ علاقوں کے دورے کے بعد ان کے بیان کو یوں رپورٹ کیا: ''میں نے کراچی میں توڑ پھوڑ کی کارروائیوں سے متاثرہ کچھ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ اس حد تک تباہی اور معصوم شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانا ناقابلِ یقین ہے۔ مہذب دنیا میں ایسی بربریت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مکانات جلانے اور بے گناہ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے قتل اور زخمی ہونے کے واقعات سے دل دہلا دینے والے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں۔ متاثرہ لوگوں کی حالتِ زار قابلِ رحم ہے جو خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ناکافی انتظامات صرف استحکام کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں۔ میں یہ بات دہرانا چاہوں گی کہ ان واقعات کی فوری طور پر عدالتی انکوائری کی جائے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے‘‘۔
شیر باز خان مزار ی اپنی کتابA Journey to Disillusionment کے تیسرے باب میں صدر ایوب کے الیکشن اور اس میں کھلم کھلادھاندلی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح بی ڈی ممبرز کو تحصیلدار وں‘ ڈپٹی کمشنر ز اور پولیس کے افسران نے زور زبردستی سے ایوب خان کو ووٹ دینے مجبور کیا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ شیرباز خان مزاری راجن پور اور کشمور میں محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ تھے اور یوں بیوروکریسی کی دست درازیوں کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں گوہر ایوب کی قیادت میں الیکشن میں ایوب خان کی نام نہاد فتح پر کراچی میں نکالے جانے والے جلوس کا احوال بھی لکھا ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں اُس دن دفعہ 144 نافذ تھی جس کے مطابق جلسہ اور جلوس کی پابندی تھی لیکن اس کے باوجود گوہر ایوب کی قیادت میں جلوس نکالا گیا جس کا نشانہ مہاجر بستیاں تھیں جنہوں نے فاطمہ جناح کو ووٹ دیے تھے۔ بستیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور متعدد مکانوں کو جلا دیا گیا۔ اور یوں کراچی میں پہلی بار نسلی سیاست کے بیج بودیے گئے۔ شیر باز خان مزاری کے مطابق اپنے اس عمل سے گوہر ایوب نے ہمیشہ کے لیے کراچی کو اپنے والد (ایوب خان) کا مخالف بنا دیا۔
اہالیانِ کراچی نے اپنے فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے افرادکے حوالے سے کئی مقدمات درج کرائے۔ ایک مقتول کے لواحقین نے تو براہِ راست گوہر ایوب کو قتل کا ملزم ٹھہرایا اور ایف آئی آر میں اس کا نام بھی درج کرایا۔ یہ کوئی عام مقدمہ نہ تھا جس کا کوئی ثبوت نہ ہو بلکہ مقدمے کے حوالے سے پولیس اہلکاروں اور ایجنسیوں کے وائرلیس پیغامات کی شکل میں ٹھوس شواہد موجود تھے۔ یہ گوہر ایوب کے لیے ایک سنجیدہ صورتحال تھی ایسے میں اُس وقت کے وزیرِ قانون غلام نبی میمن کو ہنگامی بنیادوں پر کراچی طلب کیا گیا۔ صباح الدین جامی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب Police, Crime & Politics: Memoirs of an IGPمیں لکھتے ہیں کہ وزیر قانون غلام نبی میمن فوری طور پر کراچی پہنچ گئے‘ وہ ایک قابل وکیل تھے اور جانتے تھے کہ وائرلیس پیغامات جو لاگ بُکس میں درج ہیں گوہر ایوب کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سینئر پولیس افسران کو طلب کیا اور فوری طور پر لاگ بُکس لانے کا کہا۔ان لاگ بُکس میں ایجنسیوں اور پولیس اہلکاروں کے حساس پیغامات محفوظ تھے۔ وزیر قانون غلام نبی میمن نے تمام لاگ بُکس کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں نذرِ آتش کرنے کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک انوکھا حکم جاری کیا کہ تمام لاگ بُکس از سرِ نو ترتیب دی جائیں اور نئے سرے سے لاگ بُکس میں ایسے فرضی پیغامات لکھے جائیں جو مجرموں کے لیے خطرناک نہ ہوں۔ جامی صاحب اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نئے سرے سے لاگ بُکس ترتیب دینا آسان کام نہ تھا۔ اس میں پہلی مشکل تو یہ تھی کہ یہ پیغامات مختلف شفٹوں میں لکھے گئے تھے اور پھر ہر شخص کی تحریر مختلف تھی۔ لیکن حکم کی تعمیل کی گئی اور متعلقہ اہلکاروں کو کسٹڈی میں رکھ کر نئے سرے سے لاگ بُکس ترتیب دی گئیں‘ یوں وہ سارے ثبوت مٹا دیے گئے جوتفتیش میں مفید ثابت ہو سکتے تھے۔ان ثبوتوں کی عدم موجودگی میں کوئی بھی انکوائری مجرموں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یوں 30 کے قریب بے گناہ لوگوں کا خون انصاف کے لیے پکارتا رہا لیکن انصاف دینے والوں نے ثبوت خود ضائع کر دیے تھے۔
یہ وہی زمانہ تھا جب فیض احمد فیض کراچی کے عبدا للہ ہارون کالج میں پرنسپل تھے۔ فیض صاحب نے اُس واقعے سے متاثر ہو کر اپنی معروف نظم ''لہو کا سراغ‘‘ لکھی تھی جو اُن کے شعری مجموعے''سرِوادیٔ سینا‘‘ میں شامل ہے۔ نظم کی ہر سطر میں وہ درد محسوس کیا جا سکتا ہے جو چار جنوری 1965ء کے واقعے کے بعد اہالیانِ کراچی کے دلوں میں ترازو ہو گیا تھا۔ نظم کا مرکزی خیال بے بسی کی اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جب 30کے لگ بھگ معصوم شہیدوں کے خون کو انصاف نہ مل سکا۔
''لہو کا سراغ‘‘
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیٔ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
ایوب خان اور فاطمہ جناح کے انتخاب کا قصہ اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے لیکن اس تاریخ میں چھپے ہوئے کچھ سبق ہمیں دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر Extension کے اثرات کبھی مثبت نہیں ہوتے۔ اگر اسکندر مرزا ایوب خان کو 1958ء میں کمانڈر انچیف کے عہدے پر Extension نہ دیتے تو ایوب خان کو طویل آمرانہ حکومت کا موقع نہ ملتا۔ تاریخ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ کہ مارشل لاء کبھی عوامی رائے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ تاریخ کا تیسرا سبق یہ ہے کہ ملک میں الیکشن کا پورا عمل شفاف اور منصفانہ اور کسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے کیونکہ الیکشن میں دھن‘ دھونس اور دھا ندلی کے ذریعے عارضی کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن عوام کی رائے کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا۔ تاریخ کا چوتھا سبق یہ ہے کہ کسی بھی جرم یا سانحے کی تحقیق ہر طرح کے دباؤسے آزاد اور انصاف کے اعلیٰ تقاضوں کے مطابق ہو نی چاہیے۔جرم پر پردہ ڈالنے سے اس کے اثرات اور زہرناک ہو جاتے ہیں۔اس واقعے کو اب چھ دہائیاں بیت چکی ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ کہتے ہیں زندہ قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لاتی ہیں۔ آئیے سوچتے ہیں کیا ہم نے بھی اپنی تاریخ سے کوئی سبق سیکھا؟(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved