تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     10-07-2024

فکرِ آخرت

موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ نہ صرف تمام مذاہب کے پیروکار موت جیسی حقیقت پر متفق ہیں بلکہ خدا کے منکر اور دہریے بھی موت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ انسان جب سے اس کرۂ ارض پہ آباد ہوا ہے‘ اس وقت سے اموات کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ ہزار ہا برس سے موت و حیات کے سلسلے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باجود نجانے کیوں انسان اس زعمِ باطل میں مبتلا ہے کہ وہ موت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہمارے گرد وپیش میں بسنے والے ہر انسان نے موت کا مشاہدہ کر رکھا ہے اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو قبروں میں اترتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے دادا‘ دادی‘ نانا‘ نانی‘ والدین اور اکابر علما کو اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا لیکن اس کے باوجود کئی مرتبہ انسان کاروبارِ حیات میں کچھ اس انداز سے مشغول ہو جاتا ہے کہ موت کی حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتا ہے‘ تاہم وقفے وقفے سے پیش آنے والے واقعات انسان کو موت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
میں اُس وقت میٹرک کا طالبعلم تھا جب والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر راوی روڈ‘ لاہور پہ ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور جوانی کی نعمت سے نواز رکھا تھا‘ اس لیے اس بات کا خیال بھی کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ آپ اچانک اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گے لیکن جب اس بات کی اطلاع ملی کہ آپ کے جلسے میں بم دھماکا ہو گیا ہے تو طبیعت بُری طرح بے چین ہوئی۔ میں بھی دیگر لوگوں کی طرح میو ہسپتال میں آپ کی خبرگیری کو گیا۔ اس وقت بھی آپ کے حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر ذہن میں یہ خیال تک نہیں آیا کہ آپ جلد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جائیں گے۔ بعد ازاں علاج کے لیے والد محترم کو سعودی دارالحکومت ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا‘ جہاں آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گئے۔ یہ سانحہ یقینا اعصاب کو بری طرح متاثر کر دینے والا تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلوں کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ والد کی وفات کے وقت میری عمر 15 سال تھی۔ آپ کی وفات کو ابھی پانچ سال بھی نہ گزرے تھے کہ والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ ان دو واقعات نے موت کی حقیقت کو سمجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہر خوشی کے موقع پر والدین کی کمی محسوس ہوئی اور ان کی یاد ستاتی رہی لیکن اس کے بعد تعلیمی‘ تبلیغی اور تنظیمی مصروفیات میں کچھ اس انداز سے مشغول ہوئے کہ کئی مرتبہ موت کے تصورکو کمزور ہوتے محسوس کیا۔ زندگی میں ملنے والی بہت سی خوشیوں نے بھی ان تاثرات کو کئی مرتبہ کمزور کیا۔ گھر میں بچوں کی مصروفیات اور مشغولیات نے زندگی کی کشش کو کئی مرتبہ بڑھاوا دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض واقعات ایسے بھی رونما ہوئے کہ جن کی وجہ سے شعور اور تصور پر ایک مرتبہ پھر موت کے احساسات انتہائی طاقتور ہو گئے۔ چند ماہ قبل دو روزہ معصوم نواسے کے انتقال نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کیا کہ انسانی زندگی کس قدر ناپائیدار ہے۔ اس کے بعد برادرِ عزیز معتصم الٰہی ظہیر کے ہونہار بیٹے نوفل کی بیٹی کئی ماہ مسلسل بیمار رہنے کے بعد داغِ مفارقت دے گئی۔ ان کے گھر تسلی دینے کیلئے پہنچے اور سب کو یہ بات سمجھائی کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک دن اس دنیائے فانی سے جانا پڑے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے چند ہفتے قبل انتہائی فرمانبردار بیٹے قیم الٰہی ظہیر کو دوسرے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ یہ بیٹا اچانک بیمار ہوکر فقط ایک ہفتے کے بعد ہی داغِ مفارقت دے گیا۔ جس دن خضر الٰہی کے عقیقے کے بکروں کو ذبح کیا جا رہا تھا‘ اسی روزوہ ہم سے بچھڑ گیا۔ خضر الٰہی کی وفات یقینا بہت بڑے صدمے کا باعث تھی اور اس صدمے کے اثرات کو گھر کے ہر فرد نے محسوس کیا اور خاندان کا ہر شخص ننھے بچے کی اچانک رحلت کی وجہ سے اشکبار ہو گیا۔ چھوٹے بچے یقینا گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور مسلم والدین کے صبر کرنے پر ان کے لیے توشۂ آخرت بن جاتے ہیں‘ اس لیے اس وفات پر بھی اللہ کی توفیق کے ساتھ صبر کے راستے کو اختیار کیا اور ایک مرتبہ دوبارہ ذہن میں یہ تصور ابھرا کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے بلکہ جلد یا بدیر‘ ہمیں اپنے پروردگارِ عالم کی طرف پلٹنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ موت کا تعلق بڑھاپے یا گزرتی ہوئی عمر کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔
انسانوں کی بہت بڑی تعداد کاروبارِ زندگی میں کچھ اس انداز سے منہمک ہو جاتی ہے کہ موت کے احساسات کو بالکل فراموش کر دیتی ہے۔ مال ودولت اور کثرت کی تمنا انسان کو اپنے اندر پوری طرح جذب کر لیتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ التکاثر کی ابتدائی دو آیات میں کچھ یوں واضح فرماتے ہیں ''غفلت میں ڈالے رکھا تم کو‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر‘ زیادہ سے زیادہ (دنیا) حاصل کرنے کی ہوس نے۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے‘‘۔ لوگوں کی کثیر تعداد زندگی میں کچھ اس انداز سے منہمک ہو جاتی ہے کہ اخروی زندگی کو یکسر فراموش کر کے فقط دنیا ہی کی زندگی کو اپنا مطلوب ومقصود بنا لیتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النازعات کی آیات 37تا 39 میں ایسے لوگوں کی ناکامی اور نامرادی کو بڑے واضح انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ''چنانچہ جس نے سرکشی کی۔ اور ترجیح دی دنیاوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی ہے اس کا ٹھکانہ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں بھی ایسے لوگوں کی ناکامی اور نامرادی کا ذکر کیا ‘جن لوگوں نے دنیا کے لیے ہی اپنی زندگی کھپا دی اور اسی کو اپنا مقصود اور مطلوب بنا لیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الکہف کی آیات 103 تا 106 میں فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے کہ میں تمہیں بتا دوں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ (لوگ) ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا‘ اس لیے ان کے اعمال غارت ہو گئے‘ پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں (کی تعلیمات) کو مذاق میں اڑایا‘‘۔
اخروی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے انسان کو ایمان اور عملِ صالح کے راستے کو اختیار کرنا ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن میزانِ عدل قائم کریں گے اور جس شخص کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا‘ اس کو جنت میں داخل فرما دیں گے اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ ناکام ونامراد ہو جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران کی آیت 185 میں کامیابی کی حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں واضح فرما دیا ''ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا اجر دیا جائے گا‘ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہو گیا‘ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اخروی کامیابیوں کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنا چاہیے۔ جو بندہ آگ سے بچ کے جنت میں داخل ہو گیا حقیقت میں کامیابی اسی کو حاصل ہو گی۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ انسان فانی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہروقت مستعد رہتاہے لیکن لافانی زندگی میں سربلند ہونے کے لیے کماحقہٗ تگ ودو نہیں کرتا۔ اعزہ و اقارب کی اموات ہمیں عبرت دلاتی ہیں کہ موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اموات سے عبرت حاصل کر کے موت اور اس کے بعد والی زندگی کی تیاری کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved