تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     11-07-2024

کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی

تسلیم ورضا کے معنی ہیں: ''اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینا‘ اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا‘ اپنی انا کو اس کی رضا میں فنا کر دینا‘ اسی کو فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی معنویت کو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے: (1) ''اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کیلئے اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے‘‘ (بقرہ: 207)۔ (2) ''بیشک اللہ نے اہلِ ایمان سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے‘ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘ پس مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں‘ اللہ کا اس پر تورات‘ انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے‘ سو تم نے جو اللہ سے سودا کیا ہے‘ اس پر خوشی مناؤ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘ (توبہ: 111)۔
اللہ تعالیٰ کے محبوب ومقرّب بندوں کو آزمائش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے‘ پھر اُن کی جو مرتبے میں اُن سے قریب تر ہیں اور پھر حسبِ مراتب‘‘ (ترمذی: 2398)۔ الغرض ''جن کے رتبے ہیں سوا‘ اُن کو سوا مشکل ہے‘‘۔ اسی سنتِ الٰہیہ کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی آزمائش کے کڑے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: '' اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا‘ تو وہ اس آزمائش پر پورے اترے‘ اللہ نے فرمایا: میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں‘‘ (بقرہ: 124)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضراتِ ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کی آزمائش کے مختلف مراحل میں سے ایک کا ذکر کیا اور ابراہیم علیہ السلام کو امتحان میں پورا اترنے پر اس اعزاز سے نوازا: ''بیشک ابراہیم (اپنی ذات میں) اللہ تعالیٰ کی ایک اطاعت گزار امت تھے‘ باطل سے ہٹ کر حق پر قائم رہنے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے‘ اُس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے‘ (اللہ نے) انہیں چن لیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی‘‘ (النحل: 120 تا 121)۔تسلیم ورضا کا یہ شِعار حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کے توسط سے رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ تک پہنچا۔ غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کی شدید تیر اندازی کے سبب جب وقتی طور پر مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے تو رسول اللہﷺ تنہا میدان میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور فرمایا: ''میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے‘ میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں‘‘۔ رسول اللہﷺ سے اللہ کی راہ میں عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کی یہ وراثت آپ کے اہلِ بیتِ اطہار کو منتقل ہوئی اور میدانِ کربلا میں امامِ عالی مقام سیدنا حسینؓ اور ان کے اہلِ بیتِ اطہار و اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کے ذریعے یہ روایت اپنی معراج کو پہنچی۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اللہ تعالیٰ کے محبوب ومقرب بندے سراپا تسلیم ورضا ہوتے ہیں‘ وہ اللہ کی قضا وقدر پر شاکی نہیں ہوتے بلکہ راضی رہتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بھی عبدالرحمن بن ملجم کو دیکھتے تو اس کی نشاندہی اپنے قاتل کے طور پر کرتے‘ آپؓ سے عرض کیا گیا: ''آپ اس کو قتل کیوں نہیں کرتے‘‘ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا: ''میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کر دوں‘‘ (الفخری فی آداب السلطانیہ‘ج: 1‘ ص: 105)۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو اپنی شہادت کا علم تھا‘ چنانچہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کے جسم پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تو فرمایا: ''اے ابوتراب! میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتا دوں‘ حضرت علیؓ نے عرض کیا: ضرور بتائیے‘ آپﷺ نے فرمایا: (ایک) قومِ ثمود کا أُحَیْمِرُ ہے ‘جس نے (صالح علیہ السلام کی) ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اے علی! (دوسرا) وہ شخص ہو گا جو تمہارے سر پر ضرب لگائے گا اور خون سے تمہارے جبڑے تک تر ہو جائیں گے‘‘ (مسند احمد: 18321)۔ یہ تمام حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت علیؓ کو اپنی شہادت کاعلم تھا اور شاید قاتل کا بھی علم تھا‘ اسی لیے انہوں نے اپنے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا‘ بلکہ برضا ورغبت شہادت کیلئے تیار رہے۔
یہی صورتِ حال امامِ عالی مقام سیدنا حسینؓ کی بھی تھی کہ شہادت کی منزل انہیں آفتاب نصف النہار کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آ رہی تھی‘ لیکن آپؓ کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کیلئے آپ تیار رہے۔ شبِ عاشور کو انتہائی فصیح وبلیغ کلمات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد آپؓ نے فرمایا: ''جو آج کی شب اپنے خاندان والوں کے پاس جانا چاہتا ہے تو میں اسے اجازت دیتا ہوں‘ تم پر رات کی ظلمت چھا چکی ہے‘ تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور رات کی تاریکی میں اپنے خاندانوں کی طرف نکل جائے‘ اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے‘ قوم کو صرف میرا خون چاہیے‘ جب وہ مجھے شہید کر دیں گے تو ان کی پیاس بجھ جائے گی‘ کسی اور سے انہیں کیا غرض‘‘۔ آپؓ کے اہلِ بیت کے مردوں نے کہا: ''آپ کے بعد جینے میں کوئی مزا نہیں ہے‘ لوگ کہیں گے: تم نے اپنے بزرگوار‘ اپنے سردار‘ اپنے چچا زاد اور بہترین چچا کو تنہا چھوڑ دیا‘ تم نے ان کی مدافعت میں ایک تیر اور ایک نیزہ بھی نہ چلایا‘ دنیاوی زندگی کی خاطر تم نے تلوار تک نہ چلائی۔ واللہ! ہم آپ پر اپنی جانوں‘ اپنے مالوں اور اپنے اہل وعیال کو قربان کر دیں گے اور آخری سانس تک آپ کی مدافعت میں لڑیں گے‘‘۔ الغرض وہ سب کوہِ استقامت تھے‘ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپؓ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مقامِ تسلیم ورضا اسی کا نام ہے کہ انسان جب دنیاوی نفع ونقصان سے ماورا ہو کر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنا لیتا ہے‘ تو اُس کے لیے جان کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم رواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی
صبحِ عاشور آپؓ نے اتمامِ حجت کیلئے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا: کیا مجھ جیسی شخصیت کو قتل کرنا تمہیں گوارا ہے‘ میں تمہارے نبی کا نواسا ہوں اور آج میرے سوا اللہ کی زمین پر کسی نبی کا کوئی نواسا موجود نہیں ہے‘ علی میرے والد ہیں‘ جعفرِ طیار میرے چچا ہیں‘ سید الشہداء حمزہ میرے والد کے چچا ہیں‘ میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ''یہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں‘ میرا مقام جاننا ہو تو اصحابِ رسول سے پوچھو‘‘۔ لیکن ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی اور ان کے مقدر میں شقاوت تھی۔ شعارِ تسلیم ورضا کوحضرت امام حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اُس معراج تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی۔ اللہ کی راہ میں ایثار وقربانی کا کوئی ایسا عنوان باقی نہ رہا جسے آپؓ نے اپنی نسبت سے مشرف نہ کیا ہو۔ محرم الحرام 61ھ کے یومِ عاشور کو جب کوفے کی مساجد سے اذانِ جمعہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں‘ شقی القلب لوگ تقریباً اُسی وقت نواسۂ رسول کی گردن پر خنجر چلا رہے تھے۔ یہ منظر کسی بھی مسلمان کیلئے ناقابلِ تصور ہے‘ لیکن امت کی بدنصیبی کہ بظاہر یہ ناممکن فعل واقع ہوا اور آج تک اس پر تمام اہلِ ایمان اور محبانِ رسولﷺ ومحبانِ اہلِ بیتِ رنجیدہ ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ محبتِ حسینؓ کے دعویدار تو بہت ہیں‘ سب اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں‘ ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں‘ مگر اُن کی اَقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
گرچہ تابدار ہے‘ اب بھی گیسوئے دجلہ و فرات
قافلۂ حجاز میں‘ ایک حسین بھی نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved