کہیں ہمارا تعارف راجن پور کے حوالے سے ہو جائے تو اکثر لوگ اگلا جملہ یہ کہتے ہیں کہ وہاں کے بکرے مشہور ہیں۔ یہ تو درست ہے کہ ہمارے ہاں کی کجلا نسل خوبصورت ہے اور عام غریب‘ بے زمین لوگ بھیڑ بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں۔ اس نوع کی معیشت اور معاشرت کے بارے میں پھر کبھی سہی مگر راجن پور کی بکروں کی نسبت شہرت پنجاب کے شہروں کے لوگوں کی گوشت خور طبیعت کی زیادہ عکاسی کرتی ہے۔ شام ہوتے ہی ہر شہر‘ ہر قصبے کے چوکوں میں ''کڑاہی گوشت‘‘ کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ہم دیہاتی لوگ قدیمی طور پر دال سبزی کھاتے تھے اور اب بھی ہمارا گزارا انہی دو چیزوں پر ہے۔ ویسے تو شہروں کی دیکھا دیکھی اب دیہات میں بڑھتا ہوا متوسط طبقہ بھی گوشت خوری کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ خیر بات تو راجن پور کی شناخت کی ہورہی تھی۔ ہمارے بچپن میں یہ شہر باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اپنی آنکھوں سے اس چھوٹی سی آبادی کو آم کے باغوں میں گھرا ہوا دیکھا‘ جب میں نے پہلی بار 1964ء میں موسمِ بہار میں مڈل سٹینڈرڈ کا امتحان دینے کے لیے اس شہر کی یاترا کی۔ اگرچہ یہ شہر ہمارے قصبے سے زیادہ دور نہیں مگر اُس زمانے میں نہ تو سفر کے وسائل تھے اور نہ شہروں میں جانے کی ضرورت پڑتی تھی۔ لوگوں کی ضروریات مختصر تھیں اور مقامی بازاروں میں سب کچھ دستیاب ہوتا تھا۔ پہلی بار جب راجن پور کو دیکھا اور ساتھ ہی آموں کے باغ میں جا کر کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر چند دنوں تک امتحان کی تیاری کی تو دل میں حسرت سی پیدا ہوئی کہ ہمارے عمر کوٹ میں آموں کے باغ کیوں نہیں ہیں۔ یہ بھی یاد ہے کہ ایک قریبی بستی میں آم کا ایک پیڑ ہوا کرتا تھا۔ یہ بہت بڑا تھا‘ جیسے برگد کا درخت ہوتا ہے اور لوگ وہاں گرمیوں میں چارپائیاں ڈال کر آرام کرتے اور کچھ تاش کھیلتے تھے۔ ہم کبھی کبھار اس درخت کو دیکھنے ضرور جاتے اور اس کے مالک کی خوش قسمتی کی تعریف کرتے۔
اس زمانے میں آم‘ جو آپ کو آج کل میسر ہیں‘ عام نہیں تھے۔ راجن پور میں تخمی آموں کے باغ تھے جو عام فہم زبان میں ''دیسی آم‘‘ کہلاتے ہیں۔ کچھ بڑے سائز کے اور کچھ چھوٹے‘ لیکن بے حد لذیذ اور میٹھے۔ اگر آپ آموں کے شوقین ہیں‘ اور اگر نہیں تو پھر آپ بے ذوق ہیں‘ تو کبھی مشاہدہ کریں کہ رنگ‘ شکل اور ذائقے میں سب اقسام ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ہمارے چھوٹے سے قصبے سے ایک بس صبح راجن پور کی طرف جاتی اور شام کو جب واپس آتی تو اس کی چھت پر سے آموں کے ٹوکرے اُتارے جاتے۔ اس زمانے میں لکڑی کی پیٹیوں اور آج کل کی گتے کے ڈبوں کی پیکنگ کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ درختوں کی باریک‘ لچک دار شاخوں سے بنے ہوئے ٹوکرے‘ جو اب بھی کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں اور ٹوکریاں ہوتی تھیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا رجحان پلاسٹک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ راجن پور شہر کے مشہور باغات سے پورے ضلع ڈیرہ غازی خان اور اس سے آگے کے شہروں کی منڈیوں میں بھی آم بھیجے جاتے تھے۔ اب کبھی اس شہرمیں جانا ہوتا ہے تو باغ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ جو حالت ملتان کے باغوں کی بڑی اور نامور سوسائٹیوں نے کی ہے وہی ہمارے جنوبی پنجاب کے ہر شہر کی نواحی آبادیوں میں صدیوں سے لگے آم کے باغوں کی ہوئی ہے۔ کون کسی سے پوچھے‘ اور کسے کیا کہے۔ جن لوگوں کو آپ حکمران کہتے ہیں انہیں یہ شعور تک نہیں کہ روایتی کھیتی باڑی‘ پرانے جنگلات اور پھلوں کے باغات قومی اور تہذیبی ورثہ خیال کیے جاتے ہیں۔ جس محبت اور سلیقے سے برطانیہ نے اپنی روایات‘ ورثے اور باغات کو سنبھالا ہے‘ وہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ہمارے ہاں تو نوکر شاہی کو جب موقع ملا تو ایف نائن میں بھی عمارتیں بنوا دیں اور ریستوران کھلوا دیے۔ جب یہ ہو رہا تھا‘ اُسی زمانے میں عزیز و اقارب کو مارگلہ نیشنل پارک میں درختوں کو کٹوا کر ریستوران بنوا دیے۔ شکر ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے حکم نامہ جاری کر دیا کہ انہیں بند کریں مگر دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔
راجن پور کے آموں کے باغات کی کٹائی اور تباہی کا نہ کسی کو احساس تھا اور نہ کسی نے شور مچایا۔ اب ہر طرف تنگ گلیاں‘ گندی بدبودار نالیاں‘ بڑھتی ہوئی آبادی کا ہجوم نظر آتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس علاقے کی آب و ہوا کو مد نظر رکھتے ہوئے چند بڑے زمینداروں نے عام فصلوں کے ساتھ آج سے تقریباً 40سال پہلے آموں کے باغات کی طرف دھیان دینا شروع کر دیا۔ اس میں بنیادی کردار پیوند کاری کا تھا کہ چھوٹے دیسی پودوں کو نئی اقسام کی پیوند لگی تو پیداوار بھی بڑھی اور تیزی سے قلمی یا پیوندی آم‘ جیسا کہ لنگڑا‘ چونسا‘ ثمر بہشت‘ انور رٹول اور دُسہری نے ملک میں انقلاب برپا کردیا۔ لوگ دیسی آم کو تو اب ہاتھ بھی نہیں لگاتے اور نہ اب مارکیٹ میں بکتے ہیں۔ اگر کہیں مل جائیں تو بہت کم۔ کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو یہی اقسام ملیں گی۔ ہمارے زمینداروں میں سے سردار مجتبیٰ خان دریشک صاحب جدید آموں کے باغات کے سرخیل ہیں۔ پورے وثوق سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن سنا ہے کہ ان کا باغ چھ‘ سات سو ایکڑ پر محیط ہے اور ان کے شوق اور باغ میں دلچسپی کا ہمارے علاقے میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے قریبی عزیز جو بڑے زمینداروں میں سے ہیں‘ نے مجموعی طور پر ہزاروں ایکڑوں پر آم کے باغات کاشت کیے ہیں۔
میرے قصبے عمرکوٹ میں‘ جہاں آم کا ایک درخت تھا‘ اب ہزاروں ہیں۔ 80ء کی دہائی کے آخر میں مرحوم اور اپنے بہت ہی پیارے دوست سردار قدرت عزیز مزاری کے ہمراہ وہاں جاتے تھے۔ صبح شام آموں کے باغات کی بات ہوتی۔ پہل آ خر انہوں نے کر ڈالی اور دور دراز سے پودے لا کر پہلے باغ کی بنیاد رکھی‘ جو تقریباً 50ایکڑ کے قریب تھا۔ میرے ایک اور عزیز دوست حاجی لعل بخش ملانہ مرحوم نے بھی اپنے چند ایکڑوں پر باغ لگانا شروع کر دیا۔ ان دو دوستوں کے تعاون اور ان کے تجربے سے یہ درویش بھی مستفید ہوا اور اپنے عزیز ماسٹر محمد اقبال رئیس کی معاونت اور نگرانی میں اپنی قدیمی بنجر زمین کے دو ٹکڑوں پر آم کی کاشت 30سال قبل شروع کی۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آموں کے باغات بھی اسی طرح تیار ہوتے ہیں جس طرح آپ گھر تعمیر کراتے ہیں تو یہ خیال ذہن سے نکال دیں۔ یہ بہت ہی محنت اور صبر طلب کام ہے۔ پودے خشک ہو جاتے ہیں‘ انسانوں کی طرح بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور اب موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے آپ وہ حاصل نہیں کرتے جو آپ کی توقعات ہوتی ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ صرف عمرکوٹ کے علاقے میں اب گیارہ‘ بارہ کے قریب چھوٹے بڑے آموں کے باغات ہیں جس میں اس درویش کی جہدِ مسلسل اور ماسٹر اقبال صاحب کی نوازشات بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آموں کے سیزن میں روزانہ کئی ٹرک کوئٹہ‘ کراچی اور قریبی اضلاع کی منڈیوں میں ہمارے علاقائی باغات سے روانہ کیے جاتے ہیں۔ اس علاقہ میں سب سے بڑا باغ سردار فرحت عزیز مزاری صاحب کا ہے اور وہ بھی ہر نئی ورائٹی تلاش کر کے اپنے باغ کی زینت بناتے رہتے ہیں۔ ہم ان سے اور خان صاحب سے متاثر ہو کر‘ جہاں جگہ نظر آتی ہے‘ آم کا پودا ضرور لگاتے ہیں۔ شہر نہیں تو ضلع راجن پور تو باغات کا ضلع ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved