تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     13-07-2024

کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان

اس پر دو رائے نہیں کہ پاکستان بالخصوص قبائلی علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پانے کیلئے افغانستان کا تعاون ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے حکام نے کابل کی عبوری حکومت سے متعدد بار رابطہ بھی کیا ہے اور اسی مقصد کے لیے اب وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی افغانستان کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ افغانستان سے رابطے کا مطلب افغان طالبان کی عبوری حکومت سے رابطہ ہے۔ چونکہ پاکستان کو دہشت گردی اور مشترکہ بین الاقوامی سرحد (ڈیورنڈ لائن) سے متعلقہ مسائل پر افغان طالبان کی پہلی حکومت (1996-2001ء) کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ حاصل ہے اس لیے کسی خوش فہمی یا بے جا توقع سے بچنے کیلئے طالبان کے ساتھ سابقہ مذاکرات کے تجربے کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ یہ مذاکرات ستمبر 1996ء میں کابل میں افغان طالبان کے قبضے اور ملک کے تقریباً 90 فیصد حصے پر ان کے کنٹرول کے بعد پاکستان کو درپیش دو مسائل کے حل کی خاطر منعقد ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیاں تھیں جن میں مسلح اور تربیت یافتہ جنگجو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی حکام جانتے تھے کہ ان کارروائیوں میں ملوث دہشت گرد پاکستان میں جرم کا ارتکاب کر کے افغانستان بھاگ جاتے ہیں۔ اُنہیں یہ مصدقہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں ان دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں جہاں انہیں نہ صرف جدید ترین اسلحے کے استعمال اور دیگر حربی طریقوں کی تربیت دی جاتی تھی بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کیلئے یہ کیمپ محفوظ پناہ گاہوں کا بھی کام کرتے تھے۔ اُسی زمانے میں ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک ٹارگٹ کِلرکا نام سامنے آیا کیونکہ اُس پر درجنوں افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا الزام تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق: دہشت گردی کی ان کارروائیوں نے جب زور پکڑا تو اس بات کی دوبارہ تصدیق ہو گئی کہ ان کارروائیوں میں ملوث دہشت گرد افغانستان سے ہی آتے ہیں اور پاکستان میں کارروائی کرنے کے بعد واپس افغانستان ہی میں اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
اس صورتحال کے تناظر میں پرویز مشرف حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی وفد افغانستان بھیجا جس کی قیادت خود جنرل معین الدین حیدر کر رہے تھے۔ اس وفد نے قندھار میں ملا عمر سے ملاقات کی اور ان کے سامنے پاکستان کے دو مطالبات رکھے۔ ایک یہ کہ افغانستان میں ان دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ اور محفوظ پناہ گاہیں بند کی جائیں اور دوسرا‘ درجنوں پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق ملا عمر نے نہ صرف مذکورہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے سے معذوری کا اظہار کیا بلکہ افغانستان کے کسی بھی حصے میں ان دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں اور محفوظ پناہ گاہوں کے وجود سے بھی انکار کر دیا‘ لیکن جب پاکستانی اداروں کی حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ایسی پناہ گاہوں کے ثبوت اُن کے سامنے رکھے گئے اور باقاعدہ نشاندہی کی گئی تو انہیں ان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑا اور پاکستانی وفد سے وعدہ کیا کہ وہ ان دہشت گردوں کے کیمپوں اور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کریں گے ‘مگر یہ وعدہ کبھی پورا نہ ہوا اور دسمبر 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں افغان طالبان کی حکومت کے خاتمے تک پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد افغانستان میں ان سہولتوں کو استعمال کرتے رہے۔ افغان طالبان اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر تھے۔
دوسرا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد کے آر پار آنے جانے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ تھا۔ یہ سرحدی لکیر1893 ء میں انگریزوں نے کھینچی تھی اور یہ سچ ہے کہ اس کے نتیجے میں اس خطے کی پشتون آبادی کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ بیشتر مقامات پر ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پشتون آدھے افغانی اور آدھے ہندوستانی قرار دیدیے گئے۔ اس لیے دونوں ملکوں سے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے پر زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سرحد دشوار گزار وادیوں‘ گھنے جنگلوں اور برف پوش پہاڑی چوٹیوں سے گزرتی ہے جس کے آر پار لوگوں کی آمد و رفت اور سامان کی نقل و حمل کو کنٹرول کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ پاک افغان سرحد کو دنیا کی اُن سرحدوں میں شمار کیا جاتا ہے جو انتہائی غیرمحفوظ(Porous) ہیں۔ 1947ء کے بعد سے افغانستان کی کسی حکومت نے اسے باضابطہ بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا۔ اس کے باوجودہر افغان حکومت نے اس کا عملی طور پر بحیثیت ایک بین الاقوامی سرحد کے احترام ضرور کیا ہے۔ ابتدائی برسوں کے دوران قبائلی لشکروں کے ذریعے اس کی حیثیت کو متاثر کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم اور دوسرے مقرر کردہ مقامات سے تجارت اور ہزاروں لوگوں کی آمدورفت بغیر کسی تناؤ یا تعطل کے جاری رہی ہے۔ 1996ء میں کابل میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد طالبان حکومت کے سرکردہ رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے اس لیے انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت پر کسی پابندی کو بھی قبول نہیں کریں گے اور جہاں سے چاہیں‘ جب چاہیں ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان میں داخل ہوں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی صورتحال کو اس حد تک تشویشناک بنانے میں اُن حالات کا بڑا ہاتھ رہا ہے جو 1979ء کے آخری دنوں میں افغانستان میں سابقہ سوویت یونین کی مداخلت سے پیدا ہوئے۔ افغانستان کے عوام نے اس مداخلت کے خلاف مزاحمت کی اور جب امریکہ ہتھیاروں اور مالی امداد کے ساتھ ان مزاحمت کاروں کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑا تو روسی افواج اور افغان مجاہدین کے درمیان جھڑپوں کی شدت سے افغانستان خصوصاً پشتون علاقوں سے افغانوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ہمسایہ ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ سب سے زیادہ تعداد نے پاکستان کا رُخ کیا اور صدر ضیا الحق نے ان کیلئے سرحد کھول دی۔ اس کے علاوہ افغان مجاہدین گروپوں کے اُس وقت پشاور میں ہیڈ آفس ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان میں نہ صرف افغان مہاجرین بلکہ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہونے والوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت کو اس قدر آسان کر دیا گیا کہ ڈیورنڈ لائن یا پاک افغان سرحد تقریباً ختم ہو گئی۔ پاکستانی حکومت کی حوصلہ افزائی اور مدد سے افغان جہاد کی حمایت کرنے والی پاکستان کی بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اپنے بیانات اور تقاریر میں پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی ملک قرار دینا شروع کر دیا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر نے اپنے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑ کر پاک افغان سرحد پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ آج سے میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والی لکیر (بین الاقوامی سرحد) کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی تک پاک افغان سرحد پر بلا روک ٹوک اور کسی قسم کی سفری دستاویز کے بغیر آنے جانے کے بعد افغان طالبان نے اگر حکومت سنبھالنے کے بعد بدستور ایسا کرنے پر اصرار کیا تو ان کے نقطہ نظر سے بات سمجھ آ سکتی ہے مگر پرویز مشرف نے ملک کی علاقائی سالمیت‘ اتحاد اور اقتدار اعلیٰ کیلئے اس کے منفی مضمرات کا احساس کر کے ایک دفعہ پھر اپنے وزیر داخلہ کو نئے افغان حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کیلئے کابل بھیج دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved