تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     27-10-2013

خواہشات کے ہزاروں رنگ

نواز شریف صاحب آئے، اُنھوں نے دیکھا۔۔۔۔ اور وہ واپس سدھارے جبکہ اس دوران امریکی میڈیا نے اُنہیں کوئی خاص توجہ نہ دی اور وہ حسب ِ معمول امریکہ میں ہونے والے زندگی کے معمولات اور جرائم کی خبریں دیتا رہا۔ ان خبروںمیںقتل کی لرزہ خیز وارداتیں بھی تھیں، جیسا کہ ایک چودہ سالہ طالب علم کے ہاتھوں اپنے چوبیس سالہ ریاضی کے استاد کا قتل۔ بہرحال سی این این نے نواز شریف اور اوباما کے درمیان ہونے والی ملاقات جس کو پاکستانی میڈیا عظیم کامیابی سے تعبیر کرتا ہے، کو مختصر انداز میں پیش کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اب کچھ روز مرّہ کے معاملات کی بات کر لیتے ہیں جو امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی زندگیوںپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں زندگی بے کیف اور بے رنگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں آپ کا دل لگ جائے، وہی آپ کا گھر ہے۔ اس لیے ہم رہتے تو امریکہ میں ہیں لیکن ہمارا دل یہاںسے ہزاروں میل دور اس سرزمین میں اٹکا ہوا ہے جہاں ہمارے رشتے داراور دوست ہیں اور جس سرزمین میں ہماری جڑیں ہیں۔ میں نے امریکہ کے مختلف علاقوں میں وقت کے تفاوت کو استعمال کرتے ہوئے کئی عیدیں منائی ہیں اور شدید برفانی علاقوںسے نکل کر تپتے ہوئے گرم علاقوں کا سفر کیا ہے۔ گزشتہ سال میں اسلامک سنٹر گئی تھی۔ یہ سنٹر نیوجرسی سے ، جہاں میں رہتی ہوں، دو قصبے دور ہے۔ میں نے وہاں نماز ادا کی اور وہاں موجود مسکراتے ہوئے خوش باش لوگوں سے ملی اور پھر گھر چلی آئی۔ جس چیز نے مجھے بہت خوش اور متاثر کیا وہ عیدکی خوشگوار صبح تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ حسن کے دریچے وا ہو رہے ہیں۔ اس دن میں عیدکے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتی ہوں جب ہم ایک دوسر ے کے ہاتھوں پر مہندی لگاتے تھے۔ محاورۃََ مہندی ہاتھوں پر لگائی جاتی ہے لیکن عملاً کلائیوں اور کہنیوں، بلکہ اس سے آگے تک’’ do more‘‘ کی جھلک دیکھی جاسکتی تھی۔ بعض اوقات پائوں میں بھی مہندی لگائی جاتی اور اس کارروائی کے نتیجے میں ’’متاثرہ شخص ‘‘ کچھ عرصہ کے لیے چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا۔ چاند رات کو طارق روڈ پر ضرور جانا ہوتا تھا۔ اُس وقت میں بڑے مزے سے گاڑی چلاتی رہتی یہاں تک کہ پارکنگ کے لیے کوئی جگہ مل جاتی۔ اُس ٹریفک کے رش اور اس سے اٹھنے والے دھوئیں اور گرد و غبار سے طبیعت مکدر نہیںہوتی تھی کیونکہ ہمارا یک نکاتی ’’ایجنڈہ ‘‘ کچھ ہلہ گلہ اور تفریح ہوتا تھا۔ جب یوم ِ عید طلوع ہوتا تو چہل پہل شروع ہو جاتی۔ ہمسایوں کے گھروں سے بھی تیاریوں کا شور سنائی دینے لگتا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی کو جلدی میں شیشہ نہیں مل رہا تو کسی کا گوٹے کنارے والا دوپٹہ غائب ہوچکا ہے جبکہ کوئی کنگھی(جو غالباً اُس نے ہاتھ میں پکڑی ہوتی تھی) کی تلاش میں ہوتا تھا۔ ہر گھر میں تقریباً یہی کہانی دہرائی جاتی تھی۔ اُس وقت ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا ہوتا تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں خوشی سے سرشار ہوتے تھے۔۔۔ اور یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ شادی شدہ مرد بھی خوش دکھائی دیتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ عید پر ہمارے اندر کے اچھے انسان بیدار ہوگئے ہیں جوخوش ہونا جانتے ہیں۔ اس وقت دل اتنا خوش ہوتا تھا کہ لوگ اپنے باس تک کو فون کر کے مبارک باد دے دیا کرتے تھے۔ صبح عیدکی نماز یا قربانی سے فراغت پا کر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے.... کیا شاندار دن تھے! میںنے کچھ عیدیں دارالحکومت اسلام آباد میں بھی گزاری ہیں۔ یہ عیدیں بھی مجھے یاد ہیں۔ لیکن یہ متاثر کن نہ تھیں۔ نہ ہی مجھے ان کی کبھی یاد آئی ہے۔ یہاں گزاری ہوئی عیدیں بے کیف اور اکتا دینے والی ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عید پر تمام لوگ تعطیلات پر ہوتے ہیں، چنانچہ دارالحکومت ایک آسیب زدہ جگہ لگتی تھی۔ خالی سڑکیں....لمبے لمبے درخت اور ہُو کا عالم۔ وہاں ادھر اُدھر بے مقصد ڈرائیونگ کرنے کے سوا کرنے کو کچھ نہیںہوتا تھا۔ اس دوران جب کسی شناسا کا گھر دکھائی دیتا تو گاڑی روک کر بیل بجاتے۔ وہ ہمیں دیکھ کر حیران ہوتے۔ عید مبارک اور گھر آنے کا اس طرح کہتے جس سے یہ تاثر ملتا کہ ہمیں یہاں سے جلد روانہ ہو جانا چاہیے۔ آج جب اُس وقت کو یاد کریں تو ایسا لگتا ہے کہ’’تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘۔ آج ہر کوئی اتنا مصروف اور افراتفری کے عالم میںہوتا ہے کہ ہم خوش ہونا ہی بھول گئے ہیں۔ ہروکی مرکامی (Haruki Murakami) اپنی کتاب ’’Kafka on the Shore‘‘ میں کہتا ہے کہ ہم ہر روز بہت سی چیزوںکے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم نت نئی چیزوںکے بارے میں سیکھتے ہیں۔ ہم نیا اسٹائل اپناتے ہیں۔ نئی معلومات، نئی ٹیکنالوجی اور نئی اصلاحات ہمارے ذہن میں نیا تاثر چھوڑ جاتی ہیں۔ لیکن جتنا بھی وقت گزرجائے، جو بھی تبدیلیاں برپا ہو جائیں، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر فراموشی کی گرد نہیں پڑتی۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جن کے نقوش لافانیت کی طرح اٹل ہوتے ہیں‘‘۔ تاہم آج یادوں کے سمند ر میں غوطہ لگانے کا رواج باقی نہیں رہا۔ گونا ں گوں مصروفیات نے ہمیں ان روپہلے جزیروںسے محروم کردیا ہے۔ اس وقت امریکی، بلکہ دنیا بھر کے باشندے، بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے ایک برطانوی مصنف کا لکھا ہوا ناول ’’Fifty Shades of Grey‘‘ نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہا ہے۔ یہ ناول تین حصوں میں شائع ہوا ہے اور اس کی چالیس ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور ابھی تک اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تیس سے زائد ممالک نے اس کی اشاعت کے حقوق خریدے ہیں۔ اسے دنیا میں تیزترین فروخت ہونے والے ناول کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس تیز فروخت نے ’’ہیری پورٹر‘‘ کو بھی مات دے دی ہے۔ اس کی مصنفہ Erika Leonard شادی شدہ خاتون ہے اور اس کے دو جوان بیٹے ہیں۔ وہ E.L James کے قلمی نام سے لکھتی ہے۔ جب اُس نے یہ ناول لکھا تو اُسے توقع تھی کہ پبلشر اُسے شائع کرنے سے انکار کر دیں گے، چنانچہ اُس نے اس کو انٹرنیٹ پر رکھ دیا۔ چونکہ انٹرنیٹ کو کروڑوں افراد روزانہ وزٹ کرتے ہیں اور انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز دلچسپ ہو تو پوری دنیا کی دسترس میں ہونے کی وجہ سے بہت جلد توجہ حاصل کر لیتی ہے چنانچہ یہی اس ناول کے ساتھ بھی ہوا۔ جلد ہی نامور پبلشرز کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگئی اور اس کی اشاعت کے حقوق حاصل کرنے کی تگ و دو شروع ہو گئی۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ وہ اس ناول کو کتابی صورت میں دیکھنا چاہتی تھی لیکن اُسے یہ توقع نہ تھی کہ اسے اتنی مقبولیت حاصل ہوگی۔ اس کا کہنا ہے کہ اُس نے اس کے ذریعے اپنی زندگی کو افسانوی انداز میں پیش کیا ہے۔ بہرحال امریکہ کے بہت سے کتب خانوں نے اسے نامناسب قرار دے کر اس پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کتاب خرید کر گھر نہیں لے جاسکتے۔ تاہم ایک دوست خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اس کتاب کو پڑھنا چاہتی ہے، تاہم اس کو کتابی صورت میں اپنے پاس رکھنے کے تصور سے وہ بھی کچھ گریزاں ہے۔ ٹائمز میگزین نے E.L James کو گزشتہ سال کے سو انتہا ئی بااثر افراد کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب دنیا یادداشت سے زیادہ افسانوی اور رومانوی تخیلات کو پسند کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ہارورڈ میں پڑھتی تھی تو میرے ٹیچر نے کہا تھا ۔۔۔’’اگر تم اپنی یادداشتیں لکھنا چاہتی ہو تو اس میں ہرگز افسانوی رنگ شامل نہ کرنا۔ اس میں صداقت کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ تاہم مکمل صداقت تو سائنس فکشن میں بھی نہیں ہوتی تو پھر انسان اپنی یادداشت کو افسانوی رنگ دینے سے کیسے بچ سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved