سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد کی سیشن کورٹ سے بھی تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف مل گیا ہے۔ نام نہاد عدّت کیس میں خان صاحب اور بشریٰ بی بی باعزت بری کر دیے گئے ہیں۔یہ اس طرح کا مقدمہ تھا کہ سینکڑوں برس کی اسلامی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ طلاق کے پانچ سال بعد سابقہ شوہر کی طرف سے اسے دائر کیا گیا‘اور اس کی سماعتوں کے دوران بدبو کے بھبکے اُٹھتے رہے۔درخواست گزار شاید نفسیاتی مریض بن چکے تھے‘اس لیے اول فول ان کے اور ان کے وکیلوں کے منہ سے نکل رہا تھا۔اس سے ایک دن پہلے سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کا حق تسلیم کر لیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے دو برادر ججوں نے بھی اس نکتے کی حد تک اپنے آٹھ رفقا سے اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی‘گویا انتخابی نشان چھن جانے کے باوجود تحریک انصاف کے ارکان کو اپنی جماعتی وابستگی برقرار رکھنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق تھا‘اُنہیں آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی سیاسی جماعت کو داخلی انتخابات نہ کرانے کی صرف یہ سزا ملے گی کہ اُس کے ارکان الگ الگ انتخابی نشانات پر الیکشن لڑیں گے۔ اس کے عہدیدار اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے‘اس تشریح کے بعد کئی مزید تشریح طلب نکتے پیدا ہو سکتے ہیں‘لیکن وہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تحریک انصاف اور اس کے حامی بھنگڑے ڈال رہے ہیں‘ مٹھائیاں کھا اور کھلا رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی آگ بگولہ ہیں‘اسے آئین ''ری رائٹ‘‘ کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف تو اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی‘ معاملہ سنی اتحاد کونسل کا تھا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی نے ''آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہو کر سنی اتحاد کونسل میں شرکت اختیار کر لی تھی‘اس حوالے سے حلف نامے بھی داخل کرا دیے گئے تھے۔ سنی اتحاد کونسل نے ان ارکان کے بل بوتے پر الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں کی ''الاٹمنٹ‘‘ کا مطالبہ کیا تھا‘ جسے کمیشن نے مسترد کر دیا کہ سنی اتحاد کونسل نامی جماعت نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس کا کوئی ایک رکن بھی کسی اسمبلی میں موجود نہیں تھا۔ایسی سیاسی جماعت کو کسی مخصوص نشست کا حق دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں گئی تو وہاں اسے منہ کی کھانا پڑی‘فل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا‘ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی‘ تو معاملہ الیکشن کمیشن اور سنی اتحاد کونسل کے درمیان تھا۔تحریک انصاف نہ درخواست گزار تھی‘ نہ نشستوں کی طلب گار۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل تمام جج صاحبان نے مسترد کر دی ہے‘ اور اسے کسی بھی طور مخصوص نشستوں کا حقدار نہیں سمجھا۔ ججوں کی نظر تحریک انصاف پر جا ٹھہری‘ اور انہوں نے ہار اس کے گلے میں ڈال دیا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ سپریم کورٹ کے آٹھ فاضل ججوں نے جو استدلال قائم کیا ہے‘ وہ کس قدر مضبوط ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ دستور کے مطابق یہ معاملہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فیصلے پر''نظریہ ضرورت‘‘ کی پھبتی کسی جائے یا اسے جسٹس منیر‘ جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کے تجاوزات کا تسلسل قرار دیا جائے ‘ اسے ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف صرف نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے‘ جو اسی بینچ کو سننا ہو گی جس نے مقدمے کی سماعت کی ہے‘ نظرثانی کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے اس لیے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ نظرثانی میں حکومتی موقف کو پذیرائی مل جائے۔
اس فیصلے کے بعد بھی مرکز اور صوبوں میں قائم کسی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ وفاق میں سب سے بڑی جماعت بن جانے کے باوجودتحریک انصاف اپنے مخالف حکومتی اتحاد کے مقابلے میں اقلیت میں رہے گی۔ حکومت کی یہ آرزو البتہ پوری نہیں ہو سکے گی کہ اسے دوتہائی اکثریت کے ذریعے آئین میں ترمیم کا اختیار مل جائے۔ اب آئین میں جو بھی ترمیم ہو گی وہ تحریک انصاف سے مشاورت کے بعد اور اس کی حمایت کے ساتھ ہی ممکن ہو گی۔ کہا جاتا رہا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید چند سال کیلئے ان کے منصب پر فائز رکھنا چاہتی تھی‘لیکن اسے قیاس آرائی ہی قرار دیا جائے گا۔ معتبر ذرائع کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ نے دو ٹوک انداز میں بتا دیا تھا کہ وہ کسی توسیعی سرگرمی میں ملوث ہونے پر تیار نہیں ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کو یہ خراجِ تحسین تو بہرحال پیش کیا جانا چاہیے کہ ان کے زیر قیادت سپریم کورٹ کا اداراتی کردار نکھر گیا ہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے سے یہ بدعت شروع ہوئی تھی کہ اپنی مرضی کا بینچ بنا کر مرضی کے فیصلے لیے جائیں۔ جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بعد جناب عطا بندیال تک پہنچتے پہنچتے یہ ایک طوفانِ بدتمیزی کی صورت اختیار کرگئی۔ چیف جسٹس کی منہ زوری اور مطلق العنانی نے آئین اور قانون کو موم کی ناک بنا دیا۔ شہباز شریف حکومت نے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو تین رکنی کمیٹی کے سپرد کرنے کے لیے قانون سازی کی‘ تو بندیال کورٹ نے اسے حکم امتناعی کے پہاڑ تلے دبا دیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا منصب سنبھال کر اس قانون کو سند ِ جواز بخش دی۔ اپنے اختیارات سے دستبردار ہو گئے۔ بینچ بنانا اب تین رکنی کمیٹی کی ذمہ داری ہے سابق چیف جسٹس صاحبان فل کورٹ کا نام سن کر بدک بدک جاتے تھے‘ قاضی صاحب نے سپریم کورٹ کو ازسر نو سپریم کورٹ بنا دیا ہے‘نہ صرف فل کورٹ کو فعال کیا بلکہ مقدمات کی کارروائی براہِ راست الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی جانے لگی۔ اگر وہ اپنی مرضی کے جج بٹھا کر مقدمات کی سماعت کا سلسلہ جاری رکھتے تو آج تحریک انصاف پسینے میں شرابور ہوتی۔قاضی صاحب کا کمال ہے کہ ان کی رائے اقلیتی قرار پائی ہے‘ برادر ججوں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک انصاف کا دامن نشستوں سے بھر دیا ہے۔اس پر نعرہ تو بلند ہونا چاہیے‘قاضی فائز عیسیٰ زندہ باد۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved