تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     15-07-2024

درد اور دوا

ہم ایسے تو نہ تھے جو اَب ہو چکے ہیں‘ اور یہ بھی حتمی بات نہیں کہ بگاڑ جو پیدا ہو چکا‘ اسی طرح ہمارے معاشرے میں زندگی کی بنیادی قدروں کو پامال کرتا رہے گا۔ اس بحث میں پڑ گئے کہ اقدار کی بنیاد مذاہب ہیں‘ تاریخ اور فلسفہ ہیں‘ رسم و رواج ہیں‘ کوئی فلسفہ ہے یا سماجی اثرات ہیں‘ تو ہم دور نہ نکل جائیں۔ آج کی عالم گیریت‘ جس کی شروعات تو کئی صدیاں پہلے ہو چکی تھی‘ میں موازنہ ہو یا مقابلہ‘ ترقی اور امن ہو یا جنگ و فساد‘ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک وہ ہیں جہاں ترقی کی رفتار خیرہ کن ہے‘ غربت ختم ہو رہی ہے‘ خوشحالی بڑھ رہی ہے اور عوام اپنی زندگیاں آزادی‘ سکون اور اطمینان سے گزار رہے ہیں۔ ایسے ممالک کی تعداد گزشتہ چالیس‘ پچاس سال میں بڑھی ہے۔ ہم نے جب سیاسیات کے میدان میں قدم رکھا تھا اس وقت مفروضے مغرب میں یہ تھے کہ ترقی اور خوشحالی کرۂ ارض کے جنوب اور جنوب مشرق کے لوگوں کا کبھی مقدر نہیں بن سکتی۔ ترقی پذیر ممالک کی سیاست کا نصاب پہلے سال اپنی تاریخ سے رغبت اور قومی پس منظر کے لحاظ سے سینے سے لگا لیا۔ افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ جنوبی امریکہ سے تو متعدد‘ جاپان سے بھی ایک ہمارے کلاس فیلو تھے۔ ہمارے پروفیسر ویسن بہت ہی روایتی‘ قدامت پسند اور جامد نظریات رکھنے والے انسان تھے۔ خوب بحث ہوتی‘ مگر وہ ثقافت‘ مذہب‘ تاریخ‘ سماجی نظام‘ جغرافیہ اور ماحولیات کو سائنسی اور صنعتی میدانوں میں تبدیلی کا سبب قرار دیتے تھے۔ یہ پرانے تصورات میں سے ایک ہے کہ گرم علاقوں کے لوگ کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ ہم ڈٹ کران کے خیالات کا مقابلہ کرتے کہ حضور! آپ ہمارے خطوں کے بارے میں اپنے نظریات بدلیں۔ اب تو کئی ممالک نے دنیائے عرب سے لے کر چین اور برازیل تک اپنی ترقی کی مثال قائم کر دی ہے۔
اپنی کہانی تو نہیں سنانا چاہتا مگر طالب علمی میں ہمارے شعبہ نے دو کورسز انڈر گریجویٹ لیول پر پڑھانے کے لیے تجویز کیے۔ پہلا ''ترقی پذیر ممالک کی سیاست‘‘ تھا جو بعد میں پاکستان میں بھی کئی بار پڑھایا۔ کسی بھی ملک میں ترقی اور بربادی کو سمجھنے کے لیے ایسے کورسز پڑھنے کی ضرورت بالکل نہیں کہ عام فہم و فراست رکھنے والا بھی خود جائزہ لے سکتا ہے کہ قوموں کی ترقی اور زوال کے اسباب کیا ہیں اور ہم کس نوعیت کے بحرانوں میں‘ اور کیوں پھنسے رہتے ہیں۔ عقل مند لوگ دوسروں کے کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دیہات کی ثقافت کا ایک حصہ ہے کہ کسی کی فصل اچھی ہوئی‘ کسی کی بھینس زیادہ دودھ دیتی نظر آئی‘ کسی نے اچھا مکان بنوا لیا تو دوسرے بھی دیکھا دیکھی اس سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔ انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں جاپان نے اپنے بہترین دماغ اس کام پر لگا دیے کہ وہ مغرب میں جا کر مطالعہ کریں کہ انہوں نے مختلف علوم‘ صنعتوں اور فوجی قوت کے حصول کے لیے کیسے نظام وضع کر رکھے ہیں۔ ان کے اور چین کے بارے میں مشہور تھا کہ نقل لگانے میں مہارت رکھتے ہیں‘ مگر ایسی کہ اصل سے بھی بہتر ہو۔ اب امریکہ اور یورپ کو سب سے بڑا خطرہ چین کی فوجی قوت سے نہیں بلکہ اس کی بڑھتی ہوئی برآمدات سے ہے۔ اس ملک کا دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کا سفر فقط چار مختصر عشروں میں طے ہوا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں چونکہ کھانا خود پکاتے تھے تو ایک چینی خانساماں کا پروگرام دلچسپی سے دیکھتے جو جھٹ پٹ کھانے بنانے کا ماہر تھا۔ آخر میں اس کا تکیہ کلام یہ تھا کہ ''اگر یہ میں کر سکتا ہوں تو آپ بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ یہی بات تو ہم ساری زندگی اپنے حکمران طبقات کو نہیں سمجھا سکے کہ اگر دوسرے ممالک خصوصاً ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے اتنی تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں تو ہمارے ہاں کیا کمی ہے؟ ہمارے پاس سب کچھ ہے‘ وسائل ہیں‘ زمین ہے‘ پانی ہے‘ سمندر کے وسیع ساحل ہیں‘ معدنیات سے بھرے پہاڑ اور صحرا ہیں‘ مگر وہ حکمران نہیں جو قوموں کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ ترقی کی راہ پر ڈالنا تو دور کی بات‘ باہمی سیاسی کشمکش اور لڑائیوں میں عارضی جنگ بندی بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جب کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سب ادوار دیکھے ہیں‘ سب کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے‘ اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں جنہیں دوسال قبل ''پاکستان کو بچانے‘‘ کا فریضہ سونپا گیا تھا‘ پانچویں اور نویں بار حکومتوں میں ہیں۔ پنجاب کو شامل کریں تو پانچ مزید حکومتوں کا اضافہ کر لیں۔ پرویز مشرف نے عجیب بہانے سے اقتدار پر قبضہ کیا مگر اس کے اتحادی بھی پہلے ادوار کے پرانے کھلاڑی تھے۔ تبدیلی والی سرکار بھی آئی اور اس کے رنگ بھی ہم نے دیکھے۔ وہ دور بھی سب کو یاد رہے گا‘ خصوصاً پنجاب کے ''وسیم اکرم پلس‘‘ کا۔ پتا نہیں اب وہ وزیراعلیٰ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے وہ وزیر اور مشیر اور انتہائی قریبی دوست اب مخالف دھڑوں میں کھڑے ہو کر زہر اگلتے ہیں۔ اس سے ان کی مردم شناسی ظاہر ہوتی ہے۔ سب مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی اقتدار میں رہتی اور مدت مکمل ہونے پر انتخابات شفاف ہوتے تو وہ تاریخ کی دھندلی سی تصویر بن کر رہ جاتی۔ جلد بازی سے انہیں ایک اور سیاسی زندگی ملی ہے‘ بلکہ ماضی کی نسبت اب وہ عوام میں بے پناہ مقبولیت اور عالمی سطح پر مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔
معتوب پارٹی کے بانی کی مزاحمت موروثی خاندانوں کی بار بار آنے جانے والی حکومتوں‘ مبینہ کرپشن اور سیاسی گدی نشینی کے خلاف تو گزشتہ پچیس سالوں سے تھی مگر عوام میں حقیقی جگہ ان کو ''جمہوری‘‘ اور ''آئینی‘‘ طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کرنے پر ملی ہے۔ جب تحریک انصاف کے ایک گروہ کو توڑ کر سندھ ہائوس میں اس وقت حفاظت میں رکھا ہوا تھا‘ تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے راتوں رات کسی کے کھیت سے پیاز نکال کر کسی اور کے کھیت میں لگا دیے جائیں۔ معاف کرنا‘ کاشتکار ہوں تو ایسی مثالیں بھلی لگتی ہیں۔ اقتدار سے تو معتوب لیڈر کو علیحدہ کر دیا گیا مگر اس کے بعد جو کئی بار آزمائے ہوئے خصوصی جہازوں میں بھر کر باہر سے لائے گئے‘ ان کے خلاف عوام کے جذبات کو کوئی نہ سمجھ سکا۔ انحصار نوکر شاہی اور الیکشن کمیشن پر کرنا پڑا کہ نتائج مثبت ہوں۔ وہ تماشا ہم نے دیکھا‘ سب ''دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں‘‘ نے بھی‘ اور پھر ہم ایک اور بحران کی نذر ہو گئے۔ اب بھی ہم ملکی حالات کو اپنے مفادات‘ نظریات اور من پسند عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کچھ ایسے ہیں جنہیں کوئی بحران نظر نہیں آتا اور پھر وہ ہیں جو صبح شام چلتے پھرتے سوال اٹھاتے ہیں کہ ملک کا کیا بنے گا‘ مہنگائی ختم ہو گی یا نہیں اور ان رہائیوں کے بعد وہ رہا ہوں گے یا اندر ہی رکھے جائیں گے؟سوچتا ہوں کہ آگے کیا ہوگا‘ تو دل دہل جاتا ہے۔ ہم آنکھیں بند کیے کسی طوفان کا انتظار کر رہے ہیں۔
طاقتور حکمران ہمیشہ ایک مغالطے میں رہتے ہیں کہ طاقت ہے تو سب کچھ ٹھیک کر لیں گے‘ مگر بار بار استعمال کیے جانے سے اس کا اثر جاتا رہتا ہے۔ اقتدارکی صبحیں اور شامیں اس سرزمین پر بہت دیکھ چکے ہیں۔ پھر حل کیا ہے؟ آئین اور قانون کی بالا دستی‘ عوامی حاکمیت‘ اور کڑا احتساب۔ دنیا نے تو ان اصولوں کو اپنا کر ہی ترقی کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved