تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     15-07-2024

تارکینِ وطن پاکستانیوں کے اہم مسائل

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نعمتیں موجود ہیں۔ پاکستان میں تمام طرح کے موسم پائے جاتے ہیں اور قسم ہاقسم کے پھل‘ سبزیاں اور اناج پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں اسلامی طرزِ زندگی اختیار کرنا کچھ مشکل نہیں اور جو شخص بھی ارکانِ اسلام کی ادائیگی بجا لانا چاہے تو اس کوکسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنے ہی دیس میں زندگی گزارے لیکن معاشی بحران کئی مرتبہ اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں کہ انسان ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر رزق کی تلاش کیلئے نکل جاتا ہے۔ بہت سے لوگ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں محنت مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ سال بھر کے بعد چند چھٹیوں پہ اپنے گھر آتے اور اپنے بچوں سے مل کر تھوڑے ہی عرصے بعد دوبارہ ان ممالک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں آباد مسلمانوں کو بالعموم اُس طرح کے مسائل کا سامنا نہیں جس طرح کے مسائل کا سامنا یورپ و امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو ہے۔
جب کبھی مجھے بین الاقوامی سفر کرنے کا موقع ملا‘ میری ملاقات ایسے لوگوں سے ضرور ہوئی جنہوں نے اسلام اور پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بعض مسائل کا بھی ذکر کیا۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد یورپ اور امریکہ میں اپنے معاشی معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھا رہی ہے تاہم اُن کو جن سماجی اور اخلاقی چیلنجوں کا سامنا ہے اور جس وجہ سے وہ نسلِ نو کے بارے میں متفکر رہتے ہیں‘ یقینا اُن امور پر توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ مجھے 13 جولائی کو پاکستان سے برطانیہ کا سفر کرنے کا موقع ملا تو ابوظہبی ایئرپورٹ پر ٹرانزٹ مسافر کی حیثیت سے کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا‘ یہاں مختلف مسافروں سے بات چیت ہوئی۔ اسی طرح آئرلینڈ میں مقیم ایک پاکستانی ماہرِ قانون بیرسٹر عمران خورشید سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی معیشت کی بہتری کا ذکر تو کیا لیکن وہ نسلِ نو کے مستقبل کے بارے میں بھی متفکر تھے۔ انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ یقینا توجہ طلب ہیں۔ بیرسٹر صاحب لوگوں کے امیگریشن کے مسائل کے ساتھ ساتھ پراپرٹی اور دیگر مسائل کو حل کرنے میں مشغول تھے اور ان کے دفتر میں ایک بڑی ٹیم بھی موجود تھی۔ پیشہ ورانہ ترقی کے باوجود وہ اس بات پر پریشان تھے کہ مغربی ممالک میں بعض قوانین ایسے ہیں جن میں صریحاً اسلامی احکامات سے انحراف پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اسقاطِ حمل سے متعلق قوانین کا ذکر کیا کہ کوئی بھی عورت اپنی یا اپنے شوہرکی مرضی کے ساتھ صحتمند حمل کو گرا سکتی ہے اور اس حوالے سے قانون اسے تحفظ دیتا ہے۔ یہ بات کسی بھی باعمل مسلمان کیلئے ممکن نہیں کہ ان قوانین کی حمایت یا دفاع کرے۔ اسی طرح وہ پریشان تھے کہ ہم جنس پرستوں اور مفرور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے مضبوط ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں جو بے راہ روی کے شکار لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیدار اور متحرک ہیں۔ اس دوران میں نے بھی اپنے مشاہدے کو ان کے سامنے رکھا کہ اس قسم کے قوانین انسانی طبیعت میں انقباض پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ‘ قرآنِ مجید‘ نبی کریمﷺ اور شعائرِ دین کے حوالے سے محبت اور وابستگی کے جو جذبات مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں‘ یہاں ان میں کئی مرتبہ کمزوری دکھائی دیتی ہے اور معیشت کی بہتری کے عوض ملنے والی یہ کمزوری کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس موقع پر حضرت علامہ اقبالؒ کی وہ بات ذہن میں آ جاتی ہے کہ
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
ہر انسان دنیا میں ترقی کرنا چاہتا ہے لیکن اگر یہ ترقی انسان کے عقائد وافکار اور نظریات کو مجروح کرے تو یقینا باشعورانسان تشویش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر میں نے انکے سامنے یہ نکتہ بھی رکھا کہ تارکینِ وطن کو لمبا عرصہ اپنی سکونت ان ممالک میں رکھنے کے بجائے جلد از جلد اپنے وطن مراجعت کی کوشش کرنی چاہیے اور جتنی دیر ان ممالک اور علاقوں میں مجبوری کے تحت قیام کرنا پڑ جائے تو انسان کو دو کام ضرور کرنے چاہئیں۔ پہلا کام یہ کہ مسجدوں کیساتھ مضبوط وابستگی اختیار کرے۔ جو شخص مساجد کیساتھ وابستگی اختیار کرتا ہے یقینا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین پر سب سے مقدس جگہوں کیساتھ وابستگی اختیار کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو زمین پر اپنے گھر انتہائی محبوب ہیں۔ جب انسان بار بار مسجد کی طرف جاتا اور جمعہ کی نماز کے علاوہ نمازِ پنجگانہ کا اہتمام کرتا ہے تو خود بخود اس میں ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ منکرات اور فواحش سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کوسورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 45 میں کچھ یوں بیان فرمایا ''اس کی تلاوت کرو جو کتاب میں سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کرو‘ بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔ اس آیت میں جہاں نماز کے قیام کا ذکر ہے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی تلاوت کا بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ گھر سے باہر رہتے ہوئے جس طرح مساجد کیساتھ وابستگی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے وہیں گھروں میں رہتے ہوئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا اور اس سے وابستگی اختیار کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص کتاب اللہ سے تمسک اختیار کرتا اور نمازوں کو قائم کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے شخص کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 170 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو لوگ کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور انہوں نے نماز قائم کی‘ یقینا ہم اصلاح کرنیوالوں کا اجر ضائع نہیں کرتے‘‘۔
اس آیت پر غور وفکر اور تدبر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اصلاح پسند ہو جاتا ہے جب وہ نماز اور قرآنِ مجید کے ساتھ تمسک اختیار کرتا ہے۔ مساجد کے ساتھ اپنی اولاد کو وابستہ کرنا یقینا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت و طریقہ کار ہے۔ نبی کریمﷺ جس وقت ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں تشریف لے گئے تو آپﷺ نے وہاں مسجد قبا اور مسجد نبوی شریف کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح جب سیدنا ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا تو انہوں نے بھی اس وقت یہی بات کہی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 37 میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرماتے ہیں ''اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس‘ اُس وادی میں آباد کیا ہے‘ جو کسی کھیتی والی نہیں‘ اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ اس (سرزمینِ مقدس) کی طرف مائل رہیں اور انہیں پھلوں سے رزق عطا کر‘ تاکہ وہ شکر کریں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دونوں دعائوں کو قبول ومنظور فرمایا۔ مکہ کی محبت بھی لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی اور اہلِ مکہ کیلئے بہترین رزق کا بندوبست بھی فرما دیا۔ مغرب میں رہنے والے تارکینِ وطن کو ان باتوں پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انسان کیلئے اپنے ایمان اور اپنی اولاد کے مستقبل کے تحفظ کیلئے مساجد اور قرآن مجید سے وابستگی اختیار کرنا انتہائی ضروری اور مفید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری اولادوں کو دین کے معاملات میں ہم سے آگے بڑھائے‘ ان کی معیشت کو مضبوط کرے اور ان کو شیطان لعین‘ بری صحبت اور نفس کے شرور وفتن سے محفوظ فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved