عمران خان جارح مزاج ہیں‘ کھیل کے میدانوں سے لے کر ایوانوں تک ان کی زندگی‘ جس سے عام لوگ بھی واقف ہیں‘ میں جارح مزاجی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے فالورز اور پارٹی رہنما اس کو اصول پرستی کا نام دیتے ہیں کہ خان صاحب اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ عمران خان کے حامی اکثر کہتے ہیں کہ 2002ء میں پرویز مشرف نے انہیں وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے اصولوں کی خاطر انکار کر دیا۔ خان صاحب کے حامی جسے اصول پرستی کا نام دیتے ہیں‘ ان کے ناقدین اسے اَنا پرستی کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جارح مزاج لوگ مسائل کو اپنی خواہش کے مطابق اور طاقت کے زور پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی بات منوانے پر بضد ہوتے ہیں اور مخالف رائے کو سننے میں تامل کرتے ہیں جس سے اکثر صورتحال کشیدہ ہو جاتی ہے۔ جارحانہ رویے سے تعلقات میں دراڑ پڑتی ہے‘ تلخی پیدا ہوتی ہے اور دوسرا فریق مسئلے کے حل میں تعاون کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ جارحیت ہمیشہ کام نہیں کرتی۔ تحریک انصاف 2022ء میں اقتدار چھن جانے کے بعد سے مزاحمتی رویہ اپنائے ہوئے ہے جس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ ایک لمحے کیلئے فرض کرتے ہیں کہ اپریل 2022ء میں‘ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے اسے جمہوری عمل کا حصہ اور آئینی طریقہ کار قرار دیتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی۔ سائفر لہرانے والی غلطی نہیں کی‘ عوام کے ساتھ رابطوں کو بحال کیا اور دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کا خاتمہ بھی نہیں کیا‘ بس ایک ہی مطالبہ کیا کہ اسمبلیاں جب اپنی آئینی مدت پوری کریں تو بروقت عام انتخابات کرا دیے جائیں۔ اس حکمت عملی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ نو مئی کو قومی اداروں پر حملوں کا بوجھ پارٹی کے کندھوں پر نہ ہوتا‘ دو صوبوں کی حکومتیں الیکشن میں معاونت فراہم کرتیں اور الیکشن بروقت ہو جاتے۔ تحریک عدم اعتماد لاتے وقت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے چونکہ عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کو مہنگائی سے نجات دلائیں گی جو عملی طور پر ممکن نہ ہوا تو پی ٹی آئی کو دہرا فائدہ ہوتا۔ اقتدار سے ہٹائے جانے پر ہمدردی کا ووٹ پڑتا اور پی ٹی آئی کو مہنگائی میں اضافہ کو کیش کرانے کا موقع بھی مل جاتا کہ جو مہنگائی میں کمی کا وعدہ کر کے آئے تھے‘ وہ مہنگائی میں اضافہ کر کے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کیلئے انتخابات میں اتنی سیٹیں حاصل کرنا مشکل ہو جاتا۔ مگر عمران خان نے حکمت و دانش اور دور اندیشی کے بجائے جارحانہ مزاج اپنائے رکھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی برتری اور عمران خان کی واپسی کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں حالانکہ پارٹی قیادت درجنوں مقدمات کی زد میں ہے۔ ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو پولیس کسی دوسرے کیس میں گرفتاری ڈال دیتی ہے۔ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں کہ تحریک انصاف قیادت پر قائم مقدمات کا میرٹ کیا ہے۔
پی ٹی آئی اپنی شرائط اور ڈنکے کی چوٹ پر قومی سیاست میں واپسی چاہتی ہے‘ ایسا ہونے کے امکانات کتنے ہیں اور کیا پی ٹی آئی اس بیانیے کے ساتھ واپس آ سکتی ہے‘ ہماری دانست میں جس سوچ نے پی ٹی آئی قیادت کو اقتدار سے نکال کر سلاخوں کے پیچھے دھکیلا وہ سوچ پارٹی کے اندر اب بھی موجود ہے۔ عمران خان نے جن خطوط پر کارکنوں کی تربیت کی ہے وہ اس سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ۔ یہ درست ہے کہ نوجوان پی ٹی آئی کا اثاثہ ہیں مگر خان صاحب کے فالورز بہر صورت کم عمر ہیں‘ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے تجربے میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھتا ہے‘ خوشیوں اور غموں کا سامنا کرتا ہے اور ان تجربات سے سیکھتا ہے۔ سیکھنے کا عمل انسان کو محتاط اور حالات کے تقاضے سمجھنے والا بنا دیتا ہے۔ سنجیدہ لوگ تجربے کی روشنی میں آگے بڑھتے اور اپنے قائم کردہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں مگر نوجوان نسل نئی راہوں کی تلاش میں بے چین ہوتی ہے۔وہ تجربات اور روایات کو چیلنج کرتی ہے اور تبدیلی کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اگرسنجیدہ لوگ نوجوانوں کے پیچھے چلنے لگیں اور ان کے یرغمالی بن جائیں تو خطرات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت پی ٹی آئی قیادت نوجوان سوچ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی اپنے اصل اثاثے یعنی نوجوانوں کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتی کیونکہ یہی لوگ پارٹی کا اصل ووٹ بینک ہیں۔
2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد جب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو انہوں نے دو باتیں برملا کہی تھیں‘ ایک احتساب اور دوسرا اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اظہار مگر اقتدار سنبھالنے کے چند ہی روز بعد انہیں احتساب والی بات تو یاد رہی تاہم اپوزیشن کے ساتھ تعاون سے ایوان کو چلانے والی بات وہ بھول گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان کی تمام تر توجہ اور حکومتی وسائل اپوزیشن رہنماؤں کے احتساب پر مرکوز رہے۔ اس احتساب سے حاصل وصول کیا ہوا؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ البتہ جس منتخب حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر عوامی مسائل حل کرنے چاہئیں تھے‘ وہ نان ایشوز میں اُلجھ گئی۔ اگر وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے اور حکمت و مصلحت کا مظاہرہ کرتے تو ان کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان جو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی پیشکش کر رہے تھے‘ وہ اپوزیشن کی بات سننے کو تیار کیوں نہ تھے؟ شاید حالات نے انہیں کبھی یہ سوچنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا اور یہ سوچ پوری پارٹی کی پہچان بن گئی۔
جو لوگ عمران خان کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں شاید وہ یہی چاہتے ہیں کہ پارٹی قومی سیاست سے آؤٹ رہے کیونکہ خان صاحب پر قائم مقدمات جلد ختم ہونے والے نہیں۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ سنا دیا ہے مگر تمام مقدمات میں ایسا ہونا ممکن نہیں‘ مقدمات لٹک جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ مزید مقدمات بھی قائم ہو جائیں جیسا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کیلئے ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر انہیں کوئی ریلیف مل بھی جاتا ہے تو نو مئی کے مقدمے کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں کیسے آ سکتا ہے؟ سو جارحانہ رویے کا فوری فائدہ نہیں ہونے والا۔ 2022ء میں اقتدار چھن جانے کے بعد عمران خان کے رویے میں جو تلخی آئی وہ بدستور موجود ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی قومی سیاست میں ایک قومی لیڈر کے طور پر فیصلے کرنے کا وقت آیا تو عمران خان اپنی مقبولیت اور جارحانہ مزاج کی وجہ سے پارٹی کو مفاہمت سے بہت دور لے گئے‘ اب بھی ایسا ہی کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں کی قیمت چکاتی ہیں‘ پی ٹی آئی بھی اپنی غلطیوں کی قیمت چکا رہی ہے۔ قومی دھارے میں واپسی کا ایک ہی راستہ ہے‘ غلطیوں کا ازالہ۔ کارکنوں کے ذہن لیڈر کی مٹھی میں ہوتے ہیں‘ اگر عمران خان چاہیں تو غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں بصورت دیگر انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ کیا وہ اس غلطی کی سیاسی قیمت چکانے کیلئے تیار ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved