میں اگرچہ نثر کا بندہ ہوں۔ ناول‘ کہانی اور افسانہ میرے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔ شاعری پڑھنے کا اتنا شوق نہیں رہا۔ مجھے شاعری صرف میوزک میں ہی مزا دیتی ہے‘ لیکن بعض شاعر اور شعر ایسے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر اثر رکھتے ہیں۔ مجھے جو چند اشعار یاد ہیں‘ ان میں ہمارے سرائیکی کے بڑے شاعر رفعت عباس کے علاوہ ظفراقبال اور دو تین اور شعرا کے چند اشعار شامل ہیں۔ ساری عمر گنتی کے انہی اشعار سے ہی کام چلایا ہے۔ رفعت عباس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا راستہ
ڈو تے سارے جنگل آسن ترائے تاں سارے دریا
رفعت عباس کا ایک اور شعر بھی مجھے یاد ہے:
ایں واری او موسم کیا ہائی‘ کہیں تے وی نہ کھلیا؍بس ہک ساڈا نچن گاؤن وستی اِچ ہلیا؍اساں تاں پہلے ڈینھ دے رفعت جیویں ہاسے ہاسے؍کھینجا او سوہنڑا بندہ نال اساڈے رلیا
ظفراقبال کا یہ مشہورِ زمانہ شعر بھی ہمیشہ یاد رہا:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
یا پھر چند مشہور شعر یاد ہیں:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اسی طرح یہ شعر:
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے
اب برسوں بعد جون ایلیا کا ایک شعر زبانی یاد ہوا ہے:
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
یہ شعر بھی یاد نہ آتا اگر اپنے صحافی دوست کامران یوسف کا ایک ٹویٹ نہ پڑھتا۔ اس ٹویٹ میں کامران نے ان لوگوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو ایک دفعہ پھر فیض آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔ پانچواں‘ چھٹا دن ہے‘ اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان لوگوں کی آمدورفت مشکل ہو چکی ہے۔ وہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جو 2017ء میں تھی۔ تب طویل دھرنا دیا گیا ‘ گولی چلی‘ لاٹھی چارج ہوا‘ آنسو گیس چھوڑی گئی اور پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا۔ کئی روز بعد ان کیساتھ معاہدہ ہوا جس پر تب کے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور ڈپٹی ڈی جی سی جنرل فیض حمید نے دستخط کیے تھے۔ دھرنے میں بیٹھے لوگوں کو کیش دے کر گھروں کو بھیجا گیا۔ بعد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پرفیصلہ لکھا اور سخت فیصلہ لکھا۔ اس وقت تک عمران خان وزیراعظم بن چکے تھے۔ اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے الٹا جنرل باجوہ‘ جنرل فیض اور عمران خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ ایک صدارتی ریفرنس صدر عارف علوی کے ذریعے سپریم کورٹ کو بھیجا گیا جہاں فیلو ججز پہلے سے تیار تھے اور یوں کارروائی شروع ہو گئی۔ باقی جو کچھ وہاں ہوا‘ اس سے سبھی واقف ہیں۔
عمران خان کے دور میں بھی یہ مشق دہرائی گئی۔ یہ لوگ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیلئے نکلے۔ جہلم کے قریب انہیں روکا گیا۔ وہاں کافی لڑائی جھگڑا ہوا۔ ان ہنگاموں کو بھارت کے میڈیا میں خاصی جگہ ملی۔ عمران خان حکومت نے اس پارٹی کو بین کر دیا لیکن چند ماہ بعد ہی پابندی ہٹا دی گئی اور پھر اس جماعت نے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔
اب ایک دفعہ پھر اس جماعت کے حامی فیض آباد آکر بیٹھ گئے ہیں۔ پھر وہی پرانا کام شروع ہو گیا ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو ہم سب نے مل کر سیکھا ہے۔ سات سال بعد وہی مشق دہرائی جارہی ہے۔ بس وقت کے ساتھ ساتھ مطالبات بدل گئے ہیں۔ کامران یوسف نے اپنے ٹویٹ میں حیرانی کا اظہار کیا کہ بھلا پنڈی جیسے حساس شہر کے دل اور دارالخلافہ کے داخلی راستے پہ ایسا کام کرنے کی اجازت کون دے سکتا ہے؟ کیا حکومت اور ریاستی اداروں کی رِٹ باقی نہیں رہی کہ جس کا جب دل کرے وہ کسی بھی جگہ بیٹھ کر‘ راستہ روک کر دھرنا دے دے اور سڑکوں پر قبضہ کر لے۔ جبکہ حکومت اس سارے معاملے میں نیوٹرل بن کر بیٹھ جائے کہ عوام جانیں اور دھرنا دینے والے جانیں۔ ہمارا دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ سیاسی حکومتوں اور حکمرانوں نے اپنے وقتی مفادات کے نام پر تباہی اور بربادی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ 2017ء کے دھرنے میں عمران خان کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں کیونکہ اس وقت جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا مقصد شاہد خاقان عباسی حکومت کو نیچا دکھانا تھا۔ لیکن جب عمران خان کے دور میں یہ پارٹی احتجاج کے لیے باہر نکلی تو اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔
کامران یوسف حیران ہو رہا تھا کہ آخر ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے کہ پہلے ہم نے برسوں تک طالبان کو اپنے گلے سے لگائے رکھا کہ وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں‘ وہ ہمارے Strategic assets ہیں‘ وہ افغانستان میں ہمارے کام آئیں گے۔ یوں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے چکر میں ہم نے اپنا پورا ملک تباہ کرا لیا۔ لیکن اب افغانستان میں طالبان واپس آئے ہیں تو ہماری جان پر بن گئی ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کے پشت پناہ بن گئے ہیں۔ اشرف غنی کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے تھے‘ اب بتایا جا رہا ہے کہ ان حملوں میں پانچ سو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اب روز ہمارے جوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے‘ جی ہاں! وہی طالبان جو ہمارے رائٹ ونگ میڈیا‘ مذہبی جماعتوں‘ دفاعی ماہرین اور مقتدرہ کے نزدیک ہمارا قومی اثاثہ تھے۔ وہ اثاثہ اب ہمارا لہو بہا رہا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ جن طالبان کے خلاف جنرل کیانی دور میں آپریشن ہوا تھا اور وہ افغانستان بھاگ گئے تھے انہیں وزیراعظم عمران خان دور میں بڑے اہتمام سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض واپس لائے اور انہیں سوات اور قریبی علاقوں میں بسایا گیا۔ 35 ہزار طالبان اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سرحد پر لگی باڑ کاٹ کر سرکاری حفاظت میں پاکستان لایا گیا۔ یہ تھا ہمارا وژن اور ہماری سوچ۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی نے سر اٹھایا۔ آج کل ہم دوبارہ انہی طالبان سے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہمیں داد دیں کہ ہم کتنے زیرک ہیں کہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اگر افغان طالبان کابل پر فاتح کی حیثیت سے قابض ہوں گے تو ٹی ٹی پی کے حوصلے پست نہیں ہوں گے بلکہ الٹا انہیں حوصلہ ملے گا کہ اگر افغان طالبان امریکہ سے لڑ کر کابل پر قابض ہو سکتے ہیں تو وہ اسلام آباد پر قبضہ کیوں نہیں کر سکتے؟ پہلے تو ٹی ٹی پی کو امریکی فوجیوں یا ڈرون حملوں کا کچھ ڈر تھا‘ اب افغانستان میں ان کے بھائیوں کی حکومت ہے‘ وہ انہیں کچھ نہیں کہیں گے بلکہ اپنا مہمان سمجھ کر نہ صرف بسنے دیں گے بلکہ سپورٹ بھی دیں گے اور دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو اب کوئی خوف نہیں‘ اس لیے اب پاکستان کے اندر حملوں کی شدت بڑھ گئی ہے۔ پوری قوم امریکی ڈورن حملوں کے خلاف تھی مگر ان ڈرون حملوں نے ٹی ٹی پی کو پیچھے دھکیلنے اور شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ طالبان کی پوری قیادت ڈرون حملوں ہی میں ماری گئی تھی۔
کامران یوسف کا خدشہ بجا ہے کہ جیسے ہم نے طالبان کو اپنا اثاثہ سمجھ کر پالا پوسا‘ جوان کیا اور اپنا لہو بہایا اور پھر جا کر عقل آئی‘ لگتا ہے وہی تجربہ اب فیض آباد دھرنے والوں کیساتھ ہورہا ہے۔ لیکن ہمارا جو انجام افغان طالبان کے حوالے سے ہوا وہی یہاں بھی ہوگا کیونکہ وہی بات کہ ہمیں اپنے قاتلوں سے پیار ہے۔ پھرجون ایلیا کا یہ شعر زبانی یاد کیوں نہ ہو:
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved