معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ اب حالات ایسا رُخ اختیار کر چکے ہیں کہ حکمران ٹولے کو کوئی مشورہ دینا‘ عقل کی بات سمجھانا تو دور کی بات ہے‘ منہ چڑاتے خطرات اور سر پر منڈلاتے خدشات کے بارے میں انتباہ کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ ملک کے اقتصادی‘ سماجی اور انتظامی مسائل کا کوہِ ہمالیہ سے بلند پہاڑ سامنے ہے جس طرف کوئی دھیان ہی نہیں‘ اور نہ ہی اس سمت کوئی معتبر اقدامات دکھائی دیتے ہیں اور چلے ہیں ملک کی سب سے بڑی اور معتوب سیاسی جماعت کو غیر قانونی قرار دینے۔ ایسے بڑے تضادات شاید ہی ہم نے ماضی میں کبھی دیکھے ہوں کہ ایک طرف حکومت اور اس کے وزرا سیاسی استحکام کو اقتصادی بحالی کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے 'افکارِ عالیہ‘ اور 'اعمالِ صالحہ‘ سے سیاسی اور سماجی بنیادوں کو ہلا کر ملک کو بحرانی کیفیت میں مبتلا کررہے ہیں۔ ان کی سوچ اور عملی اقدامات کے مظاہر ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور مقدمے بازی کی صورت عوام گزشتہ دو سال سے زیادہ عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ سب کچھ کر گزرنے کے بعد‘ کہ معتوب پارٹی کو نہ ووٹ ملیں اور نہ نامور امیدوار۔ انتخابات کی رات نتائج کی روانی پر بریک لگنے سے وہ سب کچھ ہو گیا جس نے نہ صرف اس سال فروری کے انتخابات کو متنازع بنا دیا بلکہ موروثی سیاسی جماعتوں کے خلاف عوام کے ووٹ کے باوجود انہیں سیاسی زندگی بھی مل گئی اور اقتدار کی چابیاں بھی اُن کے حوالے ہو گئیں‘ جسے دنیا کبھی نہیں بھولے گی۔ اب چاہتے ہیں کہ معتوب پارٹی‘ جس کے ہاتھ میں عوامی گھوڑے کی لگامیں ہیں‘ نیچے اُترے‘ حکمرانوں کے دربار پر حاضری دے‘ مقبولیت حاصل کرنے کی پاداش میں اپنے آپ کو سزا کی حقدار بھی سمجھے‘ معافی مانگے اور جو آٹھ فروری کی شب اس کے مینڈیٹ پر نقب زنی ہوئی‘ اسے بھول کر پرانے سیاسی پیروں کی بیعت کرکے خاموش ہو جائے۔ ابھی تک تو یہ نہیں ہو سکا‘ اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
جب مقدمہ بازی‘ قید و بند اور جوڑ توڑ کے حربے ناکام ہو گئے تو اب معتوب پارٹی کو غیرقانونی قرار دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ بیان بازی شروع ہو چکی ہے اور پُر مغز سیاسی مکالمہ بھی‘ کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور یہ کہ یہ ملک دشمن جماعت ہے‘ ریاست کے خلاف ہے اور اس کی ماضی اور حال کی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے۔ یہ کھیل ہم اپنی تاریخ میں چار مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں پر ماضی میں پابندی لگائی گئی تھی ان کے بارے میں بالکل یہی باتیں حکومتی نمائندے اٹھتے بیٹھتے کرتے تھے۔ پھر کچھ دن بعد سرکاری حکم نامہ جاری ہوتا۔ اگر آپ نے حکمرانوں کی تاریخ نہیں پڑھی تو اس بابت آپ کی یادداشت کے لیے عرض کیے دیتا ہوں۔ 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کو 1954ء میں غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔ اس پارٹی میں فیض احمد فیض صاحب‘ نامور دانشور اور مصنف سید سبط حسن کے پائے کے لوگ تھے۔ سب جیل میں ڈال دیے گئے۔ رہائی کے بعد ترقی پسند سیاست سے دستبردار تو نہ ہوئے مگر پارٹی زیر زمین چلی گئی اور محدود وسائل اور مسدود حالات کے باوجود مختلف مزدور تنظیموں‘ طلبہ انجمنوں اور ادیبوں اور شاعروں میں کچھ نہ کچھ نظریاتی کام کرتی رہی۔ اپنے نظریے سے وابستگی اور وفا کا رشتہ انہوں نے نبھایا۔
1970ء کے انتخابات کے بعد عوامی لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری تو مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اقتدار اُسے سونپنے کے بجائے سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی رَٹ لگائے رکھی‘ یہاں تک کہ نئی قومی اور دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ ردِعمل کے طور پر عوامی لیگ نے اجلاس ہونے تک عدم تعاون کی تحریک کا آغاز کر دیا۔ بگڑتے ہوئے سیاسی ماحول کو سہارا دینے کے لیے ملک کے خود ساختہ صدر نے عوامی لیگ کو ملک دشمن قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔ باقی تاریخ کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ملک کے دولخت ہونے سے بھی ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ اقتدار جس طرح ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو منتقل ہوا‘ وہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اگر نہیں پڑھی تو کئی کتابوں میں موجود ہے۔ کچھ باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں کہ عوامی رہنما ہونے اور مقبولیت کی سند کے باوجود وہ چھوٹی پارٹیوں اور عام سیدھے سادے سیاسی کارکنوں کی باتوں کو برداشت کرنے کی سکت کیوں نہیں رکھتے تھے ۔ نہ صرف نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان حکومت کو رخصت کرکے گورنر راج نافذ کیا بلکہ اس کے دو سال بعد پارٹی پر پابندی لگا کر اس کے رہنماؤں‘ بشمول غریب اور کسمپرسی کا شکار مگر جرأت کے استعارے حبیب جالب جیسے شاعر کو بھی غداری کے جرم میں حیدر آباد جیل میں بند کردیا گیا۔ بھلا ہو ایک فوجی حکمران کا کہ اس نے انہیں آزاد کیا مگر پھر جو سانحہ ہم نے بھٹو کے عدالتی قتل کی صورت دیکھا وہ ہماری تاریخ پر کئی خونیں دھبے چھوڑ گیا۔ وہ دور گیا اور عوامی دور آئے‘ جو زیادہ تر باہمی لڑائیوں اور ناقابلِ بیان بدعنوانیوں کی نذر ہو گئے۔ اس کشمکش میں نہ پارٹیاں سیاسی رہیں‘ نہ جمہوریت اپنا چہرہ نکھار سکی۔ ایک اور صاحب بہادر جہاز سے اُترے اور سیدھے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوکر جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اڑا کر ایک منتخب حکومت‘ جسے دو تہائی اکثریت حاصل تھی‘ دھڑلے سے رخصت کرکے ملک کی تقدیر بدلنے میں مصروف ہو گئے ۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر پابندی لگائی تو کچھ نام میں اضافہ کرکے پارٹی انتخابی عمل میں زندہ رہی۔ پارٹی تو ختم نہ ہوئی مگر اس رجیم کے کوئی آثار باقی نہ رہے۔ نہ وہ منصف‘ نہ وہ وزیر‘ نہ مشیر اور نہ ہی چاروں طرف دندناتے ہرکارے۔ سب فصلی پرندوں کی طرح اُڑ گئے۔
ایئر مارشل اصغر خان کا جملہ نہ دہرایا جائے تو ناانصافی ہو گی۔ لگتا ہے کہ گہرے مطالعے اور تفکر کے بعد انہوں نے کہا تھا: ''ہم نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا‘‘۔ آج کل مقتدر سیاسی گٹھ جوڑ ہر سیاسی اور قانون میدان میں مار کھانے کے بعد اپنی بقا اور گدی نشینی کی سیاست کو مضبوط کرنے کے لیے آخری چال چلنے کے لیے پر تول رہا ہے ۔ ایک ہفتے سے وہی باتیں‘ جو ماضی میں کسی پارٹی پر پابندی لگانے سے پہلے کی جاتی تھیں‘ اب دہرائی جا رہی ہیں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ سیاسی اختلاف کو جرم کے لبادے میں لپیٹنے کی جو روایت پڑ چکی ہے‘ اس میں کہیں بہت دور نہ نکل جائیں۔ پہلے ہی کسی راستے پر چلتے‘ کسی سمت سفر کرتے نظر نہیں آتے۔ اب یہ نہ ہو کہ ملک‘ جو پہلے ہی اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں ہے‘ مزید کٹھن آزمائشوں میں ڈال دیں۔ خطرہ یہ بھی ہے کہ ہر ایسے کھیل کے ساتھ بانس اور بانسری اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اتحادی حکومت کا ساتھ دیں گے کہ خطرہ تو سب کو ہے اور یہ سوچ بھی مشترک ہے کہ راستے کا بھاری پتھر جمہوری سیاست سے دور نہیں ہو سکا تو پھر ماضی کے آزمودہ نسخے کیوں نہ استعمال کیے جائیں۔ بے شک آزما لیں۔ کسی کا ہاتھ روکنے والے گزشتہ ادوار کی طرف پلٹ کر تھوڑا سا جائزہ تو لے لیں۔ لوگوں کے تیور اب بدلے ہوئے ہیں اور مزاحمت کے لیے اب سڑکوں پر دھرنے دینے اور ملک گیر تحریکوں کی ضرورت بھی نہیں۔ لاوا اندر پکتا ہے تو مناسب وقت پر اُبل پڑتا ہے۔ اس کے سامنے ٹھہرنے کی جرأت شاید کوئی نہ کر سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved