تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     19-07-2024

جدید بندرگاہیں ضروری

وزیراعظم شہباز شریف نے آٹھ جولائی کو دورۂ کراچی کے موقع پر تاجروں اور کاروباری طبقے کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں نے اپنی تجارت کے لیے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ کراچی آنے سے قبل وزیراعظم قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سالانہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کر چکے تھے‘ جہاں انہوں نے کانفرنس کے باضابطہ اجلاس سے ہٹ کر تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہوں کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔ قازقستان سے قبل وزیراعظم نے تاجکستان کا دورہ کیا تھا اور تاجک صدر شام علی رحمان سے ملاقات کی تھی۔ اسی دورے کے دوران وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماؤں نے پاکستانی بندرگاہوں کے راستے مشرقِ وسطیٰ‘ افریقہ اور یورپی ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم نے کراچی میں تاجروں سے ملاقات کے دوران جس بات پر خصوصی طور پر زور دیا وہ پاکستانی بندرگاہوں بالخصوص کراچی کی بندرگاہ کو بین الاقوامی معیار پر لانے کیلئے ضروری اقدامات کا اعلان تھا تاکہ کسٹمز کلیئرنس کے عمل میں کوئی تاخیر نہ ہو اور سامان کی ڈِلیوری بھی فوری طور پر ہو سکے۔ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے سمندری تجارت کا سب سے موزوں راستہ فراہم کرتا ہے۔ جدید نظام اور بندرگاہوں تک آسان رسائی کی بدولت پاکستان اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
اسی مہینے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ ان سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے آذربائیجان کو بھی بیرونی تجارت کیلئے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال کی پیشکش کی۔ بلاشبہ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک دو طرفہ بنیادوں پر مختلف شعبوں مثلاً توانائی‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ دفاع‘ ثقافت‘ انسدادِ دہشت گردی‘ منشیات اور ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف تعاون کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کی سہولت کاری کیلئے ضروری انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے کئی منصوبوں پر اتفاق بھی کرچکے ہیں۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب وسط ایشیائی ریاستوں نے آزادی کا اعلان کیا تو پاکستان کی طرف سے ان ریاستوں کیلئے بڑی گرمجوشی کا اظہار کیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے بے بنیاد بھی نہیں تھا کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کے اس خطے کے عوام کے ساتھ بڑے گہرے اور قدیم ثقافتی روابط رہے ہیں۔ قدیم شاہراہ ریشم‘ جس پر نہ صرف چین بلکہ ہندوستان کی تجارتی اشیا سے لدے پھندے قافلے بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہوں پر اپنا سامان اُتارتے تھے‘ دراصل متعدد تجارتی راستوں کا مجموعہ تھی۔ ان میں سے ایک راستہ قراقرم ہائی وے کیساتھ چین کے صوبہ سنکیانگ سے شروع ہو کر گلگت بلتستان‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے گزرتا ہوا ایران کے راستے ترکی کے جنوب میں واقع مشرقی بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع بندرگاہوں پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ جہاں سے بڑی کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے یورپی ممالک کو تجارتی اشیا بھیجی جاتی تھیں۔ صوفیا کرام کے ذریعے ہندوستان میں دینِ اسلام بھی وسطی ایشیائی ممالک سے آیا تھا اور جب 12ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان اور اس کے جانشینوں نے وسطی ایشیائی ممالک پر حملہ کرکے انہیں تباہ و برباد کیا تو ازبکستان‘ تاجکستان اور آذربائیجان پر مشتمل علاقوں سے خستہ حال باشندوں نے ہندوستان کے اُن علاقوں میں پناہ حاصل کی جو اَب پاکستان میں شامل ہیں۔ روس نے 1865ء میں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پر قبضہ کیا تھا۔ وسطی ایشیا پر قبضے کے بعد زارِ روس کی سرحدیں افغانستان سے مل گئی تھیں۔ اُس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطوں پر برطانیہ کی عملداری قائم تھی جس نے افغانستان کی سرحدوں تک زارِ روس کی توسیع کو ہندوستان میں اپنے نو آبادیاتی راج کیلئے خطرے کا پیغام سمجھا۔ یوں یورپ اور ایشیا کے درمیان خشکی کے راستے رابطے کا یہ سب سے بڑا ذریعہ روس اور برطانوی نو آبادیاتی مفادات کے درمیان محاذ آرائی کا مرکز بن گیا۔ یہ محاذ آرائی‘ جسے گریٹ گیم بھی کہا جاتا ہے‘ بیسویں صدی کے اختتام تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وسطی ایشیا کی آزاد اور خود مختار ریاستوں کے ظہور کے بعد پرانی گریٹ گیم ختم ہوئی مگر دو بڑے ہمسایہ ممالک‘ روس اور چین کے علاوہ امریکہ کی طرف سے خطے کی نو آزاد ریاستوں کے ساتھ سفارتی‘ تجارتی اور دفاعی شعبوں میں تعلقات کے ذریعے اس اہم خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی ایک نئی دوڑ‘ جسے نیو گریٹ گیم بھی کہا جاتا ہے‘ شروع ہو گئی۔
وسطی ایشیا کی ان نو آزاد ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا مگر تین دہائیوں کی کوششوں کے باوجود پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارت‘ باہمی سرمایہ کاری‘ معاشی تعاون‘ ثقافت‘ سیاحت اور عوامی سطح پر رابطوں میں قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔ حالانکہ ان شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان نہ صرف دو طرفہ بنیادوں پر متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں بلکہ معاشی تعاون تنظیم (ECO) اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہونے کی حیثیت سے وہ اہم ملٹی لیٹرل فورمز کا بھی حصہ ہیں۔ اس کے باوجود وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی سالانہ تجارت 400 سے 500 ملین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ تجارت‘تقریباً 91 ملین امریکی ڈالر سالانہ‘ قازقستان کے ساتھ ہے۔ وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی دو طرفہ تجارت 2010ء میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت ہو رہی ہے مگر اس کا حجم گنجائش سے بہت کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ریل روڈ پر مشتمل ضروری انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ازبکستان نے نومبر2018ء میں افغان ٹرانزٹ ریلوے کی تعمیر کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت ازبکستان کے شہر ترمیز کو افغانستان کے شہر مزار شریف اور کابل کے راستے پاکستان کے شہر پشاور کے ساتھ 600 کلو میٹر لمبی ریلوے لائن کے ذریعے ملانے کا منصوبہ ہے۔ مارچ 2021ء میں پاکستان‘ افغانستان اور ازبکستان نے ریلوے لائن کے اس منصوبے پر باقاعدہ دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت اس منصوبے کو پانچ برس میں مکمل ہونا تھا‘ مگر تین سال گزرنے کے باوجود اس پر ابھی تک کام بھی شروع نہیں ہو سکا حالانکہ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے اس منصوبے کی تعمیر میں مالی اور تکنیکی امداد فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق وسطی ایشیائی ریاستیں پاک افغان ٹرانزٹ روٹ کے ذریعے اپنی تجارت کا حجم بڑھا کر سی پیک کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ افغان ٹرانزٹ ریلوے کی تعمیر کے بعد اسے سی پیک کے تحت پاکستان ریلوے کے ایک بڑے منصوبے ML1 کیساتھ ملانے کا ارادہ ہے۔ اس طرح وسطی ایشیائی ریاستوں کو افغان ٹرانزٹ ریلوے کے ذریعے نہ صرف کراچی بلکہ گوادر کی بندرگاہ تک بھی رسائی حاصل ہو جائے گی مگر اس کیلئے پاکستان کی بندرگاہوں خصوصاً گوادر میں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر‘ سرمایہ کاری اور سکیورٹی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غالباً اسی مقصد کیلئے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کی بندرگاہ پر سامان کو جہازوں پر لادنے اور اتارنے کیلئے جدید ترین سہولتیں مہیا کرنے کے علاوہ کسٹمز کلیئرنس اور سامان کی ڈِلیوری میں تاخیر کو ختم کرنے پر زور دیا۔ دیکھتے ہیں اس اقدام کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved