تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     19-07-2024

اونچی لہروں کا موسم

مون سون کے آغاز ہی سے سمندر میں اونچی لہروں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ مچھیرے بھی اپنی کشتیاں سمندر میں لے جاتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ساحل پر موجود لوگوں پر بھی پابندی عائد کردی جاتی ہے کہ اگست کے آخر تک سمندر میں نہانا منع ہے۔ اس بار مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی یہ اونچی لہریں سیاسی سمندر میں بھی اُٹھ رہی ہیں اور نہیں معلوم کہ کتنی بلند ہوں گی۔ سمندر موج میں ہو تو اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کب بپھر جائے اور کتنا نقصان کر دے۔ بپھرے سمندر کی زد میں کناروں پر بسنے والے سب سے پہلے آتے ہیں‘ لیکن کناروں پر رہنے‘ سمندر میں نہانے کا شوق ہے کہ ختم ہوتا ہی نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ کے فیصلے سے سیاسی سمندر میں وہ ہلچل پیدا ہوئی جس میں کئی ردِعمل خود بخود پیدا ہونے لگے۔ آٹھ‘ پانچ کے اکثریتی فیصلے سے تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت نہ صرف ایوان میں جگہ مل گئی بلکہ مخصوص نشستیں بھی سنی اتحاد کونسل کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کا حق قرار پائیں۔ یہ فیصلہ حکومت کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کیلئے بھی ایک دھچکا تھا جو تحریک انصاف کو مؤثر اور طاقتور جماعت دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ چنانچہ اس فیصلے اور اس کے مضمرات کا راستہ روکنے کیلئے اربابِ اختیار سر جوڑکر بیٹھ گئے۔ کوئی فوری فیصلہ لازمی تھا اور عجلت میں کیے گئے فیصلے عام طور پر غلط ثابت ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کردی گئی اور دوسری طرف تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کا اعلان کردیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ پر عدت میں نکاح کیس کافی عرصے سے لٹکا ہوا تھا۔ عدالت نے اس مقدمے میں انہیں بری کردیا اور رہائی کا حکم دیا‘ لیکن فوراً ہی انہیں توشہ خانہ کے ایک نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہی صورت صنم جاوید سمیت دیگر اسیروں کی ہے‘ ایک مقدمے میں عدالت رہائی دیتی ہے تو دوسرے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں نچلی عدالتوں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ اور عدالتِ عظمیٰ کے جوپے در پے فیصلے آئے ہیں انہوں نے سیاسی گرم ہوا کا رُخ حکومت کی طرف کردیا ہے۔ ایک بات تو واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ عدلیہ فیصلہ سازوں اور حکم دینے والوں کے کنٹرول میں نہیں ہے۔چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پر پی ٹی آئی کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے حوالے سے جانبدار ہیں‘ لیکن یہ کریڈٹ بہرحال چیف جسٹس صاحب کو دینا ہوگا کہ انہوں نے اس مقدمے میں نہ صرف فل کورٹ بنایا بلکہ مقدمے کی براہِ راست کارروائی دکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں بھی اگرچہ چیف جسٹس سمیت پانچ منصفوں نے اختلافی رائے دی لیکن 11 جج اس بات پر متفق تھے کہ الیکشن کمیشن نے ان کے سابقہ فیصلے کی غلط تشریح کی۔ میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو جو عدالتی ریلیف ملا وہ ان کے رہنماؤں اور وکلا کیلئے بھی غیر متوقع تھا۔ اس ریلیف نے بلا شبہ تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ حکومت نظر ثانی اپیل میں چلی گئی ہے لیکن میرے خیال میں فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ منصف بھی وہی ہوں گے اور نظر ثانی کی اپیل محدود معاملات ہی کا جائزہ لے سکتی ہے لیکن حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے اقدام کا تعلق ہے‘ اس کا بھی بظاہر کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت صوبائی ہائی کورٹس میں فوراً چیلنج ہو جائے گا۔ اور یہ اعلان کرنے والوں کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑے گی۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد یا اس سے بھی کم مدت کا تصور کریں کہ اس وقت حکومت کے پاس کیا آپشنز رہ جائیں گے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ سے کئی مقدمات میں تحریک انصاف کو ریلیف ملا ہے۔ مخالفین کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان ججوں کا کیا کریں‘ دیگر ہائی کورٹس کی طرح انہیں کسی دور دراز بینچ میں بھی نہیں بھیجا جا سکتا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ امکان ہی نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس بڑے فیصلے کا متن بھی سامنے آگیا اور تشریحات بھی‘ لیکن کچھ سوالات کے جوابات نہیں ملے۔ ان سوالات کے کئی رُخ ہیں۔ پہلا سوال تو بصد احترام اسی فیصلے کے بارے میں ہے جس فیصلے کی غلط تشریح الیکشن کمیشن نے کی‘ اس میں یہ ابہام موجود ہی کیوں تھا؟ کیا یہ ابہام فیصلے کے نقص کی دلیل نہیں ہے؟ سیاسی جوار بھاٹا تو سب دیکھ ہی رہے ہیں۔ کیا اس فیصلے کو اس طرح لکھنا ممکن نہیں تھا کہ اس کی من مانی تشریح نہ کی جا سکتی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن اس فیصلے کی غلط اور من مانی تشریح کر رہا تھا‘ جس سے انتخابی عمل متاثر ہونا یقینی تھا‘ تب اس پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی؟ کوئی پارٹی الیکشن کمیشن کی اس تشریح کے خلاف پٹیشن میں گئی یا نہیں گئی‘ یہ الگ بات ہے۔ اس پر از خود نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ فروری سے جولائی تک جو اس معاملے میں بحران پیدا ہوا‘ کیا قوم کو اس سے بچایا نہیں جا سکتا تھا؟
کچھ سوال تحریک انصاف سے بھی ہیں۔ جن نشستوں اور جس تعداد کی آپ خوشی منا رہے ہیں اور اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں‘ قومی اسمبلی‘ پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی میں اس سے زیادہ نشستوں کو دو سال قبل کیا آپ خود دھتکار نہیں چکے؟ 2022ء میں کیا یہی ایوان آپ کی ٹھوکروں پر نہیں تھا جس میں آپ محض چند نشستوں کی کمی سے حکومت سے محروم ہو گئے تھے؟ کیا آپ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اسمبلی پی ڈی ایم کے حوالے نہیں کر گئے تھے؟ تو اب جبکہ اس فیصلے کے باوجود اور اس حقیقت کے باوجود کہ آپ اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن جائیں گے‘ آپ کے اور حکومتی اتحاد کے درمیان 90 سے زائد نشستوں کا فرق رہے گا‘ ایسی صورت میں ایوان میں آپ کیا ایسا کر سکیں گے جو 2022ء میں نہیں کرسکتے تھے؟
سوال اور رہنماؤں سے بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن آج کل مسلسل بیانات‘ تقاریر اور انٹرویوز میں مقتدرہ پر گرج برس رہے ہیں۔ اگرچہ ان کا اظہار بہت نپا تلا ہے اور بے لگام نہیں‘ تاہم انہیں بتانا چاہیے کہ وہ حالیہ انتخابات میں جس مداخلت اور پلان کا ذکر کر رہے ہیں‘ اس کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ان کا ہدف کیوں نہیں ہیں؟ جے یو آئی سے یہ بھی سوال ہے کہ صرف دو سال پہلے 2022ء میں جب مقتدرہ کی تحریک انصاف کی پشت پناہی سے دستبرداری کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت کھو بیٹھی تھی‘ اس وقت پی ڈی ایم کے سب سے بڑے محرک مولانا فضل الرحمن تھے‘ اس وقت انہیں مقتدرہ کی سیاسی مداخلت پر اعتراض کیوں نہیں تھا؟ اب دو سال میں اس کے سوا کیا فرق پڑا ہے کہ ایوان میں جے یو آئی کی موجودگی بہت کم ہے۔ تو اسے مولانا کا اصولی مؤقف کیسے کہا جاسکتا ہے؟
سوال مقتدر حلقوں سے بھی ہیں‘ اور وہ بہت بڑے سوال ہیں۔ یہ عبوری دور کتنے عرصے تک جاری رہ سکتا ہے؟ جو کچھ ہوا اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں اور جو کچھ اب ہو رہا ہے اس کے نتائج بھی دور نہیں‘ تو آخر کب تک؟ اور حکومت سے تو لاتعداد سوال ہیں۔ الیکشن کمیشن اور انتخابی ٹربیونلز کے دم پر کتنی دیر حکومت چلائی جا سکتی ہے؟ تحریک انصا ف پر پابندی دیر تک نہیں رہ سکتی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اگر فارم 45اور فارم 47کے تضادا ت پر بھی فیصلے آنا شروع ہوگئے تو اسمبلی میں آپ کی اصل تعداد کتنی رہ جائے گی؟ تجربہ کار مچھیرے بپھرے سمندر کو پہچانتے ہیں۔ وہ اس میں کشتیاں نہیں لے جاتے۔ اونچی لہریں سیاسی سمندر میں بھی اُٹھ رہی ہیں اور نہیں معلوم کہ کتنی بلند ہوں گی۔ سمندر موج میں ہو تو اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کب بپھر جائے اور کتنا نقصان کرے۔ کناروں پر بسنے والے سب سے پہلے بپھرے سمندر کی زد میں آتے ہیں‘ لیکن کناروں پر رہنے‘ سمندر میں نہانے کا شوق ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved