بہت سے واقعات ناقابلِ فہم ہیں اور پُراسرار بھی۔
عشروں سے سیاست میری دلچسپی کا موضوع ہے۔ مہارت کا دعویٰ نہیں مگر اب ایسا بھی نہیں کہ اس میدان میں طفلِ مکتب ہوں۔ سیاست میں پیش آنے والے واقعات نے بارہا حیران کیا مگر اُن کے مالہ وما علیہ کی تفہیم میں زیادہ تردد نہیں ہوا۔ یہ پہلی بار ہے کہ گرد و پیش میں اُبھرنے والے مناظر کا سیاق معلوم ہے نہ سباق۔ کوئی کچھ کہہ دے‘ نہ تردید کے لیے کوئی دلیل موجود ہے اور نہ تائید کے لیے کوئی شہادت۔ تین مثالیں آپ کی خدمت میں رکھتا ہوں۔ اگر آپ ان کی کوئی تاویل کر سکیں تو اس خاکسار کی بھی راہ نمائی فرمائیں۔
پہلی مثال: سات دن سے اسلام آباد راولپنڈی کے سنگم پر ایک دھرنا ( گزشتہ روزمذاکرات کے بعد ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا)۔ میری رہائش راولپنڈ ی میں ہے اور روزگار اسلام آباد میں۔ روزانہ آنا جانا ہوتا ہے۔ فیض آباد بند ہے اور متبادل راستے سے پندرہ منٹ کا فاصلہ کم از کم ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ وقت کے ضیاع کے علاوہ پٹرول چار گنا خرچ ہو رہا ہے۔ میں ہی نہیں‘ میری طرح لاکھوں افراد ہر روز اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے ایک سنجیدہ میزبان کے مطابق ہر دن ساڑھے چار لاکھ گاڑیاں فیض آباد سے گزرتی ہیں۔ سات دن سے یہ راستہ بند ہے۔
اس میں ناقابلِ فہم یہ ہے کہ ان سات دنوں میں مرکزی یا صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے اہلِ دھرنا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ان سے مذاکرات ہوئے نہ کوئی اقدام ہوا۔ مطالبات اتنے سادہ ہیں کہ ایک اے سی سطح کا آدمی محض آدھ گھنٹے میں پورے کر سکتا ہے۔ جیسے اہلِ غزہ کے لیے امدادی اشیا کی ترسیل کا مطالبہ۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی۔ اب اس مطالبے کو تسلیم کرنے میں کیا مانع ہے جو پہلے سے تسلیم شدہ ہے؟ دھرنے کا علاقہ اسلام آباد میں شامل ہے اور راولپنڈی میں بھی۔ کسی کو یہ تکلیف دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں‘ جس میں جڑواں شہروں کے مکین سات دن سے مبتلا ہیں۔ ماضی میں دھرنے ہوتے تھے تو عوام کسی کے بتائے بغیر یہ جانتے تھے کہ کون لایا ہے اور کیوں؟ کب اٹھائے جائیں گے اور کیسے؟ ایک ایسے ہی دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب نقاب اُلٹ دیے تھے۔ اس بار کوئی نہیں جانتا کہ کون لایا ہے اور کیوں؟ خود سے آئے ہیں تو کیسے؟ پنجاب اور مرکز کی حکومتیں شہریوں کی تکلیف سے اتنی لاتعلق کیوں ہیں؟
دوسری مثال: ایک دن اچانک عوام نے ایک پریس کانفرنس سنی کہ تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور اس کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ یہ بتایا گیا کہ اتحادی جماعتوں سے بھی مشاورت ہو چکی۔ ہر کوئی انگشت بدنداں تھا کہ ایک سیاسی جماعت کیسے یہ ارادہ کر سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا رجحان مخصوص نشستوں کے باب میں اس کے فیصلے سے واضح ہے۔ پھر سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ایک مقبول جماعت پر پابندی عملاً ممکن نہیں ہوتی۔ جو بات ایک عام شہری کے لیے قابلِ فہم ہے وہ عشروں کا سیاسی تجربہ رکھنے والی جماعت کی قیادت کے لیے کیسے ناقابلِ فہم بن گئی؟
ہماری تاریخ سے کئی شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ مقبول سیاسی قیادت کے خلاف یہ حربہ ناکام رہتا ہے۔ اس معاملے کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ اگر مقدمہ سچا ہو تو بھی عوامی عدالت میں جیتا نہیں جا سکتا۔ گویا یہ فیصلہ حالات کے درست فہم پر مبنی ہے نہ سیاسی بصیرت ہی کا کوئی قابلِ فہم مظاہرہ ہے۔ حسبِ توقع اتحادیوں سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس فیصلے سے اعلانِ برأت کر دیا۔ یہ فیصلہ جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے کہ ایک سیاسی جماعت اور حکومت اس طرح کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
تیسری مثال: افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کے ہاتھوں ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔ طالبان کو برسرِ اقتدار لانے میں ہم نے ساری دنیا کی دشمنی مول لی۔ جب اُن پر زمین تنگ ہوگئی تو ہم نے اپنے مفادات کو داؤ پر لگا کر ان کو پناہ دی۔ خیال یہی تھا کہ جب افغانستان میں ان کی حکومت قائم ہو جائے گی تو اس طرف سے ہمارے لیے تازہ ہوا کا جھونکا آئے گا۔ اسلامی اخوت کی بادِ بہار چلے گی اور فضا نعرۂ تکبیر سے معمور ہو جائے گی۔ اب ہوا کیا؟ ہمارے جتنے جوان افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کے ہاتھوں شہید ہوئے‘ اتنے بھارت کے ساتھ جنگ میں کام نہیں آئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں عالمی دباؤ کے پیشِ نظر بعض ایسے واقعات ہوئے جو نہ ہوتے تو اچھا تھا۔ جیسے مُلا عبدالسلام ضعیف کو امریکہ کے حوالے کرنا اور بین الاقوامی آداب کو نظر انداز کرنا۔ اس پر طالبان کی ناراضی بلاجواز نہیں۔ تاہم رائے کسی انفرادی واقعے سے متاثر ہو کر نہیں‘ اجتماعی رویے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر پاکستان طالبان کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا تو ان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا امکان نہیں تھا۔ اس کا احساس‘ عقلِ عام تقاضا کرتی ہے کہ طالبان کی قیادت کو ہونا چاہیے۔ جو بات ناقابلِ فہم ہے وہ یہ کہ طالبان کے عہدِ اقتدار میں افغانستان ان لوگوں کی پناہ گاہ بن گیا ہے جو پاکستان کی فوج اور عوام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین نفرت بڑھ رہی ہے۔ میرے لیے یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ دونوں طرف کی حکومتیں کیا اتنا شعور نہیں رکھتیں کہ مل کر اس مسئلے کو حل کر سکیں؟ کیا ان کے مابین تعلقات کی تشکیل میں عام اخلاقیات اور مذہبی جذبات کا کوئی کردار نہیں؟ اسلامی اخوت‘ کیاایک بے معنی نعرہ ہے اور اصل حقیقت قومی مفادات کی ہے؟ امتِ مسلمہ کا تصور کیا ہوا؟
کچھ مثالیں اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں جو میرے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔ اردگرد ایسے پُراسرار واقعات پیش آرہے ہیں کہ سیاست کو سمجھنے میں ایک عمر بسر کرنے کے باوجود ان کی کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی۔ کبھی احساس ہوتا ہے کہ جو سیاست کے حقیقی کردار ہیں شاید وہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا اگلا قدم کہاں پڑے گا۔ سب وقت کے جبر کا شکار ہیں۔ سب نے خلا میں چھلانگ لگا دی ہے اور خو د کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اگر یہ احساس درست نہیں تو پھر ان واقعات کی کوئی قابلِ فہم توجیہ کیوں ممکن نہیں؟
میں نے علمِ سیاسیات کو باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھا ہے۔ کارل مارکس‘ ٹائن بی‘ ابنِ خلدون‘ پال کینیڈی سمیت بہت سے فلاسفہ اور ماہرینِ عمرانیات نے قبائلی اور جدید ریاستوں کو سمجھنے کے بعد ان کے عروج و زوال کے چند اصول اخذ کیے ہیں۔ میں آج جب اس مملکتِ خداداد پر ان کا اطلاق کرنا چاہتا ہوں تو ناکامی ہوتی ہے۔ بس اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کو 'مملکتِ خداداد‘ کیوں کہتے ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں جو بات سب سے زیادہ ناقابلِ فہم ہے‘ وہ اربابِ حل و عقد کی بے اعتنائی ہے۔ یہ بے خبری کی علامت ہے یا بے حسی کی؟ اگر بے خبری ہے تو یہ اولاد اور ذاتی مفادات کے حوالے سے کیوں نہیں ہے؟ کیا ان اربابِ اقتدار میں سے کوئی ایک ایسا ہے جس کے بچے ترقی یافتہ ممالک میں آباد نہ ہوں؟ اگر وہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں تو ان کی اولاد اپنا مستقبل اس ملک سے وابستہ کیوں نہیں کرتی؟
میرے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ سیاست اور سیاسی کرداروں کی چالیں میرے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔ علمِ سیاسیات ہو یا عمرانیات کا علم‘ سب علوم اس صورتِ حال کی تفہیم سے عاجز ہیں۔ اگرآپ میری مدد کر سکیں تو پیشگی شکریہ قبول فرمائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved