تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-07-2024

اطلاعاً عرض ہے

امریکہ میں فی الوقت دو موضوعات پر گرما گرم گفتگو عروج پر ہے۔ جو لوگ امریکی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ تو ٹرمپ پر ہونے والے حالیہ قاتلانہ حملے پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور جو پاکستانی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں‘ وہ پاکستان میں تحریک انصاف پر متوقع پابندی پر اپنی شعلہ گفتاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو امریکی اور پاکستانی سیاست میں یکساں دلچسپی رکھتا ہے‘ ان کے نزدیک یہ دونوں معاملات ایک جیسے ہیں اور وہ انہیں ایک ہی پلڑے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کے خیال میں امریکی اسٹیبلشمنٹ جس طرح ٹرمپ سے جان چھڑانا چاہتی ہے پاکستانی مقتدرہ بھی عین اسی طرح عمران خان سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن دونوں کے پاس اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے نہ تو کوئی ٹھوس منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی راستہ سجھائی دے رہا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ عین اسی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ گھوڑا تھا جس طرح 2018ء میں عمران خان ہماری مقتدرہ کا پسندیدہ امیدوار تھا۔ اب دونوں ہی اپنے اپنے سابقہ محبوب سے خلاصی چاہتے ہیں لیکن جن بوتل سے باہر نکل چکا ہے اور اب اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے کا کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔
گزشتہ روز ڈیٹرائٹ میں اپنے دوست نوید اشرف کے پاس بیٹھا تھا اور گفتگو کا موضوع سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔ بقول اُس کے وہ سیاست میں آمد سے بھی بہت پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی تھا بلکہ اس کا خیال ہے کہ ٹرمپ سیاست میں آنے سے پہلے تقریباً سبھی امریکیوں میں پسند کیا جاتا تھا۔ اگر پسند نہیں بھی کیا جاتا تھا تو کم از کم نا پسند ہرگز نہیں کیا جاتا تھا۔ ٹویوٹا کار کے متعلق ایک جملہ عام ہے کہ Nobody dislike it یعنی کوئی شخص اسے ناپسند نہیں کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی یہی حال تھا۔ شہرت کیلئے تگ ودو کرنے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہونے والا دولتمند ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نوعیت کا ایک ایسا بے ضرر شخص تھا جو صرف میڈیا میں رہنے کیلئے بھاگ دوڑ کرتا رہتا تھا اور اس پر پیسے خرچ کرکے بے مزا نہیں ہوتا تھا۔ اس نے شاید یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کسی روز امریکی صدر بن جائے گا۔ اس کی خواہش تو بس میڈیا‘ خبروں اور کہیں نہ کہیں دکھائی دے کر شہرت حاصل کرنا تھا۔ کاروبار اسکا پیشہ جبکہ خوبصورت خواتین سے افیئر چلانا اور شادیاں کرنا اس کے شوق تھے۔ یہ چیزیں امریکہ میں معیوب نہیں اس لیے بھلا عام امریکی کو اس کے ان معاملات سے کیا لینا دینا؟ میڈیا میں رہنے اور اپنی شکل کسی نہ کسی طرح پبلک میں دکھانے کی حد تک وہ فلم سازوں کو پیسے دے کر فلموں میں‘ خواہ چند لمحوں کیلئے ہی سہی‘ اپنی انٹری دے کر خوش ہو جاتا تھا۔اب ایسے بے ضرر اور بھلے آدمی سے کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا تھا؟
وہ تو اسے وائٹ ہاؤس میں اپنی بے عزتی پر غصہ آ گیا( اللہ جانے اس بات میں کتنی سچائی ہے اور کتنی رنگ آمیزی مگر راوی یہی بتاتا ہے) اور وہ نہ صرف سیاست میں کود پڑا بلکہ اس نے اپنا مطمح نظر وائٹ ہاؤس میں پہنچنا بنا لیا اور عوامی سطح پر کسی حد تک احمق اور بیوقوف (لیکن حقیقت میں ایک کائیاں) بزنس مین کے امیج کا حامل ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انہی خوبیوں کے باعث امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں آ گیا اور انہیں اپنے بعض نا تکمیل شدہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ٹرمپ ایک نہایت ہی کارآمد شخص دکھائی دیا۔ انکا خیال تھا کہ شہرت کیلئے ہمہ وقت سرگرداں اس شخص کو جب صدرِامریکہ بنا دیا جائے گا تو اس کیلئے بس یہی کافی ہوگا اور اس سے اپنی مرضی کی ہر بات منوانا اسٹیبلشمنٹ کے بائیں ہاتھ کا کام ہوگا۔ وہ بطور صدر اسٹیبلشمنٹ کے پیش کردہ ہر منصوبے اور تجویز پر بلاچون و چرا انگوٹھا لگا دے گا لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ بڑبولا ٹرمپ اصل میں بھی ویسا ہی نکلا جیسا وہ اپنی گفتگو سے معلوم ہوتا تھا‘یعنی وہ صرف خالی خولی بڑبولا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے بڑبولے پن میں جو کچھ کہتا تھا‘ بعد میں وہ وہی کچھ کرنے پر آ گیا جو اسے لانے والوں کیلئے قابلِ قبول نہیں تھا۔ اس کو پہلی بار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں کامیاب کروانے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے سی آئی کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی بطور وزیر خارجہ بعض ایسی متنازع ای میلز منظرِ عام پر لائی گئیں جو اس انتخابی موسم میں اس کے خلاف گئیں اور اس کی جیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں۔
اب گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونیوالے امریکی صدر جوبائیڈن امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ گھوڑے ہیں۔ باوجودیکہ وہ یادداشت‘ صحت اور اعصاب کے حوالے سے ایک ایسے شخص ہیں کہ ان کا مقام وائٹ ہاؤس کے بجائے ایک ایسا اولڈ ہوم ہونا چاہیے جہاں ان کی خاطر خدمت کی جائے‘ ان کے پاؤں دبائے جائیں اور ان کا پوری طرح دھیان رکھا جائے‘ نہ کہ ان پر امریکی صدارت جیسی عظیم ذمہ داری لادی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو دراصل ایسے ہی صدر کی ضرورت تھی جو نہ صرف یہ کہ کسی قوتِ فیصلہ سے محروم ہو بلکہ اس کی یادداشت بھی اس قابل نہ ہو کہ وہ اس کے زور پر کوئی سوال یا اعتراض کر سکے۔ صدر جوبائیڈن ان تمام خوبیوں پر پورے اترتے ہیں۔ بقول ہمارے ایک دوست کے دنیا بھر میں جہاں جہاں اسٹیبلشمنٹ کا داؤ چلتا ہے وہ ایسی قسم کی ڈوریوں کے ذریعے ہلائی جانے والی کٹھ پتلیوں کا انتخاب کرتی ہے اور جب کوئی کٹھ پتلی خود سر ہو جاتی ہے یا از خود کچھ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ سیاسی طاقت یا عوامی حمایت سے مزاحمت کرنے کی کوشش کرے تو اسے نمونۂ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں اسٹیبلشمنٹ طاقتور اور فیصلہ کن ہوتی ہے وہاں اقتدار کی شوقین کٹھ پتلیاں بھی بکثرت دستیاب ہوتی ہیں۔
میں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں کہ اس پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر سکوں مگر امریکی دوستوں کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت دراصل اسکی جنگی مشینری کے چلتے رہنے کا نام ہے۔ امریکہ نے گزشتہ ایک سو سال میں ہمیشہ کسی نہ کسی جنگ میں سینگ پھنسائے رکھے ہیں۔ خواہ اس کو اس جنگ میں فتح ہو یا شکست‘ اسکی دفاعی صنعت بہرحال اس جنگ کے طفیل چلتی رہتی ہے اور دنیا بھر کی جنگیں امریکی حربی معیشت کیلئے خام مال ثابت ہوتی ہیں۔ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں حکومت کیلئے سونے کی چڑیاں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے ذریعہ آمدنی کہ ہر دو فریق نہ صرف ساجھے دار ہیں بلکہ یہ کمپنیاں امریکی صدارتی الیکشن میں بہت بڑی ڈونر بھی ہیں۔ امریکہ کی جنگی مشینری پچھلے تقریباً ایک سو سال سے مسلسل چل رہی ہے اور جنگیں جہاں دنیا بھر کیلئے تباہی و بربادی کا پیغام لے کر آتی ہیں‘ امریکہ کیلئے خوشحالی‘ لوٹ مار اور تاوان وصول کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ عراق کی جنگ ہو یا لیبیا میں مداخلت‘ افغانستان کا تنازع ہو یا یوکرین کی جنگ۔ امریکہ ہر بار کسی ملک کی تباہی سے اپنے لیے نفع کشید کر لیتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عرصے کے بعد ایسا صدر آیا تھا جو کہتا تھا کہ وہ امریکہ کو مزید کسی جنگ میں نہیں دھکیلے گا اور اسکا دور اس لحاظ سے شاید امریکہ کا گزشتہ کئی عشروں میں پہلا دور تھا جب امریکہ نے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھلا ایسا صدر کہاں وارے کھاتا ہے جو دوسری ملکوں کی تباہی و بربادی سے منافع پیدا کرنے کے بجائے امن و آشتی کی قیمت پر امریکہ کی خوشحالی پر لات مارے؟
سو اسے الیکشن سے دور رکھنے‘ مقدموں میں پھنسانے اور دیگر حربوں سے خوفزدہ کرنے کے پیچھے طاقتور امریکی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ دیگر ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملتے جلتے حالات محض اتفاق ہیں اور اس کالم کا ایسے دیگر مماثلتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اطلاعاً عرض ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved