تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     20-07-2024

ہم کب تک تماشا بنتے رہیں گے؟

کل ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کرنے والے آج اسی زبان سے پارلیمنٹ کی اکثریتی پارٹی پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ ہمیں پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست سے ہزار اختلافات ہیں مگر ہم اس غیر جمہوری‘ غیر آئینی‘ غیر سیاسی اور غیر اخلاقی مطالبے کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے ذریعے بھاری پتھر پھینک کر ردِعمل کا جائزہ لینے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ بقول اقبال ساجد ؎
دہر کے اندھے کنویں میں کَس کے آوازہ لگا
کوئی پتھر پھینک کر پانی کا اندازہ لگا
اسی جماعت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف اور قومی سلامتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ گزشتہ ستر برس کے دوران ہم نے اسی ''قومی سلامتی‘‘ کے گرداب میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے اپنا یہ حشر کر لیا ہے۔ کبھی کہا گیا کہ مولانا مودودی اور قومی سلامتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ چھ جنوری 1964ء کو صدر ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا مگر 25 ستمبر 1964ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اے آر کار نیلئس اور اُن کے ساتھی ججوں نے جماعت کو بحال کر دیا۔کبھی کہا گیا مجیب الرحمن اور قومی سلامتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔پھر نعرہ لگا ذوالفقار علی بھٹو اور قومی سلامتی کا ساتھ چلنا ممکن نہیں۔ پھریہی بات نواز شریف کے بارے میں کہی گئی اور آج یہی کچھ پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ آخر ہم ہر اکثریتی پارٹی کا راستہ بزورِ شمشیر روکنے پر کیوں تل جاتے ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کا یہ سارا ردِعمل سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ 12جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کے مطابق نہ صرف پی ٹی آئی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ایک قانونی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکے گی بلکہ اسے اقلیتوں اور خواتین کی ریزرو سیٹوں میں سے بھی اپنا حصہ ملے گا۔ اقتدار میں شامل تین‘ چار جماعتوں کے علاوہ ملک کی ہر سیاسی جماعت ‘ میڈیا اور دانشوروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور مسلم لیگ (ن) کی سوچ کو نشانۂ تنقید بنایا ہے۔
اس وقت ملک کو افراتفری‘ انتشار‘ انارکی اور آمرانہ روش سے بچانے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے ۔ سرحدوں پر اور شہروں میں امن و امان‘ معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ کیا یہ بات ایٹمی قوت‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شایانِ شان ہے کہ اس کے پاس صرف نو‘ دس بلین ڈالر کا زرِ مبادلہ ہو‘اور اس کی شرحِ نمو دو‘ اڑھائی فیصد ہو اور کشکولِ گدائی‘ جس میں اپنے پرائے سمیت کوئی خیرات ڈالنے پر آمادہ نہ ہوں۔ 76برس کے دوران ہمارے ہر حاکم نے عوام کو پسِ پشت ڈال کر محض ذاتی اقتدار کیلئے ماورائے آئین آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے ۔ پیپلز پارٹی ‘جو اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتی ہے‘ وہ بھی درپردہ (ن) لیگ کے ساتھ ایک غیر جمہوری واردات میں شریک ہے۔
عالمی ریٹنگ ایجنسی فِچ کے مطابق یہ حکومت اٹھارہ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی‘ اس کے بعد ٹیکنو کریٹ حکومت آئے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئینی بریک ڈاؤن کا خطرہ ہے۔ خدارا! ان آئین شکن راستو ں سے اجتناب کیجئے اور اداروں کو مضبوط کیجئے۔ پاکستان کے سارے سیاسی و غیر سیاسی زعما ذرا اپنے گرد و پیش نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ساتھ آزادی اور ترقی کا سفرکرنے والے کہاں جا پہنچے ہیں اور ہم بار بار انہی غلطیوں کو دہرا کر اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں ۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ عدلیہ جتنی مضبوط ہو گی‘ پارلیمنٹ جتنی بااختیار ہوگی‘ مقتدرہ اپنے مقرر کردہ دائرے میں جتنی سرگرم عمل ہوگی اور ملک سیاسی طور پر جتنا مستحکم ہوگا اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ اس وقت بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے ہاتھوں پاکستان کے 80 فیصد لوگ بلبلا اُٹھے ہیں۔ ہمیں ان کی فکر کرنی چاہیے۔ ہمارے سیاستدانوں اور مقتدرہ کو 76 سالہ پہاڑ جتنی غلطیوں کو دہرانے سے توبۃ النصوح کر لینی چاہیے ۔ من حیث القوم ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ دنیا میں مزید تماشا بننے کا سلسلہ اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دینا چاہیے۔
کینسر کیئر ہسپتال صرف ہسپتال نہیں یہ معجزوں کی دنیا ہے۔ کینسر جتنا موذی مرض ہے اتنا ہی اس کا علاج مہنگا ہے۔ غریب ہی نہیں امیر بھی اپنے پیاروں کا علاج کراتے کراتے اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بلاشبہ لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال نے ہزاروں غریب مریضوں کا مفت علاج کیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس کے باوجود پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک اور کینسر ہسپتال کی شدید ضرورت تھی۔ گزشتہ دنوں ہم نے سینئر صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ بچشمِ خود دیکھا کہ عالمی معیار کے اس ہسپتال اور ریسرچ سنٹر نے محض پانچ برس کے قلیل مدت میں ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا ہے اور یہ کارِ خیر روز افزوں ہے۔ایسے بڑے منصوبے اس وقت تک بروئے کار نہیں لائے جا سکتے جب تک کہ اُن کے پیچھے کوئی نہ کوئی اہلِ جنوں نہ موجود ہو۔ کینسر کیئر کے اس صاحبِ جنوں کا نام پروفیسر ڈاکٹر شہر یار ہے۔ کئی دہائیوں تک میو ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے علاج کرنے کے بعد انہوں نے اللہ کے بھروسے‘ دوستوں کی مدد اور اہلِ خیر کے تعاون سے رائیونڈ روڈ پر 27ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک عظیم عالمی معیار کے کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ یہاں نہ صرف زکوٰۃ کے مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے بلکہ سفید پوشوں سے بھی لاکھوں نہیں طلب کیے جاتے۔ بس اُن سے اتنا کہا جاتا ہے کہ آپ کے علاج کا خرچہ چاہے لاکھوں روپے ہو مگر آپ جتنا ادا کر سکتے ہیں‘ اتنا ادا کر دیں۔
ہم نے یہاں آؤٹ ڈور میں سینکڑوں مریضوں کو ایئرکنڈیشنڈ ہال میں نہایت آرام دہ ماحول میں ڈاکٹروں کے کمروں میں آتے جاتے دیکھا۔ ہسپتال میں ریڈیو تھراپی‘ سرجری‘ کیمو تھراپی کے شعبے نہایت جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ 400 بیڈ کا ہسپتال ہے جہاں کسی بھی سٹیج کے مریض کو علاج سے انکار نہیں کیا جاتا۔ میں نے ڈاکٹر شہر یار سے پوچھا کہ لاکھوں روپے کا یہ علاج مفت کیسے کیا جاتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ علاج ہم نہیں مریضوں کا خدا کرتا ہے۔ بلامبالغہ کئی اصحابِ خیر آ کر لاکھوں روپے کے عطیات دے جاتے ہیں اور اپنا نام تک نہیں بتاتے۔ اسی طرح تاجر حضرات بھی کروڑوں کی مشینری ہسپتال کو فراہم کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور بڑا کارنامہ عالمی شہرت رکھنے والے ڈاکٹروں‘ پیرامیڈیکل سٹاف اور دفتری عملے کی ایک ایسی رضا کار ٹیم کی تشکیل ہے کہ جن میں سے بعض بالکل بلامعاوضہ اور بعض برائے نام تنخواہ پر نہایت لگن کے ساتھ رات دن کام کر رہے ہیں۔ ایڈوانس سٹیج کے مریضوں کے علاج کیلئے ''پیلٹو کیئر‘‘ یعنی مریضوں کو مایوسی اور تکلیف سے بچانے اور اُن کی طبی‘ نفسیاتی اور روحانی دلجوئی کے شعبے کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر ریاض الرحمن ہیں۔ یہ مایوس مریضوں کا دل جیت لیتے ہیں اور انہیں زندہ دلی کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑے آدمی‘ سابق چیف جسٹس حمود الرحمن کے صاحبزادے ہیں۔
قارئینِ کرام! اللہ آپ اور آپ کے پیاروں کو اس موذی مرض سے محفوظ رکھے مگر کرشموں کی اس دنیا کو وزٹ ضرور کریں اور آن لائن اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved