کسی بھی ملک کی معیشت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ سیاسی استحکام ہی معاشی استحکام کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسی لیے جب عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کسی ملک کی معاشی صورتحال پر رپورٹ جاری کرتی ہیں تو وہ عموماً سیاسی حالات پر بھی ایک رپورٹ مرتب کرتی ہیں۔ عمومی طور پر سیاسی صورتحال پر بنائی گئی رپورٹ شائع نہیں کی جاتی لیکن معیشت پر رائے دینے کے لیے اسے استعمال ضرور کیا جاتا ہے۔ معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے ''Fitch‘‘ کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجودہ حکومت 18ماہ تک قائم رہ سکتی ہے اور اس کے بعد ٹیکنوکریٹس کی حکومت آ سکتی ہے جبکہ عمران خان کم از کم مستقبل قریب تک جیل میں ہی نظر آ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود 20.5فیصد سے کم کر کے 16اور پھر 14 فیصد تک لا سکتا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا رجحان برقرار رہے گا۔ ملک میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فچ نے کسی ملک میں نئی حکومت بننے کی نہ صرف پیشگی خبر دی بلکہ اس کی فارمیشن بھی بتائی۔ بہت سے حلقوں کے لیے یہ معاملہ حیران کن ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فچ کے ذیلی ادارےBMI نے کن بنیادوں پر یہ رپورٹ جاری کی ہے۔ کیا ان کے پاس کوئی مستند سورس (Source) ہے یا یہ خالصتاً ذاتی تجزیے کی بنیاد پر یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔
اگر ماضی کی رپورٹس کو مدنظر رکھا جائے تو مجھے یہ ذاتی تجزیہ معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں چوبیس وزیراعظم آ چکے ہیں اور کسی بھی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی ہے۔ اوسطاً اڑھائی یا تین سال بعد وزیراعظم تبدیل ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو پانچ ماہ ہو چلے ہیں۔ 18ماہ بعد اس حکومت کو آئے 23ماہ ہوئے ہوں گے۔ اگر پاکستان میں ایک وزیراعظم کی اوسط مدت کو نظر میں رکھا جائے تو یہ تخمینہ درست بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان اداروں کے دنیا بھر کے ممالک میں جاسوس موجود ہوتے ہیں جو انہیں اندرونی خبریں دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عالمی طاقتوں کی ایجنسیاں تو یہ خرچ برداشت کر سکتی ہیں لیکن معاشی درجہ بندی کے ادارے پوری دنیا میں اپنے جاسوس اور خبری رکھنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ ان اداروں سے اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی ملک سے متعلق رپورٹ بنوانا چاہتا ہے تو 1600 سے 1800 ڈالرز کی فیس ادا کر کے رپورٹ بنوا سکتا ہے۔ لہٰذا محدود آمدن میں پوری دنیا میں جاسوسی کے لیے ٹیم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اکثر اس طرح کی رپورٹس سرمایہ کاری کرنے والے ممالک یا کمپنیاں بنواتی ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ فلاں ملک میں ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہے یا نہیں۔ عموماً ایجنسیز خود بھی کسی ملک یا خطے سے متعلق رپورٹ جاری کرتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر اُس وقت جب تیزی سے معاشی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں۔ آئی ایم ایف سے حالیہ معاہدے نے ملک میں معاشی استحکام کے لیے امید بندھائی تھی۔ موڈیز اور آئی ایم ایف مثبت خبریں دے رہے تھے۔ آئی ایم ایف نے شرح نمو 3.2فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ موڈیز بھی بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پُرامید نظر آرہا تھا لیکن بی ایم آئی کی رپورٹ کے بعد مارکیٹ میں منفی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری ہفتے کے آخری روز سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ سٹاک ایکسچینج 1900پوائنٹس نیچے گری۔ 13 جولائی کو ہفتے کے آغاز پر آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ کے ایس ای 100 انڈیکس 1211 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 81 ہزار کی حد عبور کر گیا تھا۔ اگر سرمایہ کار ایک رپورٹ کی بنیاد پر مارکیٹ گرا رہے ہیں تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ 81 ہزار کی مارکیٹ میں 1900پوائنٹس کا گرنا تقریباً سوا دو فیصد کمی بنتی ہے‘ جو ایک دن کے حساب سے بہت بڑی گراوٹ ہے۔ ماضی کے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ گراوٹ عارضی ہو سکتی ہے کیونکہ حکومت اور آئی ایس ایف سی سٹاک مارکیٹ کے مستقل گرنے کو افورڈ نہیں کر سکتے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سٹاک مارکیٹ کا بہتر ہونا ازحد ضروری ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیصلہ سازی کے لیے بی ایم آئی کی رپورٹ پر انحصار کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رپورٹ متضاد دعوے کر رہی ہے۔ ایک طرف یہ رپورٹ سیاسی انتشار اور اگلے اٹھارہ ماہ میں حکومت کی تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے اور دوسری طرف ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے کے لیے پُرامید بھی ہے۔ اگر حکومت محض ڈیڑھ سال تک ہی مزید باقی رہے گی تو ایسے ماحول میں سرمایہ کار اپنا سرمایہ لگانے کا خطرہ کیوں مول لیں گے؟
جہاں تک چینی سرمایہ کاری کی بات ہے تو اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان میں حالات اچھے ہوں یا برے‘ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہتا ہے۔ اصل کامیابی اس وقت حاصل ہو گی جب چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان اس وقت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ اس حوالے سے تقریباً دو سال سے بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں تاہم ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستان میں اس وقت بیرونی سرمایہ کاری 50 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ فچ اور اس کے ذیلی ادارے بی ایم آئی سے رابطہ کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کن بنیادوں اور کس کی درخواست پر انہوں نے یہ رپورٹ جاری کی ہے۔
حکومت بھلے اس رپورٹ کو غیر حقیقی قرار دے یا پروپیگنڈا سمجھے لیکن اہم بات یہ ہے کہ دنیا اس رپورٹ کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ عالمی اداروں میں بھارتی لابنگ بھی کافی مضبوط ہے اور پاکستانی معیشت کو دھچکا پہنچانے کے لیے ہمارا پڑوسی اس طرح کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ اگر حکومت فچ سے نئی رپورٹ جاری کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا کسی طرح کا وضاحتی بیان حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دوست ممالک اصرار کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرنا چاہ رہے ہوں اور انہوں نے ہی یہ رپورٹ بنوائی ہو۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن فی الوقت اس رپورٹ کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کے خدشات زیادہ ہیں۔
دنیا میں معاشی درجہ بندی کے تین بڑے ادارے ہیں۔ ایس اینڈ پی گلوبل‘ موڈیز اور فچ۔ ان تمام اداروں کی رپورٹس کو مستند مانا جاتا ہے لیکن ماضی میں ان کے کئی اعداد و شمار غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں ان سبھی اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان جلد ڈیفالٹ کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شرح نمو‘ مہنگائی اور خسارے کے حوالے سے بھی اعداد و شمار کئی مرتبہ غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ عملی میدان میں ان رپورٹس کو حتمی کہنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اس پہلو کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت رپورٹ جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بعض اوقات عوام کی ذہن سازی اور عوامی و سیاسی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے بھی اس طرح کی رپورٹس جاری کی جاتی ہیں۔ ملک میں اس وقت سیاسی بحران تو موجود ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان اور اقوام متحدہ سے منظور ہونے والی قراردادیں بلاوجہ نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی ایوانوں میں کھچڑی پکنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ آئینی ترامیم اور ٹیکنوکریٹ حکومت سے متعلق گفتگو زبان زدِ عام ہے مگر ان حالات میں ملک کو مزید کسی سیاسی بحران میں دھکیلنا یا نئے تجربے میں ڈالنا سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved