تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     20-07-2024

یاد نامۂ داؤدی

میں رواں سال اپریل میں پاکستان گیا تو اپنی وکلا برادری سے بہت سے شہروں میں ملاقات ہوئی اور تبادلۂ خیال بھی۔ ان کا بھلا ہو کہ انہوں نے وطنِ عزیز سے دور رہنے والے اپنے بھولے بسرے بزرگ ساتھی کی باتیں (کئی نکات پر اختلافِ رائے کے باوجود) بڑی توجہ‘ دلچسپی اور صبر و تحمل کے ساتھ سنیں اور عمر رسیدہ سیاسی کارکن کا حوصلہ بڑھایا۔ مجھے گھپ اندھیری رات میں دور اُفق پر درخشاں طلوعِ سحر کی مدھم روشنی دکھائی۔ اس بہار کے ابتدائی جھونکوں سے روشناس ہوا جو (بقول اقبال) فصلِ خزاں میں ٹوٹ جانے والی ڈالی کو پھر ہری کر دینے کا کرشمہ سرانجام دیتی آئی ہے۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار۔ پاکستان میں ایک ماہ طویل قیام کا آغاز لاہور سے ہوا اور لاہور میں حسبِ معمول میجر جنرل (ر) زاہد مبشر صاحب کے گھر سے۔ شمائلہ صاحبہ اور ان کے ہنر مند خانساماں نے اپنی مشترکہ اور ہمیشہ کی طرح بے حد کامیاب کوشش سے برطانیہ سے آئے اس مہمان کی خوش خوراکی کا بڑی اپنائیت اور چاؤ سے اہتمام کیا۔ کافی پینے کے بعد ہماری گفتگو کا رخ ایک علمی موضوع کی طرف مڑ گیا اور وہ تھا پرانی تاریخی دستاویزات اور ہاتھ سے لکھی ہوئی نادر کتابیں۔ آپ میری حیرت اور خوشی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میزبان گھرانے نے مجھے دو ایسی کمال کی کتابوں کی زیارت کرائی۔ ظاہر ہے کہ میں نے پوچھا کہ وہ خاتونِ خانہ کے پاس کس طرح پہنچیں؟ ان کا جواب مزید خوشگوار حیرت کا موجب بنا ''میرے مرحوم والد صاحب کے توسط سے‘‘۔ اس ذہین خاتون نے بھانپ لیا کہ میں اب ان پر ان کے عالم فاضل والد مرحوم کے بارے میں سوالات کی بارش کروں گا۔ اس سے پیشتر ہی انہوں نے میرے ہاتھوں میں ایک کتاب تھما دی جس کا نام تھا ''یاد نامۂ داؤدی‘‘ (مرتبین: تحسین فراقی اور جعفر بلوچ)۔ یہ 21 برس پہلے خلیل الرحمن داؤدی صاحب پر لکھے ہوئے عالمانہ مقالے ہیں جو لاہور کے اُردو بازار کے ایک ناشر نے شائع کیے تھے۔ (مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی بھی شامل ہیں)۔ اگلے 133 صفحات پر جناب داؤدی صاحب کی تحریروں کا انتخاب بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ چار صفحات پر داؤدی صاحب کے دو اہم مکتوب (بنام ڈاکٹر وحید قریشی) اور 35 صفحات پر مختلف مشاہیر کے داؤدی صاحب کے نام خطوط شائع کیے گئے۔ کتاب کے آخری دو صفحات جناب داؤدی صاحب کے بارے میں مشفق خواجہ کی کمال کی تحریر سے مزین ہیں۔
جناب داؤدی صاحب کون تھے؟ وہ بھارتی ریاست اُترپردیش کے ضلع میرٹھ کے قصبہ لاوڑ میں 1923ء میں پیدا ہوئے اور 2002 ء میں وفات پائی۔ ایک علمی گھرانے میں انہوں نے آنکھ کھولی جس کی بدولت انہیں خاصا بڑا کتاب خانہ گھر ہی میں مل گیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مذہبی مکتب میں حاصل کی اور سرکاری سکولوں سے ہوتے ہوئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تک پہنچے‘ عربی اور فارسی سے ان کی بچپن سے شناسائی تھی اس لیے اُنہیں علومِ شرقیہ کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ 40ء کی دہائی میں وہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا‘ بعد میں وہ (سید امتیاز علی تاج کے زمانہ میں) مجلسِ ترقیٔ ادب سے شائع ہونے والی کتابوں کے مدیر بنے مگر دائمی شہرت کے ایوان میں انہوں نے اپنا نام نہ صرف بطور محقق لکھوایا بلکہ پاکستان کے تمام بڑے عجائب گھروں کو نادر مطبوعات اور مخطوطات کی فراہمی کے ایک مستند اور قابلِ اعتبار ماہر کی حیثیت سے بھی۔ بدقسمتی سے ان کی مرتب کردہ چار بلند پایہ کتابیں (امتیاز علی تاج کے انتقال کی وجہ سے) شائع نہ ہو سکیں۔ جناب احمد ندیم قاسمی بھی اپنی نظامت کے دوران اُن کتب کی اشاعت نہ کرا سکے۔ ان کے لکھے ہوئے غیر مطبوعہ مضامین کی تعداد 55 ہے جو اُردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہم رابعہ رضوی کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے داؤدی صاحب کے علمی کارناموں پر بڑا معیاری اور تحقیقی مقالہ لکھا اور ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ داؤدی صاحب احتشام حسین‘ آل احمد سرور‘ حسن عسکری‘ وقار عظیم‘ ڈاکٹر عبداللہ‘ مولوی عبدالحق‘ فراق اور مجنوں گورکھ پوری کی طرح اور اُن کے پایہ کے کتاب شناس (Bibliophile) تھے۔ یہ جنس اب نایاب ہو چکی ہے۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اردو ادب کے چاہے کتنے کمزور طالبعلم ہوں اور آپ نے نہ امتیاز علی تاج (انار کلی کے کلاسیک ڈرامہ نگار) کا نام نہ سنا ہو اوریا ان کی اُتنی ہی مشہور رفیقہ حیات حجاب امتیاز علی کا نام نہ سنا ہو۔ ہم امتیاز علی تاج کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے جوہر شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے جناب خلیل الرحمن داؤدی کو مجلسِ ترقیٔ ادب کے ساتھ بطور محقق‘ مؤلف اور مترجم وابستہ کیا۔ امتیاز علی تاج یقینا بڑی خوبیوں کے مالک تھے مگر خوش خطی ان خوبیوں میں ہر گز شامل نہ تھی۔ ان کا طرزِ تحریر وہ ہے جس کیلئے ہم ایک نرم لفظ ''شکستہ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ یہ مکتوب الیہ (داؤدی صاحب) کا ہی کمال تھا کہ وہ مکتوب نگار کی خدمات حاصل کیے بغیر ان کا لکھا ہوا خط پڑھنے میں اس حد تک کامیاب ہو جاتے تھے کہ اس کا جواب بھی لکھ لیتے تھے۔ حجاب امتیاز کے ایک خط کے اقتباس سے قارئین کو یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہو گی کہ اُس دور کی ادبی دنیا کی تمام بڑی شخصیات کے داؤدی صاحب سے ذاتی تعلقات میں کتنی اپنائیت‘ گرم جوشی اور بے تکلفی تھی۔ حجاب امتیاز نے یہ خط 11 مئی 1972ء کو لکھا۔ آپ بھی پڑھیے ۔ ''محترمی داؤدی صاحب! تسلیم ۔ اس دفعہ آپ سے ملنے کا اتفاق ہی نہ ہوا۔ دراصل یہ میری انتہائی پیچیدہ مصروفیات کی وجہ سے ہوا۔ بقول غالب ان ساری پیچیدگیوں سے ''گر فرصت ملی بھی سر اُٹھانے کی‘‘ تو دوسری پریشانیاں گھیرے رکھتی تھیں۔ آپ سے ایک مشورہ لینا ہے۔ آپ کو اتنی دور سے اپنی غرض کیلئے بلانا خود غرضی ہے۔ دعا ہے کہ آپ کراچی کے مقناطیس کی زد میں نہ آگئے ہوں۔ ذرا سوچئے اس زمین و آسمان کے درمیان کراچی کے علاوہ لاہور بھی ہے۔ جواب جلد پہنچانے کی کوشش فرمائیے۔ ایسا نہ ہو کہ آفتاب ہی غروب ہو جائے۔ سوگوار۔ حجاب امتیاز علی‘‘۔
کالم نگار کی کم علمی اور کم مائیگی اسے مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی تحریر کو چوٹی کے ادیب جناب مشفق خواجہ کے کمال کے عالمانہ تبصرے کے زیور سے آراستہ کرے ۔ ''خلیل الرحمن داؤدی ہمارے اُن اہلِ علم میں سے تھے جنہوں نے نام و نمود سے بے پروا ہو کر اور ایک گوشے میں بیٹھ کر ایسے علمی و ادبی کارنامے سرانجام دیے جن سے اہلِ علم و ادب ہمیشہ روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔ وہ اردو اور فارسی زبان سے گہری آشنائی رکھتے تھے۔ وہ ان زبانوں کے مخطوطات (Manuscripts) کا وسیع علم رکھتے تھے۔ وہ دنیا کے تمام کتاب خانوں میں موجود مخطوطات کے ذخائر سے واقف تھے اور انہیں علم تھا کہ کس کتاب کا اہم ترین یا قدیم ترین نسخہ کہاں ہے۔ مخطوطہ شناسی میں حافظ محمود شیرانی (رومانوی شاعر اختر شیرانی کے والد) کے بعد ان جیسا صاحبِ نظر شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ چونکہ یہ فن ان کا ذریعۂ معاش بھی تھا اس لیے بلا مبالغہ ہزاروں مخطوطات سے وہ براہِ راست آگاہی رکھتے تھے‘‘۔
اردو ادب کے حوالے سے داؤدی صاحب نے بڑا وقیع کام کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ادبی تحقیق کے لیے صرف ادبی کتابوں سے استفادہ کرنا کافی نہیں‘ دیگر موضوعات کی کتابوں سے بھی بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ دور ختم چکا ہے جس میں داؤدی صاحب اور اُن جیسے عالم فاضل لوگوں‘ مثلاً مولوی عبدالحق‘ مولوی محمد شفیع‘ نیاز فتح پوری‘ شاہد دہلوی‘ بخاری برادران اور سبط حسن نے جنم لیا اور ہمارے دبستان میں نایاب پھول کھلائے۔ یہ دور موبائل فون‘ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور تصویر کاغذ اور اشاعت پر غالب آتی جا رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب کاغذ اور کتابوں کو بھی عجائب گھر میں رکھا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved