سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بینچ میں شامل آٹھ فاضل ججوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم جاری کیا تو جہاں تحریک مذکورہ میں مزید تحریک پیدا ہو گئی اور اس کے رہنماؤں کے زورِ بیان میں اضافہ ہو گیا‘ وہاں ان کے مخالفین کی نیندیں اُڑ گئیں۔ مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے فیصلے پر تنقید شروع کر دی اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ جج صاحبان نے آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ ان کا پُرزور استدلال ہے کہ تحریک انصاف نامی کوئی جماعت تو سپریم کورٹ میں درخوست لے کر پہنچی ہی نہیں تھی۔ معاملہ سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے درمیان تھا‘ جج صاحبان نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ دبے دبے لفظوں میں جو احتجاج شروع ہوا تھا‘ وہ اب بھاری بھرکم الفاظ میں ڈھل گیا ہے۔ مریم بی بی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی وارننگ دے رہی ہیں تو خواجہ آصف کو آئین کی بساط الٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ رانا ثنا اللہ رانا آفرینی پر اُتر آئے ہیں۔ انہوں نے تند و تیز سوالات کرنے والے اینکر شہزاد اقبال کو جواب دینے کے بجائے ان سے یہ سوال داغ دیا کہ اگر سپریم کورٹ کل یہ فیصلہ دے دے کہ شہزاد اقبال کو صدرِ پاکستان مقرر کر دیا جائے تو کیا اس حکم کی بجا آوری لازم ہو گی؟ کیا شہزاد اقبال کی حلف برداری کا اہتمام آئین کا تقاضا قرار پائے گا؟ اس منطق کا جواب شہزاد اقبال کے پاس نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا اس لیے وہ مسکرا کر رہ گئے۔
وفاقی حکومت کے کئی متعلقین و متاثرین بھی اسی طرح کے دلائل دے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے حریفوں کو لاجواب کر دیا ہے۔ ''جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ‘‘ کا جواب جاٹ بہادر نے یہ کہہ کر دیا تھا ''تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو‘‘ اس پر توجہ دلائی گئی کہ لطف نہیں آیا‘ قافیہ نہیں مل پایا تو جوابی کھڑاک یہ سننے میں آیا کہ قافیہ ملے یا نہ ملے‘ کولہو کے بوجھ سے سر تو ٹوٹے گا۔
پاکستانی سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بدتمیزی اور بے ادبی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس پر فخر کرتے اور اتراتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ان کے مخالفین کے درمیان ''بے تکلفی‘‘ کا جو مقابلہ شروع ہوا تھا‘ وہ عمران خان کے دورِ سیاست میں بہت دور نکل گیا۔ اب تو بھٹو دور کی لغت بہت باحیا اور پردہ دار دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوسرے کے لتّے لیتے لیتے ان اداروں کو بھی لپیٹ میں لیا جانے لگا جو سیاست سے ماورا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (ہوتے ہیں یا نہیں‘ اور ہوتے ہیں تو کتنا ہوتے ہیں‘ اس سوال کو کسی اور موقع کے لیے محفوظ رہنے دیجیے)۔ پاکستان کی الجھی ہوئی سیاست کے کئی معاملات سپریم کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہیں اور کئی مستقبل میں زیر سماعت آ سکتے ہیں‘ اس لیے اہلِ سیاست کھلے اور چھپے ہتھیاروں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہیں۔ سوشل میڈیا‘ جسے برادرم سہیل وڑائچ نے تحریک انصاف کی ''مکتی باہنی‘‘ قرار دیا ہے‘ جناب چیف جسٹس اور ان کے ہم خیالوں پر حملہ آور ہے‘ دباؤ کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے جبکہ روایتی میڈیا کے ذریعے گھن گرج دکھانے والے اتحادی رہنما بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے پر جو بھی تنقید کی جائے‘ اس کی ''غلطیاں‘‘ جس قدر بھی واضح کی جائیں‘ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ تنازعات طے کرنے کا آخری ادارہ ہے۔ تنازع افراد کے درمیان ہو یا افراد اور حکومت کے درمیان‘ صوبے فریق ہوں یا وفاقی حکومت‘ سپریم کورٹ کی رائے حتمی ہو گی۔ اسے ہی آئین کی تشریح و تعبیر کا اختیار حاصل ہے۔ ایک امریکی چیف جسٹس کے بقول: ''یہ درست ہے کہ عدالتیں آئین کے تحت کام کرتی ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ عدالتیں ہی بتاتی ہیں کہ آئین کیا ہے‘‘۔ دنیا کی اس آخری عدالت کے فیصلے کے خلاف اسی کے سامنے نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے اور اگر وہ اسے رد کر دے تو پھر اس کا کہا اور لکھا حرفِ آخر بن جاتا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کر دے اور کسی بھی جج کو فراہم کردہ آئینی تحفظ ختم کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر گزرے یا فیصلے کے اثرات ختم کر دے۔ نیا قانون بنا کر یا قانون میں ترمیم کرکے بھی عدالتی فیصلے کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے‘ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی عمومی قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے‘ اس لیے پارلیمنٹ کی چابکدستی اس کو مہنگی بھی پڑ سکتی ہے اور پرنالہ وہیں کا وہیں رہ سکتا ہے۔
اس وقت برسرِاقتدار جماعتوں کو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں‘ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ آئینی ترمیم کے ذریعے کسی فیصلے کو غیر موثر بنا دیں یا عدلیہ کے پر کُتر ڈالیں۔ پارلیمنٹ میں تقریریں کرکے اسی طرح دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے جس طرح جج صاحبان اپنے ایوان میں بیٹھ کر تند و تیز جملے چست کر سکتے ہیں لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا جس سے سپریم کورٹ کی حکم عدولی واضح ہو‘ ایسی صورت میں توہین عدالت کا آئینی اختیار حرکت میں آ سکتا اور اہلِ اقتدار کو گھر کا راستہ دکھا سکتا ہے۔
برسرِ اقتدار شخصیات کو اچھی طرح نوٹ کر لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم نے انہیں آئین کے تابع حکومت کرنے کے لیے ووٹ دیے ہیں اسے تاراج کرنے کے لیے نہیں۔ کسی بھی شخص اور جماعت کو آئینِ پاکستان نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنی رائے کو قانون قرار دے کر دوسروں پر مسلط کرے اور عدلیہ پر چڑھ دوڑے۔ عدالت کا اختیار اور وقار ہی معاشرے میں توازن اور انصاف قائم کر سکتے ہیں اس لیے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا یا عدالتوں کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کرنا آئین کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ آئین سبوتاژ ہو گا تو ریاست پاکستان اپنی بنیاد سے محروم ہو جائے گی۔ آئین کے جھگڑے میں ہم 1971ء میں آدھا ملک گنوا چکے ہیں‘ بنگلہ دیش بنوا چکے ہیں‘ اب ہم مزید کسی جھگڑے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اہلِ سیاست ہوں یا دوسرے ادارے‘ ایک دوسرے کی بات سنیں۔ عمران خان اپنے مخالفوں کو اور مخالف انہیں تسلیم کریں۔ اقتدار آنی جانی شے ہے۔ ملک روز روز نہیں بنتے۔ اقتدار کو جی کا روگ بنا لینا اور اس کے لیے ہر شے داؤ پر لگا دینا کسی بھی طور دانشمندی نہیں۔ بنگلہ دیش بنوانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن پر کیا گزری اور اپنے مخالفوں کو شکست دینے کی آرزو میں آنکھیں بند کر لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی آنکھیں کہاں اور کیسے کھلیں؟ تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور اپنے اپنے حصے کا سبق حاصل کر لیجیے۔ مجیب اور بھٹو کا انجام یاد رکھیے اور یحییٰ خان کی رسوائی کو بھی نظرانداز نہ کیجیے ؎
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved