گزشتہ پچاس برسوں میں پاکستان معاشرتی طور پر بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں ساٹھ کے عشرے میں برقعے کے بغیر خواتین کم کم دیکھنے میں آتی تھیں۔ ٹیڈی پینٹ اور تنگ پائنچے کی شلوار کا فیشن آیا تو اس کو اتنا معیوب سمجھا جاتا تھا کہ اس دور میں اس فیشن کے خلاف قصے چھاپ کرفروخت کیے جاتے تھے جن میں اس فیشن کا منظوم مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ہمارے جوان قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ مختلف سماجی ، مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر قصے چھاپنے کا رواج ہمارے ہاں عام رہا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی قصہ گو شاعر کسی موضوع پر چار پانچ صفحوں پر اپنی شاعری چھاپ کر اس کی نقول ہاتھ میں لے کر گھماتا پھرتا تھا اور ساتھ ہی ایک آنے دو آنے میں قصے کی نقول فروخت بھی کرتا رہتا تھا۔ یہ کلچر اب ختم ہوچکا ہے مگر ماضی میں یہ ایک بہت مضبوط روایت کے طور پر موجود تھا۔ یہ قصہ گو شاعر کبھی کوئی ادبی مقام تو نہ حاصل کرسکے مگر ہمارے کئی جیّد شاعر و ادیب ان قصہ گو شاعروں کی تخلیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ مثال کے طور پر تقسیم ہند کے دوران ہونے والی قتل و غارت کے پس منظر میں کہا گیا پنجابی کی معروف ادبی شخصیت امرتا پریتم کا یہ شعر دیکھیں ع اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتے قبراں وچوں بول اور تقسیم ہند سے پہلے کے پنجابی زبان کے ایک قصہ گو شاعر کا واقعہ کربلا کے بارے میں حضرت امام حسین ؓ کی بہن حضرت زینب ؓ کی فریاد بیان کرتا ہوا یہ شعر دیکھیں ع اج آکھاں نانے پاکؐ نوں کِتے روضے وچوں بول (یعنی حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینب ؓ اپنے نانا یعنی حضور ﷺ سے فریاد کررہی ہیں کہ کیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ ﷺ اپنے روضہ مبارک سے ہی کچھ بولیں۔) اگر آپ کو اس قصہ گو شاعر اور امرتا پریتم دونوں کے مذکورہ اشعار میں کوئی مماثلت دکھائی دے تو اس کو توارد کہنا محال ہوگا۔ بہرحال بات ہورہی تھی پاکستان میں آنے والی معاشرتی تبدیلیوں کی اور اس حوالے سے ساٹھ کے عشرے میں ٹیڈی فیشن کے خلاف چھپنے والے قصوں کی۔ اس زمانے میں پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بڑے منصب پر فائز ایسی واحد شخصیت تھے جو ٹیڈی پینٹ پہنتے تھے۔ ان پر اخبارات میں اس حوالے سے تنقید بھی ہوتی تھی مگر وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ بعدازاں جب بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو انہوں نے ہی شلوار قمیض کے عوامی لباس کو بے مثال پذیرائی بخشی۔ آج تو اقتدار کے ایوانوں میں شلوار قمیض اورواسکٹ کا رواج عام ہے ورنہ اس دور میں تو کسی چھوٹی موٹی تقریب میں بھی زیادہ تر پینٹ قمیض یا پینٹ کوٹ اور ٹائی ہی دیکھنے میں آتے تھے۔ خیر یہ تبدیلیاں تو ایسی ہیں جو بالکل بے ضرر ہیں بلکہ شلوار قمیض کا عام ہونا تو ہر لحاظ سے احسن ہے تاہم ہمارے ہاں خواتین کے لباس میں چپ کرکے حال ہی میں جو تبدیلی کم از کم شہروں کی حد تک رواج پاگئی ہے اس سے مصالحت کرنا بہت مشکل ہورہا ہے۔ فیشن کس طرح ہماری زندگیوں میں غیرمحسوس انداز میں داخل ہوتا ہے اور پھر کس طرح جم کر بیٹھ جاتا ہے‘ اس بارے میں کوئی ماہر عمرانیات ہی بتا سکتا ہے مگر ہم لوگ جن کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوجاتا ہے، محض اس کا نظارہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ؎ دیکھ سیلاب کو بیاباں میں کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے واقعتاً معاشرتی تبدیلیاں اسی طرح آتی ہیں جس طرح سیلاب بیابان میں اپناسرجھکائے بس آگے ہی بڑھتا رہتا ہے لیکن بعض تبدیلیاں سیلاب کے بجائے سونامی کی طرح آتی ہیں۔ میرا اشارہ ہرگز عمران خان کی سونامی کی طرف نہیں ہے۔ میں سونامی ان معنی میں استعمال کررہا ہوں جو ان تصاویر کی شکل میں ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے‘ جب جاپان کے ساحلی علاقوں میں سونامی کی لہریں گھروں ، گاڑیوں اور بحری جہازوں تک کو تنکوں کی طرح بہا کرلے گئی تھیں۔تباہی کی ایسی تصویریں کم از کم کیمرے کی ایجاد کے وقت سے کسی نے نہیں دیکھی تھیں۔ خواتین کے جس فیشن کا میں نے ذکر کیا ہے جس میں لمبی اور کھلی قمیض کے نیچے Skin Tight پہناوا شامل ہے اس کو آج کل کھلے گلے کی طرف مائل بوتیک کی دکانوں میں تازہ اور جدید لباس کے ساتھ ملاکر جائزہ لیں تو یہ معاشرتی تبدیلی بیابان میں سیلاب کی طرح آگے بڑھتی تبدیلی کے بجائے زیادہ مماثلت اس سونامی سے رکھتی ہے جس نے دنیا کے ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک کی چولیں ہلاکے رکھ دی تھیں۔ معاشرتی تبدیلیوں کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر تعلیم و تربیت سے ان کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں مناسب تعلیم و تربیت کے فقدان نے ایسا ماحول پیدا کررکھا ہے کہ ہمارے بچے فیشن کی چکا چوند کا بہت تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ سیاسی طور پر ہماری جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ حکمران ، امریکہ کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں اور ہمارے عہدیدار حکمرانوں کی چاپلوسی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہماری معاشی حالت کتنی دگرگوں ہے اس کا بھی سب کو پتا ہے۔ ان حالات میں معاشرتی طورپر ہم جس تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کا واضح اشارہ فحاشی سے ملتے جلتے ہمارے ان فیشنوں میں ہے جن کی ترویج پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں جب اخبار میں وزیراعظم پاکستان سے منسوب اس قسم کے بیان پر نظر پڑتی ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح کے تعلقات چاہتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کاش ہماری قیادت ملک کو سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور پر کھائی میں گر کر تباہ ہونے سے بچنے کی کوئی تدبیر کرے۔ اس کے بعد بیرونی دورے بھی برے نہیں لگیں گے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ برابری کے تعلقات کی خواہش کا ذکر بھی جچے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved