دو مقدمات (مخصوص نشستوں کا کیس اورعدت کیس) کے فیصلے پی ٹی آئی کے حق میں آنے کے بعد ملک میں پہلے سے جاری سیاسی مجادلے میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں سرگرم ہونے کی خواہش مند ہے مگر اس کا پارلیمنٹ میں سرگرم ہونا حکومت اپنے لیے اچھا تصور نہیں کرتی اس لیے سب سے پہلے اس نے پی ٹی آئی پر (بطورِ جماعت) پابندی عائد کرنے کا فیصلہ یا اعلان کیا‘ جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آرٹیکل 17 کے تحت کسی بھی پارٹی پر پابندی کے لیے ڈیکلریشن دے سکتی ہے‘ کابینہ منظوری دے گی تو ڈیکلریشن سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا‘ سپریم کورٹ بھی ڈیکلریشن سے متفق ہو جائے تو اس پارٹی پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ابھی اپنا ارادہ ظاہر کیا ہے‘ تاہم اس پر عمل آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف لینے والے ممبران نظر ثانی کے لیے ذاتی طور پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا قصد کیے ہوئے ہیں۔
ابھی یہ مسئلہ پوری طرح کسی 'ہَنے بَنے‘ نہیں لگا تھا کہ ایڈہاک جج لانے کا عندیہ ظاہر کر دیا گیا‘ جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ایڈہاک ججز تعینات ہونے چاہئیں‘ ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی آئین اجازت دیتا ہے اور ان کی تقرری چیف جسٹس نے نہیں بلکہ جوڈیشل کمیشن نے کرنی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کر دی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعطیلات کے دوران ایک ساتھ چار ایڈہاک ججز کو تین سال کے لیے سپریم کورٹ لانا بدنیتی پر مبنی ہے۔ پی ٹی آئی نے اسے حکومت کی نئی چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ منظور نہیں۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اس سے پہلے چار چار ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ جب سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پوری ہے تو پھر اضافے کی کیا ضرورت ہے۔
بحث کو آگے بڑھاتے ہیں‘ آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کیسے تعینات ہوتے ہیں اور ان کے اختیارات کیا ہوتے ہیں۔ ایڈہاک جج مقرر کرنے کے دو طریقے ہیں: ایک‘ وہ جج جو ہائی کورٹ میں موجود ہوں اور ان کو عارضی مدت کے لیے سپریم کورٹ میں لایا جائے‘ دوسرا‘ وہ جج جو سپریم کورٹ کے جج رہ کر ریٹائر ہو چکے ہوں اور ان کی ریٹائرمنٹ کو تین سال کا عرصہ نہ گزرا ہو تو ان کو سپریم کورٹ میں عارضی یا ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے تو جان لیں کہ ریگولر اور ایڈہاک جج‘ دونوں کے اختیارات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ایڈہاک جج کے لیے یہ بھی کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ کوئی ایک کیس سن سکتا ہے اور کوئی دوسرا کیس یا مقدمہ نہیں سن سکتا‘ یعنی ایڈہاک جج ہر طرح کے مقدمات کی سماعت کر سکتا ہے۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایڈہاک ججوں کی تقرری سے مخصوص نشستوں کے کیس پر کچھ اثر پڑ سکتا ہے۔ چونکہ مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت تیرہ رکنی بینچ نے کی تھی تو اگر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست آتی ہے تو وہی تیرہ ججوں کا بینچ اس کی سماعت کرے گا جس نے اس کیس کا فیصلہ سنایا۔ یہ بھی جان لیں کہ پاکستان کی تاریخ میں 1955ء سے 2016ء تک ‘ 61 سال میں22 ججوں نے بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ میں کام کیا۔ جسٹس طارق پرویز آخری ایڈہاک جج تھے جنہیں 13 دسمبر 2015ء سے 13 دسمبر 2016ء تک عارضی جج مقرر کیا گیا تھا۔
اس وقت ملک میں جو مناقشہ چل رہا ہے وہ محض سیاسی نہیں۔ اس کے کئی پہلو‘ کئی جہتیں ہیں۔ یہ کشاکش محض حکومت اور اپوزیشن کے مابین نہیں بلکہ حکومت اور نظامِ عدل اور نظامِ عدل اور مقتدرہ کے مابین بھی محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مخصوص نشستوں اور عدت کیس میں جو فیصلے آئے وہ عدلیہ میں مقتدرہ کی مبینہ مداخلت اور نظامِ عدل میں حکومت کی مداخلت (تاکہ من پسند فیصلے حاصل کیے جا سکیں) کا ردِ عمل ہے۔ چونکہ حکومت کو ایسے فیصلوں کی توقع نہیں تھی تو حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی اور ایڈہاک ججز لانے کی جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے وہ دراصل اسی غصے کا اظہار ہے۔ حکومت کے اس غم و غصے سے دو اور باتیں بھی واضح ہوتی ہیں۔ پہلی‘ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو شرائط پیش کرتی رہی ہے‘ وہ یقینا حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے تھے‘ لیکن حکومت کے پی ٹی آئی کے ریلیف پر مبنی فیصلوں کے بعد کے غم و غصے کو دیکھیں تو یہ اندازہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی مذاکرات کے سلسلے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں تھی اور اس کشاکش میں عام آدمی صرف یہ سوچ رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی بلز پر جو نئے ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں یا پہلے سے لاگو ٹیکسوں کی شرح میں جو اضافہ کیا گیا ہے‘ اس کے ان کی زندگی پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے۔
معاشی درجہ بندی کے ادارے فِچ نے پاکستان سے متعلق اپنی رپورٹ میں معاشی اور سیاسی نوعیت کی پیش گوئیاں کی ہیں جن میں قابلِ ذکر یہ ہیں کہ حکومت 18 ماہ تک برقرا ر ہے گی اورحکومت تبدیل ہوئی تو انتخابات نہیں ہوں گے اور ٹیکنوکریٹ آئیں گے۔ یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد پہلے سے ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال مزید متلاطم ہو گئی ہے اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس اظہارِ خیال نے تو بہت سوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے کہ الیکشن منسوخ قرار دیے جانے کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں اور یہ کہ معاملات آئینی بریک ڈاؤن یا آئینی میلٹ ڈاؤن کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ ان کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر سب ٹھیک نہیں ہے اور سب کو اس پر فوری اور گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس ساری صورتحال میں میرے خیال میں دو ہی راستے بچتے ہیں۔ پہلا‘ سیاسی سٹیک ہولڈر اسی طرح گتھم گتھا رہیں اور حالات کو اسی دھارے پر بہنے دیں جس پر بہہ رہے ہیں‘ پھر چاہے مارشل لاء لگے یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت آئے‘ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا‘ سیاسی سٹیک ہولڈر اپنے سیاسی مسائل سیاسی بنیادوں پر حل کریں اور بار بار اپنے معاملات عدلیہ یا مقتدرہ کے پاس نہ لے کر جائیں۔ جب آپ کسی اور کو اپنے مسائل حل کرنے کا کہیں گے تو پھر اس کی بات ماننا پڑے گی‘ چاہے وہ پسند ہو یا نہ ہو۔ فِچ کی رپورٹ پیشِ نظر رکھیں اور کوئی بھی پارٹی کسی انتہا تک نہ جائے۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر قائم رہ سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved