مادرِ وطن گزشتہ 76برسوں سے دہشت گردی‘ مہنگائی‘ بے یقینی اور سیاسی انتشار کی زد میں ہے۔ قائداعظم کے بعد یہ ملک سیاستدانوں کے ہاتھ میں آیا تو اس کو تباہی و بربادی کے راستے پر ڈال دیا۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک کو دو لخت کر دیا۔ افسوس‘ ہمارے سیاستدان اس سانحے کو ماضی کا قصہ سمجھ کر فراموش کر چکے ہیں۔ جو قومیں ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں اور بار بار غلطیاں دہراتی ہیں ان کا حشر وہی ہوتا ہے جو 1971ء میں ہمارا ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ ہم کسی چیز کو حقارت آمیز ٹھہرانے کیلئے ''دو ٹکے‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن آج ٹکہ ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ ہم نے کشمیرکا بڑا حصہ گنوا دیا‘ بلوچستان میں شدت پسند عناصر سرگرم ہیں۔ آج پھر مکتی باہنی پروان چڑھ رہی ہے۔ قوم میں چھپے میر جعفر ملک کو معاشی‘ سماجی‘ سیاسی اور نظریاتی طور پر کھوکھلا کر رہے ہیں۔ آج بھی مکمل جمہوری ادارے ملک میں ناپید ہیں۔ ملک میں جو سیاسی عدم استحکام ہے اس کی بڑی وجہ سیاستدانوں کا شور و غوغا ہے جو اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو چھپانے کے لیے مقتدرہ کی مداخلت کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں سیاسی اور جمہوری عمل متنازع ہو چکا ہے کیونکہ سیاسی رہنما و سیاسی حکومتیں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ریاست پر حکمرانی کرنے والے اہلِ اقتدار کو عوام کے غربت اور بے روزگاری جیسے گمبھیر تر ہوتے مسائل کا ذرہ برابر احساس نہیں۔ مہنگی بجلی ‘پٹرول اور اشیائے خورونوش کے قوتِ خرید سے باہر ہونے کی وجہ سے عوام کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط نے حالات کے مارے عوام پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر رکھا ہے۔ بڑھتے سیاسی انتشار کے تناظر میں ریاستی اداروں کی بے بسی واضح نظر آرہی ہے۔
حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا اعلان کسی سیاسی جماعت پر پابندی کاپہلا اعلان نہیں ہے‘ ماضی میں بھی ایسے کئی فیصلے کیے گئے تھے۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17کے تحت یہ پابندی لگا سکتی ہے لیکن اس کا حتمی اختیار عدالتِ عظمیٰ کے پاس ہے۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ سائفر کا بیانیہ‘ جس میں پاکستان کی سفارتی سطح پر کافی سبکی ہوئی‘ بعد ازاں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ نو مئی 2023ء ایک یومِ سیاہ ہے جس روز پی ٹی آئی کے کارکنان اور اہم لیڈروں نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے‘ ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کیا‘ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی اور جناح ہاؤس لاہور کو آگ لگا دی گئی۔ یہ ملک سے کیسی محبت ہے؟ بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ریاستی اداروں اور عسکری املاک کو نشانہ بنانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ نو مئی کے واقعات نے بیرونی دشمنوں کو بھی ہمارے جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق سوالات اٹھانے کا موقع فراہم کیا جبکہ پہلے ہی سے معاشی دلدل میں پھنسے ہوئے ملک کی سنگین صورتحال کو مزید بڑھاوا دیا۔ گجرات میں جنرل باجوہ کے خلاف چارج شیٹ‘ میر جعفر و میر صادق کے نعرے۔یہ دیارِ غیر میں پاکستان کا امیج داغدار کرنے کی مذموم کوشش تھی۔ تب یہ بھی کوشش کی گئی کہ آ ئی ایم ایف سے نئی ڈیل نہ ہو سکے‘یعنی ملک کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ملک دشمن عناصر کی طرف سے مختلف طریقوں سے افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہنوز جاری ہے۔ پاک فوج کے جانباز دھرتی پر قربان ہو رہے ہیں اور ان کی یادگاروں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ افسوس‘ عسکری تنصیبات کی بے حرمتی کے منصوبہ سازوں‘ اُس روز عوام کو اکسانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ابھی تک عمل میں نہیں آسکی۔
اب افواجِ پاکستان اور ملک کے خفیہ اداروں پر الزام تراشی کی جاتی ہے‘ ایسا کرنے والے کیا دشمن ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے بارے میں نہیں جانتے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کی 70فیصد عدلیہ را کے کنٹرول میں ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو کسی بھی معاملے میں ''را‘‘ سے وضاحت طلب کرنے کا اختیار نہیں۔ را براہِ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہے۔ حقیقتاً بھارت کا یہ ادارہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور کسی بھی طرح کی نگرانی کے بغیر اپنے طے کردہ اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتا ہے۔ بھارت کی فوج دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہے‘ اس کے باوجود کیا کسی نے وہاں کی آرمی کو دہشت گرد کہا؟ امریکہ میں آپ نے دیکھا کہ سابق صدر ٹرمپ پر حملہ ہوا‘ وہاں کسی کی مجال کہ سی آئی اے پر الزام لگائے یا پینٹاگون پر سوال اٹھا ہو؟ افغان وار میں امریکہ سمیت نیٹو کے اتحادی ممالک مار کھا کر گئے‘ کیا ان ملکوں میں اپنی فوج پر انگلی اٹھی؟ افواجِ پاکستان ہماری جغرافیائی سرحدوںاور ایٹمی اثاثوں کی محافظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری قوتوں نے افواجِ پاکستان کو کمزور کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے‘ یہ کمزور ہوں گی تو ریاست کمزور ہو گی۔ ہماری فوج‘ پولیس‘ خفیہ ادارے دشمن کا ٹارگٹ ہیں۔ آپ خود سوچ لیجیے کہ پہلے خود کش حملوں میں عوام کو نشانہ بنایا جاتا تھا‘ اب دہشت گردوں کا ہدف سکیورٹی فورسز ہیں۔ ڈیجیٹل دہشت گردی‘ جس کا ذکر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے 83ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کیا‘ دہشت گردی کی ایک نئی قسم ہے۔ اس سے پہلے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے ففتھ جنریشن وار سے متنبہ کیا تھا۔ ففتھ جنریشن وار جس ملک کے خلاف ہو‘ وہاں کے عوام کی ریاست کے خلاف ذہن سازی کے لیے اُسی ملک کی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی غلامی نامنظور کا نعرہ لگانے والوں کا سفر ایبسلوٹلی ناٹ سے امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف قرارداد کی منظوری تک آپہنچا ہے‘ جس کے تحت پاکستان کے سیاسی انتخابی سسٹم کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ 26جون کو امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان میں انتخابات کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد کی حمایت میں 368 جبکہ مخالفت میں سات ووٹ پڑے۔ امریکی کانگریس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ایسے بیانات جاری کرے‘ یہ ایک سپر پاور کی غنڈہ گردی کے سوا کچھ نہیں۔ حیرت ہے کہ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے اراکین نے اس قرار داد کے حق میں کیسے ووٹ ڈالے۔ اس قرارداد کے پیچھے پی ٹی آئی کی لابنگ فرمز کا ہاتھ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار سے نکلنے کے بعد امریکہ میں متعدد لابنگ فرمز کی خدمات لیں۔ ان فرمز نے امریکی کانگریس اور چند سابق اہلکاروں سے عمران خان کے حق میں بیان بھی دلوائے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کوئی امریکی قرار داد کشمیر و فلسطین کے حق میں کیوں نہیں آئی؟ IMFکے خلاف کیوں نہیں آئی؟ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کے حق میں قرار داد منظور کی گئی ہو۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی اور بھارتی لابنگ فرمز نے بھی درپردہ اس قرارداد کی منظوری میں کردار ادا کیا۔ وہ ہمارے نیوکلیئر پروگرام سے خائف ہیں۔ یہ عناصر پاکستان میں دہشت گردی‘ شدت پسندی‘ خوف و ہراس اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کرکے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کے غیرمحفوظ ہونے کا تاثر پھیلانا چاہتے ہیں‘ جس میں بھارت اور اس کے دیگر اتحادیوں کی شمولیت خارج از امکان نہیں۔ نائن الیون کے بعد ملک میں دہشت گردوں کی سر کوبی کے لیے آپریشن راہِ نجات‘ آپریشن راہِ حق‘ آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد جیسے آ پریشنز کیے گئے اور اب ملکی سلامتی کو درپیش سنگین خطرات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر بعض سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ کیا ان سیاسی جماعتوں کو ملکی سالمیت کے بجائے سیاسی مفادات عزیز ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved